پریشانی اور مصیبت اگرچہ ہم معنی الفاظ نہیں ہیں۔ پریشانی تو کسی چھوٹی سی بات کے خلاف مزاج پیش آجانے سے ہوتی ہے۔ جبکہ مصیبت کسی بڑی بیماری، بڑے جانی، مالی نقصان پر جو حالت ہوتی ہے، اسے کہتے ہیں۔ مگر لوگ محاورے میں دونوں الفاظ ہم معنی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ پریشانی ہو یا مصیبت، دونوں ہی سے بچنا انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ اس لئے آدمی بہت سی تدابیر کرتے ہیں۔ بیمار ہیں تو ڈاکٹروں اور طبیبوں کے دروازے کھٹکٹاتے ہیں، بے روزگار ہیں تو روزگار کے لئے لوگوں سے سفارش کرواتے ہیں۔ ڈگریاں ہاتھ میں لئے در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔
پریشانی اور مصیبت میں مبتلا لوگوں کی ایک قسم وہ ہے، جو مالی اعتبار سے مضبوط ہیں۔ کارخانوں کے اور دکانوں کے مالک ہیں۔ لیکن سکون و اطمینان سے محروم ہیں، نیند کی گولیاں لینے کے باوجود رات بھر جاگتے ہیں۔ چڑچڑا پن ان کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے۔ بہت سے لوگ پیشہ ور عاملوں کے چکر میں پھنس کر اپنی پریشانی کو بڑھاتے ہی ہیں۔ عقیدے کے بگاڑ میں مبتلا ہوکر اپنے ایمان کو بھی خطرے میں ڈال لیتے ہیں۔
اس زمانے میں کوئی شخص خواہ کنتا ہی مالدار ہو، پریشانی سے خالی نہیں ملے گا۔ اس میں صرف ایک طبقہ ایسا ہے، جو مصائب اور پریشانیوں سے خالی تو نہیں ہے، لیکن مطمئن ہے۔ بلکہ خوش نظر آتا ہے۔ یہ طبقہ اللہ تعالیٰ کے ان بندوں کا ہے، جنہوں نے اپنے معاملات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا ہے۔ اس سپردگی کا اسلامی نام تفویض ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو پریشانی کو بھی لذیذ کردیتی ہے۔ مگر یہ لذت مٹھائی والی نہیں ہے، بلکہ مرچوں والی ہے کہ آنکھ سے آنسو جاری ہیں۔ زبان جل رہی ہے۔ مگر مرچوں بھرے کباب کھاتے رہتے ہیں۔ مگر اس لذت کی حقیقت وہی جانتے ہیں، جو مرچیں کھانے کے عادی ہیں۔
تفویض کی ضرورت ہر کام میں ہے۔ خواہ وہ کام دین کا ہو یا دنیا کا۔ لوگ تفویض کی حقیقت سے نا واقف ہونے کی بنا پر پریشانیوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ مثلاً کسی پر عدالت میں مقدمہ ہو جائے۔ ایک دنیا دار شخص اس پریشانی سے نکلنے کے لئے اپنی تدبیر پر بھروسہ کرتا ہے۔ وہ مقدمے کے نتیجے کی ایک شق متعین کر لیتا ہے کہ اس کا انجام یہ ہونا چاہئے۔ ہمارا وکیل بہت ماہر اور نکتہ رس ہے۔ وہ مقدمہ کا فیصلہ حق میں کرا دے گا اور جب مقدمہ ہار جاتا ہے تو پھر تفویض پر مجبور ہوکر رہتا ہے اور کہتا ہے کہ مقدر میں یوں تھا۔ اس کی یہ تفویض خدا کے لئے نہیں ہے۔ مجبوری کی ہے۔
لیکن جو اللہ والے اہل باطن ہیں، وہ مقدمے کے لے دل ہی سے معاملہ اللہ کے سپرد کر دیتے ہیںکہ ہم تدبیر تو کریں گے۔ لیکن جو بھی فیصلہ ہوگا ہم اس پر راضی ہیں۔ وہ تفویض کر کے تدبیر کو نہیں چھوڑتے۔ کیونکہ تدبیر تفویض کے منافی نہیں ہے۔ البتہ وہ اس سپردگی کی برکت سے پریشان نہیں ہوتے۔ رات کو پاؤں پھیلا کر سوتے ہیں۔ بلکہ حق تعالیٰ شانہ اپنے بندے کی اس سپردگی سے خوش ہوکر اکثر فیصلہ اس کے حق میں کر دیتے ہیں۔ اس لئے بندے کا کام یہ ہے کہ وہ ہر معاملے کو شروع ہی میں اللہ کے سپرد کر کے اس کے فیصلے پر راضی ہو جائے۔
حضرت ذوالنون مصریؒ اللہ کے اولیاء میں بڑے درجے پر فائز ہیں۔ تمام اولیائے کرام ان کے بلند مرتبے کے قائل ہیں۔ ایک مرتبہ ان سے کسی شخص نے پوچھا کہ حضرت آپ کا کیا حال ہے؟ فرمایا: اس شخص کا کیا حال
پوچھتے ہو جس کی مرضی سے دنیا میں سارے کام ہو رہے ہیں۔ کوئی کام بھی اس کی مرضی کے خلاف نہیں ہوتا۔ اس شخص نے حیرت سے کہا کہ حضرت یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، جس کی مرضی سے سارے کام ہوتے ہیں۔ یہ مقام تو انبیائے کرامؑ کو بھی حاصل نہیں ہے۔ فرمایا: بات یہ ہے کہ میں نے اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی کے سپرد کر دیا ہے۔ میرا کوئی کام بھی ایسا نہیں ہے جس میں میری کوئی مرضی ہو۔ سب کا سب اللہ تعالیٰ ہی کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ بس میں بڑی راحت میں ہوں۔ مجھے کوئی تکلیف ہو یا راحت، میں پریشان نہیں ہوتا۔
اس لذت کا احساس ان ہی لوگوں کو ہوتا ہے، جنہوں نے اس دنیا کی حقیقت کو باطن کی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے حضرت شیخ ابن عطاء اللہؒ کے حوالے سے ایک قول نقل فرمایا ہے کہ ایک شخص ایک بزرگ سے ملاقات کے لئے گیا تو وہ یہ دعاء کررہے تھے کہ اے اللہ! میں لذت تفویض سے پناہ مانگتا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ اہل اللہ اپنے نفس کی طرف سے ہمیشہ بدگمان رہتے ہیں۔ اس لئے ان کو یہ خیال ہوا کہ میں نے جو تفویض اختیار کی ہے، وہ اس کی لذت کی وجہ سے اختیار نہ کی ہو۔ اللہ تعالی کو راضی کرنے کے لئے کی ہو۔
تفویض کا عجیب نمونہ:
حضرت تھانویؒ نے تفویض کا ایک عجیب واقعہ نقل فرمایا ہے، فرماتے ہیں۔
حضرت ابراہیم بن ادہمؒ کی ایک حکایت ہے کہ
’’ایک مرتبہ ان کی نماز تہجد ناغہ ہوگئی۔ (اللہ والوں کے لئے تہجد کی نماز کا ناغہ بڑی ہی سخت مصیبت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ناغے پر ان کو سخت رنج ہوا ہوگا)۔ اس کا ان کو رنج ہوا۔ انہوں نے اگلی رات جاگنے کا زیادہ اہتمام کیا تو اس رات یہ عجیب معاملہ ہوا کہ ان کی نماز فجر بھی ناغہ ہوگئی۔ وہ سخت پریشان ہوئے۔ الہام ہوا کہ ابراہیم! تم نے اپنی تدبیر کو دیکھ لیا۔ اب تفویض کرو۔ حضرت ابراہیمؒ فرماتے ہیں کہ فوضت فاستحرت۔ یعنی تفویض کردی اور راحت میں ہوگیا۔ الہام یہ ہوا کہ جب ہم سلائیں۔ سو رہو۔ جب ہم اٹھائیں اٹھ جاؤ۔ (مواعظ اشرفیہ۔ ج 2۔ ص 134)
اس کے بعد حضرت تھانویؒ نے اس شبہ کا جواب دیا ہے کہ پہلے واقعے میں بزرگ نے تفویض کی لذت سے پناہ مانگی ہے۔ مگر حضرت ابراہیمؒ کے اس قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے تفویض اپنی راحت کے لئے اختیار کی۔ الہام کے الفاظ کہ ’’میں نے تفویض کردی اور راحت میں ہوگیا‘‘۔ اس سے راحت میں ہونا ان کا فعل نہیں ہے۔ بلکہ حق تعالیٰ شانہ کا فعل ہے۔ ان کا فعل تو صرف تفویض کرنا تھا۔
مگر یہاں کسی کو شبہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرض نماز کو کیوں ناغہ کروا دیا؟ فرض نماز تو عام نمازی بھی ترک نہیں کرتے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ فرض کرنے والے اللہ تعالیٰ ہیں۔ بندوں پر کسی کام کو فرض کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی قدرت ختم نہیں ہوگئی کہ وہ اپنا کوئی حکم واپس نہ لے سکیں۔ پھر اس میں جو حکمت تھی۔ وہ آگے آرہی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؒ کے اس واقعے میں یہ ناغہ نیند کی حالت میں ہوا اور نیند غیر اختیاری چیز ہے۔ اس لئے حضرت ابراہیمؒ پر شرعاً مواخذہ نہیں ہے اور تیسری بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ کو ان میں تفویض کی کمی معلوم ہوئی ہوگئی۔ تفویض کو کامل کرنے کے لئے ان کی نماز ناغہ کرائی گئی۔
تیسری بات یہ ہے کہ یہ حضرات بڑے لوگ ہیں۔ مگر کبھی کبھی مغلوب ہو جاتے ہیں اور اس غلبے میں محتاط نہیں رہتے۔ اس لئے ان حضرات کی تقلید بغیر علماء سے پوچھے نہیں کرنی چاہئے۔ حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ ’’خواص کو فرض تدبیر سے زیادہ کی اجازت نہیں ہوتی۔ ہم جیسے گنواروں کے لئے وہ قواعد نہیں ہوتے جو خواص کے لئے ہوتے ہیں۔ جیسے ایک حکیم کا قصہ ہے کہ اس نے ایک گنوار کو دیکھا کہ چنے کی چار پانچ روٹیاں کھا کے چھاچھ پی رہا ہے۔ حکیم نے کہا کہ چھاچھ کو درمیان میں پینا چاہئے۔ آخر میں پینا مضر ہے۔ اس نے اپنے بیٹے کو آواز دی کہ ارے فلانے چار ٹکر یعنی روٹیاں اور لے آ۔ چھاچھ کو بیچ میں کرلو۔ یہ حکیم کہہ رہا ہے کہ چھاچھ بیچ میں پینا چاہئے۔ (حوالہ بالا)
حقیقت یہی ہے کہ تفویض کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ لوگوں کا عام طریقہ ہے کہ کوئی مصیبت آئی، کوئی بیماری ہوئی، اس کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں۔ بلکہ بعض لوگ تو اپنی مصیبت کی کہانی لوگوں سے مبالغہ کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ اس طریقے سے تو وہ تکلیف روزانہ تازہ ہوتی ہے اور صبر و تفویض کے راستے میں آڑ بن جاتی ہے۔
رسول اکرمؐ نے اپنے صحابہؓ کو قیامت کے خوف سے گھبراتے دیکھا تو ایسا اکسیر نسخہ عطاء فرمایا کہ اس سے صحابہ کرامؓ کو بڑی تسلی ہوئی۔ فرمایا حسبنا اللہ ونعم الوکیل کہو۔ یعنی تفویض کرو اور خدا پر نظر رکھو۔
حضرت ابراہیم بن ادہمؒ کی زندگی تو تفویض و توکل کا نمونہ تھی۔ بادشاہ تھے۔ شاہی مزاج تھا۔ اللہ تعالیٰ کو انہیں ہدایت دینی تھی۔ ایک چھوٹے سے واقعے سے دل پر چوٹ لگی۔ بادشاہت چھوڑ کر تحت و تاج کو ٹھکرایا اور فقیری اختیار کرلی۔ بادشاہت کے زمانے میں دنیا کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ اس کی حقیقت ان پر کھلی تو دنیا کی بادشاہت کے بدلے اللہ تعالیٰ نے باطن کی بادشاہت عطاء فرما دی۔ دریا کے کنارے گدڑی پہنے بیٹھے گدڑی سی رہے ہیں۔ وزیر حاضر ہوکر عرض کرتا ہے کہ یہ آپ کا کیا حال ہے۔ ان کی ظاہری حالت پر ترس کھاتا ہے۔ عرض کرتا ہے کہ واپس محل میں تشریف لے چلیں۔ یہاں آپ کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ فرمایا: دیکھنا چاہتے ہو کہ مجھے کیا حاصل ہوا ہے۔ اپنی سوئی دریا میں پھینک دی اور مچھلیوں کو حکم دیا کہ میری سوئی مجھے لاکر دو۔ درجنوں مچھلیاں منہ میں سوئی لئے حاضر ہوئیں۔ فرمایا: مجھے میری سوئی چاہئے۔ آخر ایک مچھلی آپ کی سوئی لے کرآگئی۔ وزیر شرمندہ ہوا۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ جو اپنی اس حالت پر مطمئن اور خوش تھے۔ اس کی وجہ تفویض ہی تو تھی۔ اللہ تعالیٰ وہیں ان کے لئے کھانے کا بندوبست کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی تفویض کی دولت سے نوازے۔ اس سے مصیبت بھی آسان، بلکہ لذیذ ہو جاتی ہے۔ ٭