برائے فروخت

جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے پیر کو اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمدکے معاملے کی سماعت کی۔ اس موقع پر فاضل عدالت نے ایف آئی اے کی کارکردگی پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملوث فوجی افسروں کے خلاف وزارت دفاع نے کورٹ مارشل کے لیے کارروائی کیوں شروع نہیں کی؟ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی سمیت دیگر ملزمان کے خلاف ادارہ جاتی تحقیقات سے متعلق سیکریٹری دفاع سے پیش رفت کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کردی گئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن کے مطابق اصغر خان کیس میں اٹھائیس سال پہلے ایک ارب چوراسی کروڑ روپے کی رقم استعمال ہوئی تھی۔ یاد رہے کہ ایک موقع پر ایف آئی اے نے صاف کہہ دیا تھا کہ اصغر خان کیس چوبیس سال پرانا ہے، اس حوالے سے محکمے کے پاس کوئی شہادت بھی نہیں ہے، جبکہ رقوم لینے والے تمام افراد انکار کرچکے ہیں، لہٰذا کیس کو داخل دفتر کردیا جائے، لیکن سپریم کورٹ نے کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے منظور کرلیا۔ یہ 1990ء کی بات ہے جب انتخابی مہم کے دوران الزام لگایا گیا تھا کہ اسلامی جمہوریہ اتحاد میں شامل جماعتوں اور رہنماؤں میں پیپلز پارٹی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے خطیر رقوم تقسیم کی گئیں، پھر یہ کیس عدالت میں آیا تو اصغر خان کے مدعی ہونے کی وجہ سے اصغر خان کیس کہلایا۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے بیان حلفی میں اعتراف کیا کہ پیسے بانٹے گئے تھے، یہ رقم مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب نے فراہم کی تھی۔ واضح ہو کہ کیس کے اصل مدعی اصغر خان گزشتہ سال جنوری میں انتقال کرچکے ہیں۔ ایف آئی اے جیسا تحقیقات کا قومی ادارہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر اس کیس سے جان چھڑانا چاہتا تھا، سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی اس مسئلے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی، کیوں کہ اس حوالے سے ایک بار پنڈورا بکس کھل گیا تو 2018ء کے انتخابات سمیت ماضی کا سارا انتخابی عمل مشکوک قرار پائے گا۔ کیس کے مطابق 1990ء میں جن سیاستدانوں نے رقوم وصول کیں، اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ غلام مصطفیٰ جتوئی پچاس لاکھ روپے، جام صادق علی پچاس لاکھ، محمد خان جونیجو پچیس لاکھ، عبد الحفیظ پیرزادہ تیس لاکھ، صبغت اللہ راشدی عرف پیر پگارا بیس لاکھ روپے، مظفر حسین شاہ چھ لاکھ روپے، غلام علی نظامانی تین لاکھ روپے اور ارباب غلام رحیم دو لاکھ روپے۔ بقیہ رقم جو کسی تیسرے (نامعلوم) شخص کے ہاتھوں تقسیم ہوئی، اس کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ سندھ جام صادق علی نے سات کروڑ روپے، ایم کیو ایم کے الطاف حسین نے دو کروڑ، جاوید ہاشمی کے علاوہ دیگر کچھ ارکان اسمبلی نے کروڑ اور میاں نواز شریف نے (مختلف ادوار میں) ساٹھ لاکھ روپے وصول کیے۔
1990ء میں اگر رقوم کی تقسیم کا کام خفیہ طور پر ہوا تو بعد کی تاریخ بتاتی ہے کہ 1997ء کے انتخابی نتائج کو طے شدہ قرار دیا گیا۔ 2001ء کے انتخابات فوجی صدر کی چھتری تلے ہوئے اور 2008ء میں بھی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے یہی کہا کہ وہ فکسڈ تھے۔ 2013ء اور 2018ء کے انتخابی نتائج پر بھی عوام و خواص کو شدید تحفظات ہیں۔ 1990ء کے بارے میں ایف آئی اے کا مؤقف اگر یہ ہے کہ اٹھائیس سال پرانا ریکارڈ ملنا ممکن نہیں تو اس کے برعکس میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کا چالیس سالہ ریکارڈ کہاں سے دستیاب ہوگیا؟ معاملہ کچھ بھی ہو اور کیسا بھی ہو، یہ تاثر قائم نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان جیسے جمہوری ملک میں اگر عام شہری کسی مقدمے میں ملوث ہو تو وہ آخری حد تک سزا کا مستحق قرار پاتا ہے، جبکہ سیاستدانوں کے مقدمات برسوں تک لٹکے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کسی معاملے میں فوجی اہلکار یا افسران ملوث ہوں تو مقدمات ختم کرنے کی سفارش ہوتی ہے یا عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ تازہ ترین مثال کراچی کے اکثر کنٹونمٹ اور فوجی علاقوں میں تجارت کی غرض سے تعمیر کی گئی سینما گھروں اور دیگر کئی عمارات کو گرانے کا سپریم کورٹ نے حکم دیا لیکن اہل وطن یہ دیکھ کر حیران ہیں کہ کراچی میں کئی مقامات پر جائز اور قانونی سول عمارتیں تو سپریم کورٹ کے حکم کا بہانہ بنا کر گرادی گئیں اور ہزاروں افراد کو روزگار سے محروم کردیا گیا لیکن فوجی علاقوں میں جانے کی کوئی جرأت نہیں کرتا۔ حد تو یہ ہے کہ کراچی کے مصروف ترین راشد منہاس روڈ پر ملینیم مال کے قریب فوجی علاقے میں کئی سینما گھر اور شادی ہال تعمیر کیے گئے ہیں، جو ٹریفک کی روانی میں شدید خلل ڈالتے ہیں، لیکن سپریم کورٹ کے واضح احکام کے باوجود یہ تاحال قائم اور کمائی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ اب جو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے اٹھائیس سال پرانے کیس کو جلد از جلد نمٹانے کے بجائے چار ہفتوں کے لیے سماعت ملتوی کی ہے تو اس سے بھی یہی تاثر لیا جائے گا کہ یہ مقدمہ مزید نہ جانے کتنی مدت تک چلتا رہے، اگر 1990ء کے اصغر خان کیس میں اٹھائیس سال کی تاخیر پہلے ہی ہوچکی ہے تو مزید تاخیر کا کوئی جواز نہیں۔ فوجی اسپرٹ کے ساتھ جلد از جلد اس کا فیصلہ ہوجانا چاہئے۔ فاضل عدالت عظمیٰ نے اس بنچ کے سربراہ جسٹس گلزار احمد نے نجی اسکولوں کی انتظامیہ کے خلاف کیس میں جو ریمارکس دیئے ہیں، وہ سب پر لاگو ہوتے ہیں کہ ’’آنکھ میں ذرا شرم نہیں تعلیم کو بھی کاروبار بنالیا ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ جس کا جہاں بس چلتا ہے انسانوں، جائیدادوں اور مختلف اشیاء سمیت کہیں بھی ’’برائے فروخت‘‘ کا اشتہار لگا کر مال کمانا شروع کر دیتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ٭

Comments (0)
Add Comment