کمپونگ کلنگ مسجد ملاکا میں مقیم برصغیر کے مسلمان سوداگروں نے 1748 میں تعمیر کرائی تھی۔ یاد رہے کہ ہندوستان کے کئی بیوپاری، خاص طور پر گجراتی ایک طویل عرصے سے ملاکا آتے رہے ہیں، یہ مسجد یعنی کمپونگ کلنگ اور کمپونگ ہولو مسجد ایک دوسرے سے بہت مشابہت رکھتی ہیں اور بالکل قریب ہونے کے سبب نیا آدمی مغالطہ کا شکار ہو جاتا ہے اور وہ کمپونگ کلنگ کو کمپونگ ہولو سمجھنے لگتا ہے۔ ان کے پگوڈا جیسے مینار بھی ایک دوسرے بہت ملتے جلتے ہیں۔ بہرحال مذکورہ مسجد کمپونگ کلنگ بیس سال کے بعد تعمیر ہوئی۔ اس سے ملتے جلتے نام والی کپیتان کلنگ مسجد پینانگ جزیرے پر بلنگھام اسٹریٹ اور پٹ اسٹریٹ کے سنگم پر واقع ہے۔ اس مسجد کی تعمیر بھی اوائلی انڈین مسلمانوں نے کی تھی۔ ویسے تو کئی گاؤں، بستیاں اور علاقے ایسے ہیں جن کے نام میں لفظ کلنگ (Keling) شامل ہے۔ مثلاً کمپونگ کلنگ، بُکت کلنگ، تبجنگ کلنگ وغیرہ۔ ملئی زبان میں کمپونگ کا مطلب گوٹھ یا چاردیواری کے اندر کوئی بڑا گھر ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں گوٹھوں میں وسیع رقبے پر چاردیواری یا باڑھ کے اندر کئی بھائی، چچا، تایا اور کزنز کی فیملیز رہتی ہیں۔ انگریزی لفظ کمپاؤنڈ بھی ملئی لفظ کمپونگ سے نکلا ہے۔ ملئی لفظ بُکت (Bukit) کے معنی پہاڑ، پہاڑی اور ٹیلہ ہے۔ تنجنگ کا مطلب ہے سمندری گوشہ۔ لیکن میں یہاں جس لفظ کے معنی کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں وہ کلنگ (Keling) ہے۔ ملائیشیا میں لفظ Keling، جسے ہم اردو یا سندھی میں کلنگ لکھتے ہیں، لیکن ملئی میں کلنغ لکھا جاتا ہے۔ یہ لفظ ملائیشیا میں مقیم انڈین لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گو کہ اس لفظ میں کوئی
خرابی نہیں ہے، لیکن اب جوں جوں ملائیشیا ترقی کرتا جا رہا ہے تو ملائیشیا میں موجود انڈینز کو کچھ نفرت بھرے لہجے میں ’’کلنگ‘‘ کہا جانے لگا ہے۔ جس طرح چائے کے ہوٹل چلانے والے ہندوستانیوں کو تضحیک کا نشانہ بنا نے کے لیے ’’ماما‘‘ (Mamak) کہا جاتا ہے۔ حالانکہ لفظ ماما یعنی ماں کا بھائی بالکل برا نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا، حتیٰ کہ ہندوستان کی تقسیم اور ملائیشیا کو خود مختاری ملنے تک بھی ہمارے ملکوں کی ہر جانب دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ جب 1957 میں انگریز ملائیشیا سے جانے لگے تو وہاں آباد انڈینز سے پوچھا گیا کہ ’’ آپ کو ملاکا کا پاسپورٹ چاہیے یا اپنے پرانے انڈین پاسپورٹ سے مطمئن ہو؟‘‘
کئی لوگوں نے یہ سوچ کر انکار کر دیا کہ ملایا (جو بعد میں 1963 ملائیشیا بنا) میں کون رہے گا جو پورا جنگل ہے۔ ادھر دہلی، لکھنؤ، آگرہ، لاہور، بمبئی، کلکتہ، ڈھاکا وغیرہ دنیا کے ماڈرن اور ترقی یافتہ شہر تھے۔ ملایا میں رہنے والے انڈین میں سے جن لوگوں نے اس لیے بھی ملایا کا پاسپورٹ قبول کر لیا کہ وہ انتہائی غریب تھے۔ ان کے پاس مدراس، بمبئی، دہلی، لاہور، کراچی، کلکتہ، واپس جانے کا کرایہ ہی نہیں تھا اور نہ ہی وہاں ان کے عزیز اقارب تھے۔
اس حد تک کہ ستر کی دہائی میں بھی ہم بحری اور ہوائی جہاز چلانے، انجینئرنگ اور میڈیکل سائنس میں ملائیشیا والوں سے بہت آگے تھے۔ پھر یہ ملئی لوگ، جنہیں ملائیشیا میں رہنے والے انڈین اور چینی جنگلی، کہتے تھے… یہی جنگلوں، دیہات اور قصبوں میں رہنے والے ملئی لوگ اور ان کی اولاد ترقی کی راہ پر گامزن ہوگئے اور ہم… خاص طور پر ہم پاکستانیوں کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی۔ ہم اپنوں اور غیروں میں اپنا امیج خراب کر چکے ہیں۔ بہرحال ایک دور تھا، جب ملائیشیا میں رہنے والے انڈین خاص طور پر اوائلی دور میں آنے والے گجراتی اور دوسرے بیوپاری خاص اہمیت رکھتے تھے اور ملئی لوگوں کو اُجڈ سمجھا جاتا تھا، لیکن اب ملئی لوگ ہرفیلڈ میں بہت ترقی کر گئے ہیں اور ملائیشیا میں رہنے والے لوگ دو قوموں انڈین اور چینیوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی تحریر کر چکا ہوں کہ ٹیگور کی وجہ سے یا آج کل بھی بنگال کے آرٹ، ادب، فلموں، اداکاروں اور گلو کاروں کی وجہ سے انڈیا میں بنگالیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں لفظ بنگالی Derogatory کے انداز میں استعمال ہونے لگا تھا۔ اس قدر کہ بھوکے بنگالی جیسے محاورے بن گئے تھے۔ اس طرح ملائیشیا میں لفظ کلنگ بولا جاتا ہے، کسی کے وعدے پر شبہ کا اظہار کرنا مقصود ہو تو ملئی زبان میں کہا جاتا ہے ’’جانجی کلینگ‘‘ یعنی انڈین جیسا وعدہ کر رہے ہو۔ ملئی زبان میں Tanji کا مطلب وعدہ ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭