یغور پر مظالم اور ترکی چین کشیدگی

ترکی نے چین کے یغور مسلمانوں سے بدسلوکی کے معاملے کو عالمی سطح پر اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ انسدادِ انتہا پسندی کے نام پر چینی حکومت نے لاکھوں ترکی النسل یغور (Uighur) مسلمانوں کو بیگار کیمپوں میں ٹھونس رکھا ہے، جسے چینی حکومت ’’تربیتی ادارے‘‘ کہتی ہے۔ بیجنگ کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی کے سدباب کے لئے مسلمانوں کو ان اداروں میں اعتدال، بقائے باہمی اور مثبت طرزِ فکر کی تربیت دی جا رہی ہے۔ چینی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ تربیت کے نام پر مسلمانوں کو اپنا عقیدہ چھوڑ کر ملحد ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 15 لاکھ سے زیادہ مسلمان ان کیمپوں میں ہیں، جہاں انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
پاکستان، افغانستان اور ہندوستان سے متصل چینی صوبے سنکیانگ (Xinjiang) میں ایک کروڑ یغور مسلمان آباد ہیں۔ تیل و گیس سے مالامال اس صوبے میں مسلمانوں کا تناسب 45 فیصد ہے۔ چینی حکومت نے اسلام کو چینی ثقافت و اقدار سے ہم آہنگ پابند بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے، جس کے لئے Sinicize Islam کے عنوان سے ایک قانون منظور کیا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس ضابطے کا مقصد اسلامی قوانین حتیٰ کہ توحید و رسالت اور آخرت سمیت بنیادی عقائد کو کمیونسٹ فلسفے اور چینی روایات کا تابع کرنا ہے۔
بیجنگ نے اگلے چند برسوں میں تمام یغور مسلمانوں کو ’’چینی اسلام‘‘ سکھانے کا منصوبہ بنایا ہے، جس کے لئے تربیت گاہ کے نام سے بیگار کیمپ قائم کئے گئے ہیں، جہاں مسلمانوں کو ان کا عقیدہ چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ فجر سے پہلے لوگوں کو اٹھا کر چینی صدر ژی کی ’’حمد‘‘ سنائی جاتی ہے، جس کے بعد لیکچر کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ کیمپوں میں مسلمانوں کو نماز کی اجازت نہیں اور ہر کھانے کے ساتھ خنزیر کا گوشت ضروری ہے۔ تربیت دینے والے اساتذہ اپنے ’’شاگرووں‘‘ کو سمجھا رہے ہیں کہ خنزیر عربوں کے یہاں غلیظ جانور تھا، جس کی وجہ سے عرب اسلام میں اس پر پابندی ہے، لیکن چین میں تمام جانوروں کی افزائش کے دوران حفظانِ صحت کا خیال رکھا جاتا ہے، اس لئے ’’چینی اسلام‘‘ میں خنزیر جائز ہے اور اسے حرام کہنا انتہا پسندی کی علامت ہے۔ یہی دلیل شراب کے بارے میں بھی ہے کہ عربوں کے یہاں کچی شراب استعمال ہوتی تھی، جو خللِ دماغ کا سبب بنتی تھی، لیکن چینی اسلام میں شراب پانی اور دوسرے مشروبات کی طرح ہے، لہٰذا اس کی مخالفت مذہبی انتہا پسندی ہے۔ نماز کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ جہاں سب لوگ نماز نہ پڑھتے ہوں، وہاں کام، پڑھائی یا پارٹی کے دوران چند لوگوں کے نماز کے لئے اچانک کھڑے ہو جانے سے معاشرے میں تقسیم پیدا ہوتی ہے، جو قومی اتحاد کے لئے ٹھیک نہیں۔
عورت و مرد کے درمیان یکسانیت کے نام پر مخلوط غسل خانے قائم کئے گئے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ عرب معاشرے میں مرد اور عورت الگ الگ رہا کرتے تھے، جبکہ چینی معاشرے میں مرد و زن کو یکساں حقوق حاصل ہیں اور مخلوط غسل خانوں کی وجہ سے ماں باپ باتھ روم میں اپنے بچوں کی مل کر مدد کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ’’چینی اسلام‘‘ میں صدر ژی عوام کی محبت و عقیدت کے مستحق ہیں، لہٰذا سیرت النبیؐ کے بجائے چینی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ کے اقوال پڑھائے جا رہے ہیں۔ جو لوگ ان کیمپوں میں نہیں، ان کی بھی سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔ جن گھروں کے مرد کیمپوں میں ہیں، ان کی خواتین کی حفاظت کے لئے چینی فوج کے مرد سپاہی تعینات کئے گئے ہیں اور یہ ’’محافظ‘‘ گھر کے اندر رہتے ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ ان گھروں کی حرمت کا کیا حال کیا گیا ہوگا؟
آج کل ہمارے پی ٹی آئی کے احباب احتساب اور انصاف کے لئے چینی ماڈل کا ذکر بہت ذوق شوق سے کرتے ہیں۔ سنکیانگ میں ہر جرم پر بہت سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ ان جرائم میں صوم و صلوٰۃ، خنزیر کے گوشت یا شراب سے انکار، گھر، گاڑی اور جیب سے قرآن کی برآمدگی، بچیوں کے گلے میں اسماء الحسنیٰ پر مشتمل لاکٹ وغیرہ شامل ہیں۔
گزشتہ دنوں انسانی حقوق کے عالمی ادارے Human Right Watch یا HRW نے تفصیلی تحقیق کے بعد یغور مسلمانوں کے خلاف کارروائی کو ثقافتی تطہیر قرار دیا ہے۔HRW نے یورپی ممالک اور اسلامی دنیا سے یغور مسلمانوں کی حالتِ زار پر آواز اٹھانے کی درخواست کی تھی۔ پرسوں ہی یہ خبر بھی شائع ہوئی کہ 57 برس کے یغور شاعر عبد الرحیم حیات کو نعت پڑھنے کے الزام میں چینی فوج نے گرفتار کر لیا اور بدترین تشدد سے ان کی موت واقع ہوگئی۔ عبد الرحیم کی موت پر ترکی نے چین سے شدید احتجاج کیا اور ترک وزارت خارجہ کے ترجمان حامی اقصیٰ Hami Aksoy نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یغور مسلمانوں کی ثقافتی تطہیر اور انہیں اپنا عقیدہ چھوڑنے پر مجبور کرنا انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی اور ساری انسانیت کے لئے شرمناک ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے چین پر زور دیا کہ بیگار کیمپوں کو فوری طور پر بند کرکے وہاں نظر بند مسلمانوں کو عزت و احترام کے ساتھ اپنے گھروں کو جانے کی اجازت دی جائے۔ ترک وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ عقیدے اور طریقہ عبادت کی آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے، جس سے کسی انسان کو محروم نہیں کیا جا سکتا۔
واضح رہے کہ تین برس قبل جب رمضان میں یغور مسلمانوں پر روزہ رکھنے کی پابندی سے متعلق خبریں میڈیا میں آئیں تو اس وقت بھی صرف ترک حکومت نے ہی آواز اٹھائی تھی۔ ترک وزارت خارجہ نے اپنے یہاں تعینات چینی سفیر کو طلب کیا اور اسے وضاحت پیش کرنے کا حکم دیا۔ ترک صدر کے ترجمان ابراہیم کالن نے ایغور مسلمانوں کو روزے رکھنے سے منع کئے جانے کی اطلاعات کو تشویشناک قرار دیا۔ ترکی دنیا کا واحد مسلم ملک تھا، جہاں کے عوام نے سڑکوں پر نکل کر چین میں روزے رکھنے پر پابندی ختم کئے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔ ایسی توفیق اور ہمت پاکستان اور سعودی عرب سمیت کسی ملک کو نہ ہوئی۔
ترک وزارت خارجہ کے حالیہ بیان پر بیجنگ نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور جناب حامی اقصیٰ کی ہم منصب محترمہ ہوا چنیانگ Hua Chunying نے چینی دارالحکومت میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے ترک وزارت خارجہ کے بیان کو حقائق کے منافی اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا۔ انہوں نے یغور شاعر کی موت کی تردید کی اور ایک آڈیو کلپ سنائی، جس میں عبد الرحیم کہہ رہے تھے وہ بالکل خیریت سے ہیں اور ان پر کسی قسم کا تشدد نہیں ہوا۔ تاہم چینی وزارت خارجی کی ترجمان نے اس بات کی تردید یا تصدیق سے انکار کر دیا کہ یہ مسلم شاعر زیر حراست ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ انتہا پسندوں کو قتل کرنے اور ان پر بمباری سے بہتر ہے کہ ہم نصاب میں تبدیلی اور تربیت کے ذریعے انتہا پسندانہ نظریات کی بیخ کنی کر رہے ہیں۔ اس ہٹ دھرمی کا کسی کے پاس کیا جواب ہے؟؟٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment