وزیراعظم عمران خان کے بارے میں عوام کی طرح ان کے اپنے ساتھیوں کی بھی یہ خوش فہمی دور ہوگئی ہے کہ وہ ملک وقوم کے حق میں کوئی بہتر تبدیلی لاسکتے ہیں۔ چھ ماہ تک لوگوں کو بدترین مہنگائی اور بے روزگاری میں مبتلا کرنے کے باوجود وہ کہہ رہے ہیں کہ حالات مشکل ضرور ہیں، لیکن ملک کا مستقبل روشن ہے۔ اپنے وعدوں، دعوئوں اور منشور کے نکات سے پھر جانے والے کسی سیاستدان کے دور میں حالات کا ٹھیک ہونا اور ملک کا مستقبل روشن ہونا کہیں اور کسی کو بھی نظر نہیں آتا۔ عوام کو دھوکا دینے کیلئے ماضی سے آج تک حکمراں ایسی ہی باتیں کرتے چلے آرہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ الف یا ب کے دور میں قومی معیشت کو نقصان پہنچا اور ج بھی یہ کہے کہ ان حالات میں عوام کو کسی قسم کی سہولت فراہم نہیں کی جا سکتی تو اس کی حکومت کا کیا جواز ہے؟ سنہرے خواب دکھانا تو ہر سیاستدان اور حکمران کا وتیرہ رہا ہے اور کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کے برسر اقتدار آنے سے کوئی بہتر تبدیلی نہیں آسکتی تو ہر پانچ سال کے بعد قوم کو انتخابات کے بخار میں مبتلا کرنے، سرکاری خزانے سے اربوں روپے لٹانے اور جگہ جگہ فتنہ وفساد کا ماحول پیدا کرکے صرف حکومتی نہیں، بلکہ نجی املاک کے نقصان اور شہریوں کو ہلاک و زخمی کرنے کا ماحول پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ایک ہی ٹولے اور حکومت کو کھانے کمانے کا موقع دے دیا جائے تو اس کی حرص وہوس میں کبھی تو کمی ہوگی، جبکہ نیا آنے والا ہر حکمران گروہ ازسرنو نااہلی اور کرپشن کے ذریعے ملک کو مزید لوٹ کر پہلے سے زیادہ کھوکھلا کردے گا۔ عمران خان کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ موجودہ مشکل حالات کے باوجود ملک کا مستقبل روشن ہے، جبکہ ان کی حکومت اب تک تو یہی طے نہیں کرپائی ہے کہ اسے مشرق کی طرف جانا ہے یا مغرب کا رخ کرنا ہے۔ عمران خان نے یہ کہہ کر کوئی انکشاف نہیں کیا ہے کہ چوری اور کرپشن کے باعث ملکی قرضے گزشتہ دس برسوں میں ساٹھ کھرب روپے سے بڑھ کر ایک سو تیس کھرب تک پہنچ گئے ہیں اور ان قرضوں پر سود کی ادائیگی چھ ارب روپے یومیہ ہے۔ کیا عمران خان کو 2018ء کی انتخابی مہم کے دوران یہ سب کچھ معلوم نہیں تھا، اگر ایسا ہے تو ایسے بے خبر شخص کو حکمرانی کا منصب کسی طور بھی زیب نہیں دیتا اور اگر معلوم تھا تو انہوں نے ملک اور قوم کے حالات، بالخصوص معیشت کو درست کرنے کا جھوٹا وعدہ کیوں کیا؟ عمران خان کا کوئی قریب ترین ساتھی بھی تصور نہیں کرسکتا تھا کہ وہ برسراقتدار آتے ہی مہنگائی کا گرز لے کر عوام پر پل پڑیں گے اور ساری ذمے داری سابقہ حکومتوں پر ڈال دیں گے۔ آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرنا اب تک تحریک انصاف کی حکومت کیلئے درد سر بنا ہوا ہے، جبکہ حکومت نے اس سود خور عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے شرائط پیش کرنے کا انتظار بھی نہیں کیا اور فوراً ہی پاکستانی کرنسی اور معیشت کو پاتال میں پہنچانے کے اقدامات کر ڈالے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہنوز مذاکرات جاری ہیں، اس سے قرضہ کب اور مزید کن کڑی شرائط پر ملے، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا کہتے ہیں کہ قرضے لے کر قیمتیں آدھی کرنا آسان تھا، لیکن ملک کیلئے مشکل فیصلے کر رہے ہیں۔ قوم کڑوی گولی کھانے کے لئے تیار رہے، عمران خان کی شخصیت ہمارا بانڈ ہے، اس پر ہر شخص پیسہ لگانے کے لئے تیار ہے۔ فیصل واوڈا کے مذکورہ بیان کا کوئی سر پیر نظر نہیں آتا، انہیں کس عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پورے ماہر معاشیات نے بتادیا ہے کہ قرضے لے کر مہنگائی کم اور قیمتیں آدھی کی جاسکتی ہیں، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ گزشتہ ستر برسوں میں وطن عزیز جس اقتصادی بحران میں مسلسل مبتلا چلا آرہا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی قرضے ہیں، جنہوں نے ہمیں کبھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہونے دیا اور معیشت کو اس حال تک پہنچا دیا کہ پچاس کے عشرے میں جو سونا اسی روپے فی تولا تھا، وہ آج ساٹھ ہزار روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ فیصل واوڈا کے خیال میں قرضے لے کر قیمتیں آدھی کرنا موجودہ حکومت کے نزدیک کوئی عیب ہے تو وہ کیوں کشکول گدائی لئے بھیک مانگتی پھر رہی ہے، وہ تو قرضے لے کر بھی مہنگائی میں روزانہ اضافہ کر رہی ہے اور منتظر ہے کہ عربوں کے آنے سے اربوں ڈالر آئیں گے۔ اس وقت تک بلکہ اس کے بعد بھی قوم کڑوی گولی کھانے کے لئے تیار ہے۔ ادھر ان کے سربراہ عمران خان کہتے ہیں کہ سعودی عرب نے اخراجات میں اضافہ کیا، اس لئے ہمیں حج پینتیس فیصد مہنگا کرنا پڑا۔ ہم ملکی معیشت کے پیش نظر زر تلافی دے کر حج کو سستا نہیں کرسکتے، جو لوگ ملک کی معیشت کو تباہ کر کے گئے اور اب کہتے ہیں کہ حج مہنگا کیوں کیا، انہیں شرم آنی چاہئے، سابقہ حکمران اتنا قرضہ چھوڑ کر نہ جاتے تو میں لوگوں کو مفت حج کراتا۔ سبسڈی اگر دینی ہے تو حج پر کیوں دی جائے، کینسر کے مریضوں، غریبوں اور تعلیم سے محروم بچوں کو کیوں نہ دی جائے۔ اول تو وزیراعظم عمران خان کی یہ بات سو فیصد جھوٹ ہے کہ سعودی اخراجات کی وجہ سے حج مہنگا ہوا، انہوں نے برسراقتدار آتے ہی پاکستانی روپے کو جس طرح بے آبرو کیا، اس کی وجہ سے ملک کی تمام اشیائے ضرورت کے نرخوں میں اضافہ ہوا اور اسی وجہ سے حج کے اخراجات بھی بڑھے۔ عازمین حج حکومت سے زرتلافی کی بھیک نہیں مانگتے، بلکہ ان کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ وہ تمام چیزوں کی قیمتیں اسی سطح پر لائے، جو عمران خان کے برسراقتدار آنے کے وقت تھیں تو حج اخراجات میں بھی ناجائز اضافہ نہ ہوتا۔ وزیر اعظم ذرا یہ بھی بتادیں کہ انہوں نے حج اخراجات کیلئے زر تلافی نہ دے کر جو رقم بچائی ہے، اس سے ملک میں کتنے غریبوں کو فائدہ پہنچایا اور ملک بھر میں امیروں اور غریبوں کیلئے یکساں معیاری تعلیم کے کیا انتظامات کئے گئے؟ آج حج کے بارے میں وزیراعظم کے جو خیالات ہیں، ان کی بنیاد پر کل کو وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ واللہ، میں تو پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانا چاہتا تھا، لیکن کیا کروں، سابقہ حکمرانوں نے خزانے میں کوئی رقم ہی نہیں چھوڑی۔ عمران خان یہ بھی فرماتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے ملک میں معاشی استحکام کیلئے جو اقدامات کئے ہیں، ان کے مثبت نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں۔ یہ مثبت نتائج حکومت کے سوا ملک کے کسی اور باشندے کو نظر کیوں نہیں آتے؟ واللہ آج تک کسی حکمران نے اس دھڑلے سے جھوٹ نہیں بولا ہوگا۔ ٭
٭٭٭٭٭