ڈاکٹر فرمان فتحپوری
نقاد بابت ستمبر، اکتوبر، نومبر اور دسمبر 1917ء میں قمر زمانی کا کوئی مضمون نظر نہیں آتا۔ نقاد بھی اس کے بعد بند ہوگیا۔ چھ مہینے کے وقفے کے بعد جولائی 1918ء میں نقاد طلوع ہوا، لیکن دوسرے ہی مہینے سے پھر بند ہوگیا۔ جولائی 18ء کے پرچے میں قمر زمانی کا ایک مختصر سا مضمون بہ عنوان ’’خیالات پریشان‘‘ ملتا ہے۔ یہ بھی دلگیر کو گدگدانے کے لئے ہے۔ اسے بھی دیکھ لیجئے۔
خیالات پریشان کوئل کی بے تابیاں، جنہیں ہم اس کی دل میں پیوست ہوجانے والی آوازوں سے اخذ کر کے اپنے ذوق شعری کے کام میں لاتے ہیں۔ کسے خبر ہے کہ وہ کیا ہیں۔ آپ کہیں گے کہ اس کی آواز اک نالہ ہے۔ اک مسلسل فریاد ہے۔ اک شبون ہے۔ بے تاب۔ اک آہ ہے مضطرب۔ مگر شاید اس سے زیادہ ناقابل عفو غلطی کوئی نہیں ہو سکتا کہ اس غریب کا تنہا ذریعہ مسرت و شادمانی اک سرمایہ جان گدازی سمجھا جاتا ہے۔ آپ نے نہیں لیکن میں نے تو، اس کو ایسی حالت میں دیکھا ہے۔ جب وہ خاموش اور بالکل خاموش ہے۔ اور نہیں کہہ سکتی کہ اس وقت میں نے اس کی دلگیریوں سے کیا کیا صدمے اٹھائے ہیں۔ کیسے سمجھاؤں کہ حقیقتاً وہ اس وقت بے تاب نہیں ہوتی، جب تم اسے اک صدائے بے قرار محسوس کرتے ہو۔ بلکہ اس کی کراہ تو اس کی خاموشی ہے۔ جسے صرف ایک مجبور محبت ہی سمجھ سکتا ہے۔
ہجر میں تکلیف اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ ہم اپنے محبوب سے دور ہیں۔ بلکہ اذیت تو اس خیال سے ہوتی ہے کہ اسے اس دوری کا بھی علم نہیں۔
دنیا میں محبت سے زیادہ موذی چیز کوئی نہیں۔ اگر اس کا تعلق صرف دل سے ہو اور روح اس سے آشنا نہ ہو۔ وہ لوگ جن کی روح اس درد کو محسوس کرتی ہے۔ مسیحائی کر سکتے ہیں۔
میں خط کسی کو نہیں لکھتی۔ مگر اس وقت جب مجھے معلوم ہوجائے کہ اس کی نمائش کی جائے گی۔ حالانکہ نقاد میں مضمون لکھتے وقت مجھے کبھی اس کا خیال نہیں ہوتا۔ یہ انسان کی کمزوری ہے کہ وہ حقیقت کو چھپاتا ہے اور تصنع کو ظاہر کرتا ہے۔ ہر چند یہ بھی ایک آرٹ ہے۔
’’قمر زمانی‘‘
جنوری 1919ء میں نقاد پھر جاری ہوا، لیکن چھ مہینے بعد بند ہوگیا۔ جنوری 1920ء میں پھر نکلا، لیکن صرف دو پرچے شائع ہوئے۔ ایک جنوری میں، دوسرا دسمبر میں۔ نقاد کا آخری شمارہ جنوری 21ء میں چھپا اور اس کے بعد پھر اسے ابھرنے کی نوبت نہ آئی۔ ان پرچوں میں بھی قمر زمانی کا کوئی خط یا مضمون نظر نہیں آتا۔ خطوط کے مسودات میں بھی نہ تو دلگیر کے خطوط نظر آتے ہیں، نہ قمر زمانی کے۔ صرف ایک خط مرقومہ 19 فروری 18ء موجود ہے۔ یہ قمر زمانی کا ہے اور بریلی سے ڈالا ہے۔ اس سے پہلے قمر زمانی کا جو خط نقل کیا گیا ہے، وہ 9 ستمبر 17ء کا تھا۔ گویا 19 فروری 18ء کا خط پورے چھ مہینے بعد لکھا گیا ہے۔ قمر زمانی کا آخری خط بھی ملا خطہ کرتے چلئے۔
بریلی 19 فروری 1918ء
میرے دونوں خط آپ کو مل گئے ہوں گے۔
صرف ایک کا جواب آپ نے دیا۔ یہ بھی غنیمت ہے۔ میں کیا کرتی اگر آپ ایک کا بھی لطف نہ فرماتے ۔ دل پر کیا گزر گئی۔ مجھے معلوم ہے۔ مگر اس علم سے مجھے سوائے تیرے اس کے اور کوئی اندیشہ نہیں کہ کہیں آپ عالم یاس و نامرادی میں تو نہیں، جس کے آپ اس زمانے میں تنہا مالک و فرمانروا ہیں۔ کسی ایسے عزم کا اعلان مجھ پر نہ کر دیں، جس کا جواب میرے پاس سکوت اور صرف سکوت ہو۔ کیوں بناتے ہو۔ اللہ اللہ جس شخص کے دل پر اس وقت تک کچھ نہ گزری ہو، مگر ناگزشتی، وہ مجھے یقین دلاتا ہے کہ یہ سب کچھ واقعہ ہے۔ خبر میں اس کے تسلیم کرنے کے لئے آمادہ ہوں۔ اگر آئندہ کے لئے آپ میری محبت آزمانے سے باز آجانے کا وعدہ فرمائیں۔ میں سچ عرض کرتی ہوں کہ دلگیر صاحب، آپ کی طرف سے میرا دل شکایتوں سے لبریز ہے اور میں یقیناً کسی نہ کسی دن اپنا دل ان کے بیان سے ہلکا کروں گی۔ لیکن ابھی نہیں۔ ورنہ آپ کہیں گے کہ عجیب بد اخلاق عورت ہے کہ خط و کتابت شروع ہوتے ہی…۔
میرے دوسرے خط میں شاید آپ نے کوئی ایسی بات نہیں پائی کہ جواب دینے کی تکلف گوارا فرماتے۔ مارچ میں میرا بھوپال جانا یقینی ہے۔ اور اگر آپ نے اجازت دی تو ایک وقت کے لئے آگرہ اتر کر تاج محل دیکھنا پسند کروں گی۔
اور ہاں، یہ کیا حرکت ہے کہ آپ نے دفتر نقاد کا چھپا ہوا فارم لے کر چھ آنے اتار دیا۔ کیا آپ کوئی کاروباری خط لکھنے بیٹھے تھے۔
آخر نقاد کی اس بے رنگی کا سبب ہے کیا آپ کی رنگینیاں اب اس سے بہتر کسی مصرف کی متلاشی ہیں۔ نہ آپ نے مجھے کبھی اس مسئلہ میں رازدار بنایا ہے نہ بنائیں گے۔ پھر میں غریب کیا کر سکتی ہوں۔ سوائے اس کے کہ نقاد اور صاحب نقاد کی خیر مانگوں۔
میں لیڈیز کانفرنس میں شرکت کرنے کی تیاریاں کر رہی ہوں۔ اس لئے جلد مضمون بھیجنے کا وعدہ تو نہیں کرتی۔ لیکن یہ ضرور یقین دلاتی ہوں کہ آپ چاہے خفا ہو جائیں، لیکن اب نقاد کو ناراض نہ کروں گی۔ چوتھے صفحہ پر کچھ ’’خیالات پریشان‘‘ جمع کر کے پیش کئے جاتے ہیں۔ خدا کرے پسند آجائیں اور نقاد کے صفحات میں بار پا سکیں۔
آپ کی
’’قمر‘‘
قمر زمانی کے خط مرقومہ 19 فروری کے آخر میں جن ’’خیالات پریشان‘‘ کا ذکر ہے وہ جولائی 1918ء کے نقاد میں شائع ہوئے۔ اس خط کا انداز بتاتا ہے کہ دلگیر صاحب قمر زمانی سے پوری طرح بددل ہو چکے ہیں اور شاید بہت دنوں سے ان کے خطوط کے جوابات نہیں دیئے۔ خطوط کے مسودات جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہیں، ان میں دلگیر کا کوئی خط نہیں ہے۔ حالانکہ اوپر کے خط سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قمر زمانی نے انہیں خط لکھے تھے اور انہوں نے صرف ایک کا جواب بڑی بے دلی سے دفتر نقاد کے ایک اشتہاری کاغذ پر لکھ دیا ہے۔ لیکن یہ خط بھی دستیاب نہیں ہے۔
قمر زمانی کے جو دو تین خط اوپر نقل کئے گئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ قمر زمانی از سر نو دلگیر کو اپنی محب کا یقین دلانا چاہتی ہیں۔ لیکن دلگیر کو چونکہ ان کے عورت ہونے میں شبہ ہے اور یہ شبہ یقین کی حد تک پہنچ گیا ہے، اس لئے انہیں قمر زمانی سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭