’’جمعہ‘‘ اور ’’نماز جمعہ‘‘ اسلام اور مسلمانوں کے لئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ جمعہ دراصل ایک اسلامی اصطلاح ہے۔ جس میں مسلمانوں کے اجتماع کو اسلامی شعار قرار دیا گیا ہے۔ اسلام سے پہلے بھی اہل کتاب میں ہفتہ کا کوئی ایک دن عبادت کرنے کے لئے مخصوص تھا۔ یہودیوں کے ہاں سبت (ہفتہ کا دن) اور عیسائیوں کے ہاں شعار ملت اتوار کا دن تھا۔ اسلام نے ان دونوں ملتوں سے اپنی ملت کو ممیز کرنے کے لے جمعہ کو اجتماعی عبادت کے لئے اختیار کیا۔ جمعہ کی فرضیت کا حکم نبی اکرمؐ پر ہجرت سے کچھ مدت پہلے مکہ معظمہ میں ہی نازل ہو چکا تھا۔ لیکن اس وقت مکہ میں کوئی اجتماعی عبادت ادا کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس لئے آپؐ اس پر عمل نہیں کر سکتے تھے۔ آپؐ نے ان لوگوں کو جو آپؐ سے پہلے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچ چکے تھے، یہ حکم لکھ بھیجا کہ وہاں جمعہ قائم کریں۔ چنانچہ مہاجرین کے سردار حضرت مصعب بن عمیرؓ نے بارہ آدمیوں کے ساتھ مدینے میں پہلا جمعہ پڑھا۔ حضرت کعب بن مالکؓ اور ابن سیرینؒ کی راویت ہے کہ اس سے بھی پہلے مدینے کے انصار نے بطور خود آپس میں یہ طے کیا تھا کہ ہفتہ ایک دن مل کر اجتماعی عبادت کریں گے اور اسی غرض سے انہوں نے سبت (ہفتہ) اور اتوار کا دن چھوڑ کر جمعہ کا دن مقرر کیا تھا۔ پہلا جمعہ حضرت اسعد بن زرارہؓ نے بنی بیاضہ کے علاقے میں پڑھا، جس میں 40 آدمی شریک ہوئے۔ یہ روایت مسند احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ، ابن حبان، عبد الرزاق، بیہقی نے بیان کی ہے اور مستند ہے۔ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی ذوق خود اس بات کا مطالبہ کر رہا تھا کہ ایک دن ایسا ہونا چاہئے، جس میں زیادہ سے زیادہ مسلمان جمع ہوکر اجتماعی عبادت کریں اور یہ بھی اسلامی ذوق کا تقاضہ تھا کہ وہ دن عیسائیوں اور یہودیوں کے دن سے مختلف ہو، تاکہ مسلمانوں کا شعارِ ملت ان دونوں ملتوں سے الگ ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ بسا اوقات ایک حکم آنے سے پہلے ہی ان کا ذوق کہہ دیتا تھا کہ اسلام کی روح کس چیز کا مطالبہ کر رہی ہے۔
رسول اکرمؐ نے ہجرت کے بعد جو اہم کام سب سے پہلے کئے، ان سب میں اقامت جمعہ تھا۔ مکہ معظمہ سے ہجرت فرما کر آپؐ پیر کے روز قبا پہنچے۔ چار دن قیام کیا۔ پانچویں روز جمعہ کے دن وہاں سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں بنی سالم بن عوف کے مقام پر تھے کہ نماز جمعہ کا وقت آگیا۔ اس جگہ آپؐ نے پہلا جمعہ ادا فرمایا۔ اس نماز کے لئے رسول اکرمؐ نے زوال کے بعد کا وقت مقرر فرمایا تھا۔ یعنی وہی وقت جو ظہر کی نماز کا وقت ہے۔ ہجرت سے پہلے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو جو تحریری حکم آپؐ نے بھیجا تھا، اس میں آپؐ کا ارشاد تھا ’’جب جمعہ کے روز دن نصف النہار سے ڈھل جائے تو دو رکعت نماز کے ذریعے خدا کے حضور تقرب حاصل کرو‘‘۔ یہی حکم ہجرت کے بعد آپؐ نے قولاً بھی دیا اور عملاً بھی۔ اسی وقت پر آپؐ جمعہ کی نماز پڑھاتے رہے۔ مسند احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، نسائی، ترمذی میں حضرت انسؓ، حضرت سلمہ بن اکوعؓ، حضرت جابرؓ، حضرت بلالؓ نے روایات بیان کی ہیں کہ حضور اقدسؐ جمعہ کے نماز زوال کے بعد ادا فرمایا کرتے تھے اور اس روز آپؐ ظہر کی نماز کے بجائے جمعہ کی نماز پڑھاتے تھے۔ اس نماز میں صرف دو رکعتیں ہوتی تھیں۔ اس سے پہلے آپ خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ یہی فرق جمعہ کی نماز اور عام دنوں کی نماز ظہر میں تھا۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں ’’تمہارے نبیؐ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے حکم کی رو سے مسافر کی نماز دو رکعت ہے۔ فجر کی نماز دو رکعت ہے۔ جمعہ کی نماز دو رکعت ہے۔ یہ پوری نماز ہے۔ قصر نہیں ہے اور جمعہ کو خطبہ کی خاطر ہی مختصر کیا گیا ہے۔‘‘
قرآن میں اٹھائیسویں پارے کی باسٹھویں سورت ’’سورۃ جمعہ‘‘ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لئے جمعہ کے دن، تو خدا کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے۔ اگر تم جانو۔ پھر جب نمازی پوری ہوجائے تو زمین پر پھیل جاؤ اور خدا کا فضل تلاش کرو اور خدا کو کثرت سے یاد کرتے رہو۔ شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے۔‘‘
اس آیت میں جس اذان کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے مراد وہ اذان ہے جو خطبہ سے پہلے دی جاتی ہے نہ کہ وہ اذان جو خطبہ سے کافی دیر پہلے لوگوں کو یہ اطلاع دینے کے لئے دی جاتی ہے کہ جمعہ کا وقت شروع ہو چکا ہے۔ حدیث میں حضرت سائب بن یزیدؓ کی روایت ہے کہ حضور اکرمؐ کے زمانے میں صرف ایک ہی اذان ہوتی تھی اور وہ امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد دی جاتی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں بھی یہی عمل ہوتا رہا۔ پھر حضرت عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں جب آبادی بڑھ گئی تو انہوں نے پہلے ایک اور اذان دلوانی شروع کردی، جو مدینہ کے بازار میں ان کے مکان زوراء پر دی جاتی تھی۔ (بخاری، ابوداؤد، نسائی، طبرانی) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭