الوداع انڈیا

ممکن ہے کہ مودی اس حملے کو اپنی حکومت کی گرتی ہوئی دیوار پر ایک بھرپور وار سمجھے، مگر کشمیر کے لوگ سیاست نہیں کر رہے۔ کشمیر کے لوگ آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ جنگ جس میں ذاتی اور گروہی مفاد کی کوئی گنجائش نہیں۔ کشمیر کی سابق سی ایم محبوبہ مفتی ایسا سوچ سکتی ہے کہ پلوامہ میں بھارتی فوج پر ہونے والے فدائی حملے میں استعمال ہونے والا بارود صرف پچاس فوجیوں کی زندگیوں کو موت کی آغوش میں دھکیلنے کا سبب نہیں بنا، بلکہ یہ بارود بی جے پی حکومت کی کمزور بنیاد کو مزید کمزور کرنے کا سبب بنا ہے۔ سب کو معلوم ہے، نہ صرف وادی کے لوگ جانتے ہیں، بلکہ دلی میں بیٹھے ہوئے تجزیہ نگاروں کو بھی پتہ ہے کہ مفتی محمد سعید کی بیٹی بے صبری سے کانگریس کی جیت کا انتظار کر رہی ہے، تاکہ وہ ایک بار پھر کشمیر کی کٹھ پتلی حکمران بننے کا حلف اٹھا سکے اور کشمیر میں بغاوت کی آگ کو اصلاحات کے پانی سے بجھا سکے، مگر اس کو معلوم نہیں کہ جس آگ کا ایندھن شہیدوں کا خون ہوتا ہے، اس کو سات سمندروں کا پانی بھی نہیں بجھا سکتا۔
سیاست ہوتی ہوگی۔ سیاست ہوتی ہے۔ مگر وہ لوگ سیاست نہیں کرتے جو موت سے مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اترتے ہیں۔ وہ ڈائس جس پر سرخ لائٹ والی روشنی جلتی ہے، جس کو کبھی اوپر کرکے اور کبھی نیچے کرکے لیڈر تقریر کرتے ہیں، اس ڈائس کا مقابلہ اس مورچے سے ممکن نہیں، جس میں ایک مجاہد سرد اور سیاہ رات میں مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ وہ مجاہد صحت کی خرابی کا بہانہ نہیں بناتا۔ وہ مجاہد تنخواہ کے لیے نہیں لڑتا۔ وہ مجاہد اس بارے میں نہیں سوچتا کہ شہید ہونے کے بعد اس کے بچوں کا کیا ہوگا؟ وہ پنشن کے بارے میں فکرمند نہیں رہتا۔ وہ چڑیا کی طرح دانہ کو نہیں دیکھتا۔ اس کی عقابی نظر اس ٹارگٹ پر ہوتی ہے، جس کو ہٹ کرکے وہ خوشی سے ختم ہو جاتا ہے۔
سیاست کرنے والوں کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ لڑنے والوں کے احساسات اور جذبات کو نہیں سمجھ سکتے۔ سیاستدانوں کی سوچ کے پر اس میدان میں داخل ہوتے ہی جلنے لگتے ہیں، جس میدان کے اوپر برق فروزاں ہوتی ہے اور جس میدان میں لڑنے والے آنے والے انتخابات کے بارے میں پریشان نہیں ہوتے۔ وہ اپنے نام کے ساتھ وزیر اور مشیر کا لفظ چپکانے کے لیے اپنی جان قربان نہیں کرتے۔ ان کے لیے یہ رتبہ سب سے بڑا ہوتا ہے کہ ان کے نام سے پہلے ’’شہید‘‘ کا لفظ لکھا جائے۔ وزیر آتے ہیں۔ جاتے ہیں۔ وزیر بہت جلد سابق بن جاتے ہیں۔ مگر کوئی شہید کبھی سابق نہیں ہوتا۔ شہید وقت سے ماورا حقیقت ہوتے ہیں۔ وہ وقت کے بہاؤ میں بہنے والے لوگ نہیں ہیں۔ وہ وقت کے دھارے کو تبدیل کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ تاریخ میں اپنا نام لکھانے بھی نہیں آتے۔ وہ ایک نئی تاریخ بنانے آتے ہیں۔ وہ جب بھی ظلم اور جبر پر ضرب لگاتے ہیں، تب ان کے دل میں مسرت کا چراغ روشن ہو جاتا ہے۔ وہ اس بارے میں سوچنا اپنے ساتھیوں کی قربانی کی توہین سمجھتے ہیں کہ ان کی طرف سے کیے گئے حملے کا بھارتی سیاست پر کیا اثر مرتب ہوگا؟
سیاست کی نظر بہت محدود ہوتی ہے۔ سیاست آنے والے انتخابات کے بارے میں فکرمند رہتی ہے۔ سیاست اقتداری در کی غلام ہونے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ سیاست کو پتہ نہیں ہوتا کہ آدرش کیا ہوتا ہے؟ سیاست کو کیا معلوم کہ انسان اپنی زندگی جس مقصد کے لیے قربان کرتا ہے، وہ مقصد اس کے مفاد سے جڑا ہوا نہیں ہوتا۔ سیاست مفاد سے آگے دیکھنے والی دید سے محروم ہوتی ہے۔ مگر جو لوگ بندوق کی نالی سے نیلے آسمان کا منظر دیکھتے ہیں۔ جو ساری رات کی بارش کے بعد صبح کو کہیں دور کھلے ہوئے پھولوں کی
مہک محسوس کرتے ہوئے زیر لب مسکراتے ہیں۔ وہ لوگ جو کھیتوں، کھلیانوں اور مکانوں کے بارے میں نہیں، بلکہ جنگوں اور جنگی میدانوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی سوچ کی سطح بہت بلند ہوتی ہے۔ وہ پستی میں پڑے ہوئے اقتداری کیچڑ کے کیڑوں کی طرح نہیں چلتے۔ وہ وادیوں میں ہواؤں کے دوش پر ان تتلیوں کی طرح اڑتے ہیں، جن تتلیوں کے بارے میں انگریزی ادب کے رومانوی شاعر کیٹس نے اپنی محبوبہ فینی بران کو ایک خط میں لکھا تھا کہ ’’میں اس ٹی بی سینیٹوریم میں خون تھوکتے ہوئے مرنا نہیں چاہتا۔ میں چاہتا ہوں کہ ایک تتلی کی طرح جیوں۔ اس تتلی کی طرح جو بہار کے موسم میں صرف تین دن زندہ رہتی ہے، مگر وہ تین دن ایک بھرپور زندگی ہوتے ہیں۔‘‘ حریت پسند شاعر نہیں ہوتے۔ وہ شاعری نہیں کرتے۔ وہ شاعری جیتے ہیں۔ وہ اس مادے سے بنے ہوئے ہوتے ہیں، جس مادے سے شاعری بنتی ہے۔ وہ مادہ جس میں تھوڑا ریشم، تھوڑی خوشبو، تھوڑی آگ اور بہت سارا بارود بھرا ہوتا ہے۔ حریت پسند اس مادے سے بنتے ہیں، جس مادے سے خواب بنتے ہیں۔ جس مادے سے ستارے بنتے ہیں۔ جس مادے سے ایک ماں کی بے لوث محبت اور ایک بچے کی معصوم مسکراہٹ بنتی ہے۔ وہ حریت پسند جن کو سیاستدان اور حکمران سفاک مجرم کہتے ہیں، ان کے دل میں شبنم سی نرماہٹ اور ان میں بلبل کے پروں جیسی گرماہٹ ہوتی ہے۔
سیاسی نقطہ نظر سے کشمیر کو دیکھنے والوں کو اس بارے میں علم ہونا چاہئے کہ کشمیری حریت پسند کشمیر کو فطرت کا حسین تحفہ اور اس سے زیادہ اس خطے کا سب سے بڑا آبی خزانہ نہیں سمجھتے۔ ان کو معلوم ہے کہ ان کی وادی کی مادی اہمیت کیا ہے؟ مگر وہ اپنی وادی کا سودہ کرنے والی سیاست سے اتنی نفرت کرتے ہیں، جتنی نفرت ایک ماں کو اپنے بچے کی طرف بڑھنے والے خطرے سے ہوتی ہے۔ ان مجاہدین کے لیے کشمیر جنوبی ایشیا کی اسٹرٹیجک حوالے سے اہم ترین وادی نہیں، بلکہ وہ ماں ہے، جس پر جبر وہ کبھی کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کے لیے کشمیر ایک سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ ان کے لیے کشمیر ان کے ضمیر کی پکار ہے۔ ضمیر کی اس پکار پر پہنچنے والے پلوامہ میں بھارت کے دبدبے کو نیست و نابود کر سکتے ہیں۔
سیاست کے ماہرین اور خاص طور پر عسکری اور اقتداری سیاست کے درمیان سمجھوتہ کروانے کی کوشش کرنے والے سیاستدان اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ کشمیری مجاہدین پلوامہ جیسا حملہ بہت پہلے بھی کر سکتے تھے، مگر ایک حقیقی جنگجو کو معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کے کس مرحلے میں کون سا ہتھیار استعمال کرنا چاہئے؟ بھارتی حکومت نے کشمیریوں پر ہر ہتھیار سے حملہ کیا ہے اور بھارتی حکومت تو ایک نقاب ہے۔ کشمیر میں اصل قوت
بھارتی فوج ہے۔ کشمیر پر بھارتی حکومت کا قبضہ نہیں۔ کشمیر پر صرف اور صرف اس بھارتی فوج کا قبضہ ہے، جس نے کشمیر میں آزادی کی تڑپ کو ختم کرنے کے لیے کشمیریوں کو ہر طرح سے تڑپایا ہے۔ بھارتی فوج نے کشمیر میں سفاکی اور بد اخلاقی کی انتہا کی ہے۔ کشمیر کے ہر دوسرے گھر کی حرمت پر حملہ بھارتی فوج نے کیا ہے۔ کشمیر کے بچوں کی آنکھوں کی روشنی بھارتی فوج نے چھینی ہے۔ کشمیر کے بیٹوں کو زندگی سے محروم بھارتی فوج نے کیا ہے۔ کشمیر کے بزرگوں پر تشدد کرنے اور ان کی توہین کرنے والے بھارتی فوجی ہیں۔ مگر کشمیری حریت پسندوں نے پھر بھی جنگ کی اخلاقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ویسا حملہ نہیں کیا، جس سے ہر بھارتی فوجی پر لرزہ طاری ہو جائے۔ اس بات کا پتہ بھارتی فوج کی قیادت کو بھی ہے اور اچھی طرح سے ہے کہ کشمیری مجاہدین اپنی پوری اور بھرپور طاقت کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ کشمیر کے حریت پسندوں نے ہر طرح سے بھارتی فوج کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ان کی اصول پسندی کا غلط فائدہ نہ لیا جائے، مگر بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔
سیاست کے حوالے سے کوئی کچھ بھی سوچے، مگر بھارت کے وہ سارے سمجھدار افراد جو کشمیر پر گہری نظر رکھتے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ پلوامہ حملہ کوئی اتفاقی کارروائی نہیں ہے۔ پلوامہ ایک حملہ تو ہے، مگر یہ ایک ایسا حملہ ہے، جو حملے کی صورت میں بھارت کی عسکری اور سیاسی قیادت کو وہ پیغام ہے، جس پیغام کو ہندی زبان میں ’’ساودھان‘‘ کہتے ہیں۔ ساودھان کا مطلب ہوتا ہے خبردار! یہ لفظ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے، جب میدان میں ایک لڑاکو دوسرے لڑاکو پر پوری شدت کے ساتھ حملہ آور ہوتا ہے۔ یہ لفظ مقابلے کی ابتدا کا اعلان ہوتا ہے۔ کشمیر کے حریت پسندوں نے پلوامہ والا حملہ اس حوالے سے کیا ہے کہ وہ بھارت کے فوجیوں کو ان کی کمزوری کا احساس دلانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بھارت کے فوجی اس سچائی کو سمجھ لیں کہ کسی ملک پر مستقبل قبضہ ممکن نہیں ہوتا۔ قبضے ہوتے ہیں۔ ملکوں اور قوموں پر قبضے ہوتے ہیں۔ وہ قبضے صدیوں کی آغوش میں پلنے والے برسوں تک جاری رہتے ہیں، مگر بالآخر ان کا خاتمہ بھی آتا ہے۔ ہر استحصال کی ایک ایکسپائری تاریخ بھی ہوتی ہے۔ بھارت کو اب یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اب وہ زیادہ دیر تک کشمیر کو اپنی مٹھی میں نہیں رکھ سکتا۔ کشمیر وہ پتھر ہے، جو گرم ہو رہا ہے۔ بھارت کشمیر کو اپنی مٹھی میں قید نہیں رکھ سکتا۔ بھارت کو یہ حقیقت ماننا ہوگی کہ افغانستان کے بعد اب کشمیر کی باری ہے۔ جس طرح امریکہ برسوں افغانستان پر بارود برسا کر اب بے آبرو ہوکر اس ملک سے نکل رہا ہے، ویسے امریکہ کے ایشیائی اتحادی بھارت کو بھی کشمیر سے اپنے بوریا بستر اٹھانا ہوگا۔
پلوامہ میں ہونے والا وہ خود کش حملہ جس نے نہ صرف وادی میں موجود بھارتی فوج پر خوف طاری کر دیا ہے، بلکہ دلی میں بیٹھے ہوئے عسکری اور سیاسی حکمرانوں کو بھی اس دھماکے نے ہلا دیا ہے۔ اس حملے کا مقصد صرف پچاس بھارتی فوجیوں کو قتل کرنا نہیں تھا۔ میدان جنگ میں جو زبان بولی جاتی ہے، وہ اور قسم کی ہوتی ہے۔ میدان جنگ میں بندوق کے منہ سے بات کی جاتی ہے۔ میدان جنگ میں بارود پھٹ کر دشمن کو صرف نقصان ہی نہیں، بلکہ ایک پیغام بھی دیتا ہے۔ پلوامہ میں ہونے والا حملہ صرف ایک فدائی کارروائی نہیں تھا۔ پلوامہ میں ہونے والے حملے میں ایک پیغام بھی پوشیدہ ہے۔ اس پیغام میں بھارت کو کہا گیا ہے کہ: اب تمہارا وادی سے جانے کا وقت آگیا ہے۔ الوداع انڈیا!! ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment