’’ SAPs‘‘

سابق امریکی معاشی غارت گر John Perkins نے اپنی کتاب The Secret History of the American Empire میں گزشتہ چند عشروں کے دوران میں معاشی دہشت گردوں کی طرف سے کئی ممالک میں پیدا کیے گئے چھوٹے بڑے اقتصادی بحرانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے SAPs کی تفصیلات بیان کی ہیں، جو دراصل معاشی طور پر کمزور ممالک کو اپنا غلام بنانے کے لیے تیار کیا گیا آئی ایم ایف کا پھندہ ہے، کہ اقتصادی غلامی بھی دراصل غلامی کی ہی جدید شکل ہے۔ کیونکہ زمانہ قدیم میں طاقتور اقوام، غریب قوموں پر کھلے عام فوجی یلغار کیا کرتی تھیں۔ ان کی فوجی یلغار میں کوئی مکاری اور عیاری پوشیدہ نہیں ہوتی تھی، لیکن اب دنیا پر سرمایہ دارانہ تسلط کے ذریعے نوآبادیاتی نظام کو فروغ دینے کے لیے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں۔ جان پرکنز کے مطابق 1997ء میں کئی ایشیائی ممالک جب آئی ایم ایف کے پیدا کردہ اقتصادی بحران کی زد میں آئے۔ خاص طور پر انڈونیشیا، جنوبی کوریا، فلپائن، لائوس اور تھائی لینڈ کے غریب عوام اس بحران کے ہاتھوں بُری طرح کچلے گئے۔ اس موقع پر آئی ایم ایف آگے بڑھا اور ان ممالک کو نادہندہ قرار پانے سے بچانے کے لیے نئے قرضوں کی پیش کش کر دی، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ قید بھی لگا دی کہ یہ قرضے آئی ایم ایف کے Structural Adjustment Package کو قبول کرنے کی صورت میں ہی دیئے جاسکیں گے۔ اسی پیکیج کو مختصراً SAPs کہا جاتا ہے۔
جان پرکنز کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کا خواہش مند ملک اگر SAPs کے تحت قرض اٹھانے پر آمادہ ہو جائے تو اُس کے سامنے مندرجہ ذیل شرائط رکھی جاتی ہیں:
1۔ مقامی بینکوں اور مالیاتی اداروں کو فیل ہونے دیا جائے ۔
2۔ حکومت کے اخراجات پر ایک جبری کٹ لگایا جائے۔
3۔ غریب عوام کو ایندھن، خوراک اور دیگر ضروری سروسز کی فراہمی پر دی جانے والی سبسڈیز ختم کی جائیں
4۔ شرحِ سود میں مزید اضافہ کیا جائے ۔
5۔ اپنے زیادہ سے زیادہ قومی اثاثوں کو پرائیویٹائز کرکے ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے ہاتھ فروخت کیا جائے۔
معاشی ماہرین کے مطابق ان شرائط پر آئی ایم ایف سے قرض لینے والے ممالک کی حکومتوں کو بجٹ خسارا کم کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے، جس کے لیے بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کی جاتی ہے۔ پبلک سیکٹر میں دی جانے والی سبسڈیز ختم کی جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھتی ہے اور شرحِ نمو سست ہو جاتی ہے۔ جو ممالک SAPs کے تحت قرض اٹھاتے ہیں، وہاں کے غریب عوام گلے تک غیر ملکی قرضوں کی دلدل میں دھنس جاتے ہیں۔ اس بابت جان پرکنز لکھتے ہیں کہ ’’1980ء کے عشرے میں جمہوری اصلاحات کی لہر نے سارے لاطینی امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ نئی حکومتیں آئیں تو انہوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ’’ماہرین‘‘ سے رجوع کیا کہ وہ اُن کے مسائل حل کرائیں۔ جواباً انہیں ساختیاطی ردوبدل کے منصوبے (Structural Adjustment Package) یعنی ’’SAPs‘‘ پر عمل درآمدکی ترغیبات ملیں، جس پر انہوں نے عوام کے ناپسندیدہ اقدامات شروع کردیئے۔ یہ اقدامات عوامی ضروریات کی سروسز کی پرائیویٹائزیشن سے لے کر فلاحی سروسز کا سلسلہ ختم کرنے تک تھے۔ اندھا دھند بڑے قرضے اٹھا لیے تھے، جو ایسے منصوبوں کے ذیلی ڈھانچوں (Infrastructure) کی تعمیر پر خرچ ہوئے، جن سے بالائی طبقے کی پُر تعیش زندگی کے اسباب کی فراوانی ہو سکتی تھی۔ اس طرح ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے اور یہ بوجھ نسل در نسل متوسط اور نچلے طبقوں پر ظالمانہ ٹیکس عائد کر کے اُتارا جاتا ہے۔‘‘ ایک اور مقام پر وہ لکھتے ہیں کہ ’’کارپوریٹو کریسی کے کنٹرول حاصل کرنے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ تھا کہ وہ 1970ء کے عشرے میں لاطینی امریکہ کی مطلق العنان حکومتوں کو مضبوط سے مضبوط تر بناتی رہی۔ یہ حکومتیں ایسی اقتصادی پالیسیوں کے تجربے کرتی رہیں، جو سراسر امریکی سرمایہ کاروں اور بین الاقوامی کارپوریشنوں کے مفاد میں تھیں اور مقامی معیشتوں کو عموماً نقصان سے دوچار کرتی رہیں۔ اس کے نتیجے میں کساد بازاری، افراطِ زر، بے روزگاری اور دیگر بُرے اثرات مرتب ہوتے رہے۔ متاثرہ عوام کی طرف سے شدید احتجاج ہونے کے باوجود واشنگٹن کے حکمران کرپٹ لیڈروں کی تعریف و توصیف کرتے۔ جتنا یہ اپنی قوموں کو کنگال کرتے اور ذاتی املاک بڑھاتے، اتنے ہی اُن کے منظورِ نظر بنتے۔‘‘
اِن ملٹی نیشنل کمپنیوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے حکام اپنے ’’شکار‘‘ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، اس سلسلے میں جان پرکنز نے بولیویا کی ہی مثال دی ہے۔ وہ جب لاطینی امریکہ کی پاور انڈسٹری کے حلقوں میں بے پناہ شہرت رکھنے والی ایک ایسی ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کے لیے بولیویائی صدرمقام ’’La Paz‘‘ پہنچے، جو وہاں پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہی تھی، توکمپنی کے ایگزیکٹو افسر نے انہیں مختلف سائٹس کا دورہ کراتے ہوئے کہا کہ وہ انہیں کمپنی کے آپریشنز کا اہم ترین حصہ دکھانا چاہتا ہے اور پھر وہ انہیں شہر کے وسط میں ایک کمرشل بینک کے پاس لے گیا۔ سہ پہر کا وقت تھا اور بوندا باندی جاری تھی۔ جان پرکنز نے وہاں کیا دیکھا، وہ انہی کی زبانی پیش ہے: ’’کیا دیکھتا ہوں کہ بینک کی بلڈنگ کے پہلو اور بلاک کے گردا گرد چیختے اور غل غپاڑہ کرتے ہوئے مقامی لوگوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ وہ بوندا باندی سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کے اندر گھسے جا رہے ہیں۔ بعضوں نے اپنے سروں پر اخبار کے صفحات کھول کر رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے روایتی لباس، اونی پتلونیں، سکرٹس اور کمبل نما لبادے پہنے ہوئے تھے۔ میں نے کاروِنڈو کو ذرا سا نیچے کھسکایا تو ٹھنڈی ہوا کا ایک تیز جھونکا اندر آیا، جس میں گیلی اون اور اَن دُھلے جسموں کی بدبُو رچی بسی تھی۔ ان لوگوں کو دیکھ کر مجھے وہ دن یاد آگئے، جب ہسپانوی فاتحین ٹِن کی کانوں میں کام کرانے کے لیے ان کی قطاریں لگواتے تھے۔ لوگ ان قطاروں میں دم سادھے کھڑے تھے کہ انہیں آگے بڑھنے کا موقع ملے۔ قطار ایک ایک قدم کئی کئی منٹوں میں طے کر رہی تھی۔ آگے بینک کے بھاری دروازوں میں مسلح محافظوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا اور وہ انہیں قطار ٹھیک رکھنے کے لیے ڈانٹ رہے تھے۔ پھٹے کپڑوں والے درجنوں بچے قطار کے ساتھ ساتھ بکھرے ہوئے تھے۔ بہت سی عورتوں نے اپنے شیر خوار بچے شالوں میں لپیٹ کر کندھوں کے ساتھ لگائے ہوئے تھے اور کندھوں سے پانی کے قطرے زمین پر گر رہے تھے۔ ایگزیکٹو افسر نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’’یہ لوگ اپنے بجلی کے بل جمع کرانے آئے ہوئے ہیں‘‘۔
میری اہلیہ ونیفرڈ بڑبڑائی: ’’کیسا وحشیانہ منظر ہے‘‘۔
ایگزیکٹو افسر نے فوراً تصحیح کرتے ہوئے کہا: ’’یہ تو بڑے خوش قسمت ہیں۔ یہ اپنے دیہاتی بھائی بندوں کے برعکس گرڈ کے آس پاس رہتے ہیں، اسی لیے انہیں بجلی میسر ہے‘‘۔ جب ہم آفس کی طرف واپس مڑنے لگے تو شوفر کی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ایگزیکٹو افسرنے مذکورہ کمپنی کا نام لے کر کہا کہ وہ کمپنی دراصل کیش کی صورت میں دودھ دینے والی گائے ہے، جو رقوم کی بوریاں بھر بھر کر باقاعدگی سے امریکی سفارت خانے کے ذریعے امریکہ بھیجتی ہے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ ان مقامی لوگوں کے لیے بجلی کا استعمال اگرچہ صرف ایک بلب روشن کرنے تک محدود تھا، لیکن انہیں ایک مرتبہ بینک کی زیارت ضرور کرنی پڑتی تھی۔ ان کا کوئی بینک اکائونٹ تھا نہ کریڈٹ کارڈ، بس ہاتھ میں نقدی تھامے صبر سے لائن میں کھڑے رہتے‘‘۔
البتہ 1997ء کے اقتصادی بحران کے دوران میں جن ایشیائی ممالک نے آئی ایم ایف کی SAPs پالیسی پر عملدرآمد سے گریز کیا، ان کی قومی معیشت تباہ ہونے سے بچ گئی۔ اس سلسلے میں جان پرکنز نے چین، بھارت، تائیوان اور سنگاپور کی مثال دی ہے کہ ان ممالک نے آئی ایم ایف کی مذکورہ پالیسی کو قبول نہ کیا، چنانچہ ان کی اقتصادی حالت مستحکم رہی۔ ملائیشیا نے ابتداء میں آئی ایم ایف کی اس پالیسی کے سامنے سر جھکایا تو وہ کساد بازاری کی لپیٹ میں آگیا، لیکن جان پرکنز کے الفاظ میں ’’جیسے ہی اُس نے SAPs کی طرف پشت کر لی تو پھر سنبھل گیا‘‘۔ جان پرکنز کے مطابق آئی ایم ایف دراصل فاسٹ ٹریک کیپٹل ازم ہے، جس میں سرمائے کے بہائو پر کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ پرائیویٹائزیشن کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ شرحِ سود بلند رکھی جاتی ہے تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ لانے کی ترغیب ملے اور بینکوں کا سرمایہ سیکورٹیز مارکیٹوں میں آئے۔ لیکن چین نے اس کے بالکل برعکس رستہ اختیار کیا۔ اس نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اپنا سرمایہ سیکورٹیز کے بجائے فیکٹریوں میں لگانے کا مشورہ دیا۔ اس کے دو فائدے ہوئے۔ چین کو آئندہ سرمائے کے فرار سے تحفظ مل گیا اور عام آدمی کے لیے روزگار کے مواقع بڑھنے کے علاوہ دیگر ضمنی پیداواروں کے فوائد بھی حاصل ہوئے۔ واضح رہے کہ چند روز قبل آئی ایم ایف کی سربراہ سے ملاقات کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے بھی قوم کو ’’ڈھانچہ جاتی اصلاحات‘‘ کے حوالے سے اپنے اور آئی ایم ایف کی سربراہ کے خیالات میں ہم آہنگی کا مژدہ سنایا ہے۔ العربیہ اردو کی خبر کے مطابق 10 فروری کو دبئی میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لاگاردے کے مابین ہونے والی اہم ملاقات کے بارے میں وزیر اعظم نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’’اُن کے اور کرسٹین لاگاردے کے درمیان ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے حوالے سے خیالات میں ہم آہنگی پائی گئی ہے۔ ان اصلاحات کے نتیجے میں ملک پائیدار ترقی کی ڈگر پر چل پڑے گا اور ان کے ذریعے معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کا تحفظ کیا جائے گا‘‘۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق مذکورہ عالمی مالیاتی ادارے کی سربراہ کا کہنا ہے کہ پاکستان فیصلہ کن پالیسیوں اور اقتصادی اصلاحات کے ایک مضبوط پیکیج کے ذریعے اپنی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر بحال کر سکتا ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی حکومت کے پالیسی ایجنڈے کے حوالے سے کہا کہ غریبوں کا تحفظ اور نظم و نسق کو مضبوط بنانا ایک پائیدار انداز میں لوگوں کا معیار ِ زندگی بہتر بنانے کے لیے اس کی بنیادی ترجیحات ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment