مسلمانانِ عالم کے دو بڑے مراکز کا اشتراک و اتحاد

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنا دو روزہ دورہ مکمل کر کے چلے گئے۔ ان کی پاکستان آمد کے موقع پر جو زبردست تیاریاں کی گئیں اور جس شاندار طریقے سے ان کا تاریخی استقبال کیا گیا، اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ اس لیے کہ سعودی عرب وہ ملک ہے، جو پاکستان کی ہر مشکل گھڑی میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ امداد کے ساتھ پیش پیش رہا ہے۔ یہ بات بار بار دہرانے کے لائق ہے کہ ایک زمانے میں جب بارشوں اور سیلاب نے پاکستان میں زبردست تباہی مچا رکھی تھی تو امریکا نے امدادی سامان بھیجتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا کہ ہم تو پاکستان کی مدد کر رہے ہیں، لیکن اس کا دوست سعودی عرب کہاں ہے، جو پاکستان کی امداد کے بڑے بڑے دعوے کرتا ہے؟ جواب میں سعودی عرب نے اپنا امدادی سامان نہیں دکھایا، بلکہ سعودی سفیر نے کہا کہ میں تو اپنے پاکستانی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے سیلاب زدہ علاقے میں گھنٹوں گھنٹوں پانی میں کھڑا ہوں۔ امریکی طنز کے جواب میں سعودی سفیر کی یہ تصویر دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہوئی تو امریکا کو شاید شرم سے ڈوبنے کے لیے زبردست بارشوں اور سیلاب کا یہ پانی بھی کم نظر آیا۔ چنانچہ اس نے خاموشی ہی میں اپنی عافیت جانی۔ پندرہ سال بعد کسی اہم سعودی شخصیت کا دورئہ پاکستان دونوں ملکوں کے پہلے سے نہایت خوشگوار تعلقات میں یقیناً اضافہ کرے گا۔ اسی لیے ان کی پاکستان آمد پر والہانہ استقبال، صدر عارف علوی، آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات، شاندار عشائیہ اور پرتکلف ظہرانے کے علاوہ کم از کم تیس سعودی تاجروں کی مقامی حکام اور متعلقہ وفود سے ملاقاتیں یقیناً قابل ذکر ہیں۔علاوہ ازیں شہزادہ محمد نے وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر سعودی عرب میں قید دو ہزار سترہ پاکستانیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان سعودی حکمرانوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے کوئی عام فرد یا صرف ولی عہد نہیں ہیں، بلکہ عملاً وہ اپنے والد کا منصب سنبھالے ہوئے اور وسیع حکومتی اختیارات کے حامل ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے انہیں عالمی سطح پر بھی انتہائی بااثر شخص قرار دیا ہے۔ شاید ہی کوئی سعودی شہزادہ بین الاقوامی طور پر اتنی تیزی سے ابھرا ہو۔ انہوں نے اپنے ملک میں جدید دور کے تقاضوں کی روشنی میں کئی اصلاحات کی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے دعوٰی کیا ہے کہ کرپشن کے خلاف ان کے اور شہزادہ محمد بن سلمان کے خیالات یکساں ہیں۔ ہر بات کا کریڈٹ لینے کے عادی عمران خان نے صرف خیالات کی یکسانی کو اپنے لیے بڑا اعزاز قرار دیا ہے، جبکہ حکمرانوں کے لیے الفاظ، خیالات اور بیانات سے زیادہ عمل اہم ہوتا ہے کہ وہ اس اپنے ملک اور معاشرے کو کیا فائدہ پہنچاتے ہیں۔
شہزادہ محمد بن سلمان تو سعودی عرب کا بادشاہ نہ ہونے اور محض ولی عہد ہونے کے باوجود شاہی خاندان کے کئی افراد کو قید و بند میں ڈال کر اپنی مملکت کی لوٹی ہوئی دولت نکلوانے کا کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔ اس کے برعکس عمران خان بحیثیت وزیر اعظم مکمل طور پر اختیار ہونے کے باوجود اپنی اور دوسری جماعتوں کے لیڈروں سے لوٹ کا مال واپس لینے کے بجائے عوام ہی پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان میں بیرونی امداد اور قرضوں کے بغیر معیشت کو سنبھالنے کی اہلیت ہے نہ جرأت۔ اپنے دورئہ پاکستان کے موقع پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور ان کے ساتھ آنے والی اعلیٰ حکومتی و تجارتی شخصیات نے بیس ارب ڈالر کے معاہدوں اور مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط کیے۔ اسے سعودی ولی عہد نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا پہلا مرحلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں مزید سرمایہ لگا کر ان کا ملک اپنے پاکستانی بھائیوں کی ترقی و خوشحالی میں آئندہ بھی کردار ادا کرتا رہے گا۔ ایک اور اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ چین نے سی پیک میں پاکستان کو مرکزی فریق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسے راہداری کے اس منصوبے میں سعودی عرب سمیت کسی بھی ملک کی شمولیت پر اعتراض نہیں ہے۔ پاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ گوادر میں کسی بھی ملک کو سرمایہ کاری کی ترغیب دے۔ یاد رہے کہ سعودی عرب گوادر میں دنیا کے سب سے بڑے آئل سٹی کے قیام کا پہلے ہی اعلان کر چکا ہے۔ دو ملکوں کے درمیان ہونے والے معاہدے اپنی جگہ بڑی اہمیت رکھتے ہیں، لیکن جہاں تک مفاہمتی یاد داشتوں کا تعلق ہے تو وہ ان کی حیثیت اس وقت تک صرف سمجھوتوں کی رہتی ہے، جب تک مزید گفت و شنید کے ذریعے انہیں باقاعدہ معاہدوں میں تبدیل نہ کر دیا جائے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ سعودی عرب سے پاکستان کے سیاسی و دفاعی اور عوامی سطح پر تعلقات بلاشبہ مضبوط رہے، لیکن تجارتی معاملات میں دوطرفہ کمی بہرحال محسوس کی جاتی رہی ہے۔ سعودی مملکت اور متحدہ عرب امارات سمیت خلیج کے کئی مسلم ممالک کے ساتھ بھارت کے تجارتی و ثقافتی تعلقات پاکستان سے زیادہ خوشگوار اور مستحکم نظر آتے ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ بھارت کا آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہونا ہے۔ وہ چین کے بعد سب سے سستی مصنوعات تیار کر کے دنیا میں پھیلاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سعودی ولی عہد کے دورئہ پاکستان کے بعد ہماری معیشت کو مضبوط بنانے میں ان کا ملک کیا اور کتنا تعاون کر سکتا ہے۔ دونوں ممالک کا ایک ایک نمایاں وصف انہیں قریب رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ایک یہ کہ سعودی عرب میں واقع حرمین شریفین دنیا بھر کے مسلمانوں بلکہ ان سے کہیں زیادہ پاکستانی مسلمانوں کے لیے عزت و احترام کا سب سے بڑے مراکز ہیں۔ دوسری طرف پاکستان مسلم دنیا کا واحد ایٹم بردار ملک ہے، جو یقیناً مسلمانان عالم کی حفاظت و سلامتی کا ضامن ہے۔ ایک اور نکتہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ سعودی ولی عہد نے پاکستان سے محبت و یکجہتی اور تجارتی تعلقات و سرمایہ کاری کے فروغ کا جو اظہار کیا ہے، اس پر ان کے دورئہ بھارت تک کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی۔ کیوں کہ ہر ملک کے اپنے تجارتی معاملات و مفادات ہوتے ہیں۔ بھارت جیسے آبادی اور وسائل کے لحاظ سے بڑے ملک کو نظر انداز کرنا کسی کے لئے بھی آسان نہیں ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے جہاں سعودی عرب کو بھی تجارتی فوائد حاصل ہوں گے، وہی مسلم دنیا کی دو بڑی، روحانی اور مادی قوتوں کا مستقل اشتراک و اتحاد مسلمانانِ عالم کی تقویت کا باعث بھی رہے گا۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment