’’داعش کیسے وجود میں آئی؟‘‘

امریکا میں 11/9 حملوں کے بعد دو بڑی جنگوں کے لئے راہ ہموار ہوگئی۔ ان جنگوں میں ایک طرف عراق کو کھنڈرات میں بدل دیا گیا، جبکہ دوسری طرف افغانستان کا کم و بیش یہی حال ہوا۔ بڑی طاقتوں کا یہ مطالبہ تھا کہ طالبان حکومت اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کر دے، جبکہ طالبان حکومت نے مجبوری کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے کلچر میں مہمان نوازی کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ اسامہ بن لادن افغانستان میں مہمان ہے۔ ہمارے لئے انہیں امریکا کے حوالے کرنا ممکن نہیں۔ جس کے جواب میں امریکا کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے نیٹو فوج کے تعاون کے ساتھ افغان پر 7 اکتوبر 2001ء کو چڑھائی کردی، جس میں انتہائی جدید بموں کا استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں افغانستان کے پہاڑ لرز کر رہ گئے۔ لیکن طالبان حکومت اپنے مؤقف سے ٹس سے مسں نہ ہوئی۔ اس جنگ نے عالمی سیاست کو بدل کر رکھ دیا۔ پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعاون کرنا پڑا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے مرکزی کردار ادا کیا، جس کی قیمت پاکستان نے اپنے تقریباً 80 ہزار شہریوں اور فوجی جوانوں کے جانوں کے نذرانے سے ادا کی اور پاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس کے اثرات پاکستانی قوم آج بھی محسوس کر رہی ہے۔ اس 18 سالہ جنگ کے دوران نیٹو ممالک نے ایک ایک کر کے اس جنگ سے علیحدگی اختیار کی، جبکہ اب صرف امریکن فوجیں افغانستان میں موجود ہیں۔
جب یہ جنگ اپنے عروج پر تھی تو افغان سرزمین پر تقریباً 100,000 امریکی فوج تھی، پھر ان کی تعداد کو آہستہ آہستہ کم کیا گیا اور اب ان کی تعداد 16,000 پر مشتمل ہے۔
افغان جنگ کے دوران 2,372 امریکن فوجی ہلاک ہوئے، جبکہ 1720 کونٹریکٹرز بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے علاوہ تقریباً 20,000 فوجی زخمی ہوئے۔ پنٹاگون کے مطابق افغانستان جنگ کے دوران سالانہ 45 ملین ڈالرز خرچ ہوئے، جبکہ ماہرین کے مطابق 2001ء سے افغان جنگ پر 2 ٹریلن سے زیادہ اخراجات آچکے ہیں۔ زخمی فوجیوں کی دیکھ بھال، علاج کے علاوہ ہر فیملی کی ضروریات پوری کی جائیں، سود کی ادائیگی کے ساتھ یہ جنگ 7.9 ٹریلین ڈالرز تک پڑے گی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی بہت سے پالیسیوں سے اختلاف کیا جاتا ہے، لیکن شام، عراق اور افغانستان سے فوجوں کی واپسی کا اعلان کر کے ایک طرف جنگی اخراجات کو وہ روکنے کامیاب ہو جائیں گے، جبکہ دوسری طرف امریکی معیشت پر اس کے انتہائی مثبت اثرات پڑیں گے۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ افغانستان میں امن کی بنیاد ڈالنے اور امریکی حکومت اور طالبان کو ٹیبل پر لانے میں اہم ترین کردار پاکستان نے ادا کیا، جس کے دور رس مثبث اثرات سامنے آئیں گے۔ یہ تاثر عام ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے جدید ہتھیاروں اور اپنی طاقت کے سامنے کسی کی نہیں سنتے، بالآخر طاقت نے عراق اور افغانستان کو کھنڈرات میں بدل کے رکھ دیا۔ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے ایک موقع پر امریکن ٹی وی CNN کو انٹرویو دیتے ہوئے عراق پر جنگ مسلط کرنے پر معافی مانگی۔ ان کا کہنا تھا کہ خفیہ اداروں نے درست معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔ ٹونی بلیئر نے عراق حملے کو تاریخی غلطی قرار دیا، جس میں پورا عراق بکھرکررہ گیا۔ لاکھوں افراد اپنی جان سے گئے۔ کیا ان جنگوں کے بعد بڑی طاقتیں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوگئیں؟ ماہرین اور تجریہ نگاروں کا خیال ہے کہ ان جنگوں کی وجہ سے دہشت گردی کو مزید پاؤں جمانے کا موقع ملا۔ داعش کا وجود میں آنا اس کی زندہ مثال ہے۔ آخر ترقی یافتہ ممالک نے کیا حاصل کیا؟ فرانس کی تاریخ کے بدترین دہشت گرد حملوں سے پہلے بھی یورپی ملکوں میں دہشت گردی کے کئی بڑے واقعات ہو چکے ہیں، جن میں سینکڑوں افراد کی زندگی کا خاتمہ ہوا۔ روشنیوں کے شہر میں ایک ہی دن میں 6 سے زائد مختلف مقامات پر دہشت گردوں نے دھاوا بولا اور دھماکے اور فائرنگ کر کے 160 افراد کی زندگی کا خاتمہ کر ڈالا۔ پیرس میں ہی 7 جنوری 2015ء کو 2 مسلح افراد فرانسیسی جریدے چارلی ایبڈو کے دفاتر میں گھسے اور فائرنگ کردی، جس میں 12 افراد ہلاک ہوئے۔ بعد میں پولیس مقابلے میں دونوں حملہ آور مارے گئے۔ 22 جولائی 2011ء کو دائیں بازو کے ایک شدت پسند نے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں بم دھما کہ کر کے 8 افراد ہلاک اور فائرنگ کر کے 69 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ 7 جولائی 2005ء میں برطانیہ میں یکے بعد دیگرے 4 خودکش دھماکے کئے گئے، یہ حملے زیر زمین ٹرینوں اور ایک بس میں کئے گئے، ان حملوں میں 54 افراد ہلاک 700 زخمی ہوئے۔ 11 مارچ 2004ء کو اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ جانے والی 4 ٹرینوں میں بم دھماکوں میں 191 افراد ہلاک، 2 ہزار زخمی ہوئے۔ 15 اگست 1998ء کو شمالی آئرلینڈ میں کار بم دھماکے میں 29 افراد ہلاک اور 220 زخمی ہوئے۔ اسی طرح اور بہت سی مثالیں مغربی دنیا میں ہونے والے بم دھماکوں کے حوالے سے موجود ہیں، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔ پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک نے ان حملوں کی مذمت کی تھی۔ عالمی برادری کو اس بات کی تہہ تک پہنچنا ہوگا کہ دنیا میں دہشت گردی کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟ دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنا ہے تو مغربی دنیا کو اسلامی دنیا کے ساتھ ہاتھ سے ہاتھ ملا کر جدوجہد کرنی ہوگی۔ ایک دوسرے خلاف انگلی اٹھانے سے دہشت گردی کیلئے راہ ہموار ہوگی۔ 11/9 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ مالی اور جانی قربانیاں پاکستان نے دیں، اس کے باوجود پاکستان دشمن اس کے خلاف زہر اگلتے رہے۔ آج پاکستان امریکا اور افغانستان جنگ کے خاتمے کیلئے مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ خطے میں امن کی راہیں ہموار کر رہا ہے، اس کو سراہنے کیلئے کہیں سے دو لفظ سننے کو نہیں مل رہے۔ امریکا افغانستان سے کم وبیش 10,000 میل کے فاصلے پر ہے، جس کی معیشت کافی بہتر اور دفاعی صلاحیت بھی دیگر بڑی طاقتوں کے مقابلے میں خاصی مضبوط ومستحکم ہے، افغانستان تو ایک پسماندہ ملک ہے، لیکن مالی وسائل اور مصنوعات کی کمی کے باوجود افغان بہت جرأت مند، بہادر، جفاکش اور غیرت مند ہیں، جو اپنی سرزمین کے تحفظ اور آزادی وخود مختاری کی خاطر اپنی قیمتی جانیں ہمہ وقت ہتیھلیوں پر لئے پھرتے ہیں۔ 11/9 کے بعد بڑی طاقتوں نے القاعدہ اور طالبان کے خلاف اعلان جنگ کیا، لیکن اس دوران داعش نے سر اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے یورپین ممالک میں درجنوں بم دھماکے کر کے سیکڑوں افراد کو ہلاک کیا۔ داعش آج بھی دنیا کیلئے ایک خطرہ ہے۔ داعش کیسے بنی اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بڑی طاقتیں عراق اور افغانستان جنگ مصروف تھیں تو اس دوران داعش وجود میں آئی۔ عراق و افغانستان پر بڑی جنگیں مسلط کر کے دیکھ لیا کہ دہشت گردی گردی کا خاتمہ جنگوں کے ذریعے ممکن نہیں، اس کیلئے ضروری ہے کہ مغربی دنیا اور اسلامی دنیا متحد ہو کر دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کی منصوبہ بندی کرے۔ جس طرح پاکستان اور امریکا طالبان سے بات چیت کر کے خطے میں امن قائم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، اس کے مثبت نتائج پوری دنیا پر ظاہر ہوں گے۔

Comments (0)
Add Comment