ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
سورئہ بقرہ کی 219 آیت میں ارشاد ربانی ہے: ’’پوچھتے ہیں شراب او جوئے کا کیا حکم ہے، کہو ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔ اگرچہ ان میں لوگوں کے لئے کچھ منافع بھی ہیں۔ مگر ان کا نقصان ان کے فائدہ سے بہت زیادہ ہے۔‘‘
شراب اور جوئے کے متعلق یہ پہلا حکم ہے، جس میں صرف ناپسندیدگی کا اظہار کر کے چھوڑ دیا گیا، تاکہ ذہن ان کی حرمت قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ بعد میں شراب پی کر نماز پڑھنے کی مخالفت آئی۔
سورئہ نساء کی 43 ویں آیت میں ارشاد ربانی ہوا:
’’اے ایمان والو جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ۔‘‘
یہ شراب کے متعلق دوسرا حکم ہے، پہلے حکم میں شراب کو بری اور خدا کی ناپسندیدہ چیز قرار دے کر چھوڑ دیا گیا تھا۔ مسلمانوں کا ایک گروہ پہلے حکم کے بعد ہی شراب سے پرہیز کرنے لگا تھا۔ مگر بہت سے لوگ اسے بدستور استعمال کرتے رہے، حتیٰ کہ نشے کی حالت ہی میں نماز پڑھنے کی مخالفت کا حکم 6ھ کے ابتدا میں آیا۔ اس آیت کے نزول کے بعد لوگوں نے اپنے شراب پینے کے اوقات بدل دیئے اور ایسے اوقات میں شراب پینا چھوڑ دی۔ جن میں یہ اندیشہ ہوتا کہ کہیں نشے ہی کی حالت میں نماز کا وقت نہ آجائے۔
پھر سورئہ مائدہ آیت 90 میں ارشاد ہوا:
’’اے ایمان والو، یہ شراب اور جوا اور آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔‘‘
شراب کی حرمت کے سلسلے میں سورۃ البقرۃ اور سورۃ النساء میں پہلے دو احکامات نازل ہو چکے تھے۔ سورئہ مائدہ کے اس آخری حکم کے آنے سے پہلے نبی اکرمؐ نے ایک خطبہ میں لوگوں کو متنبہ فرما دیا تھا کہ خدا تعالیٰ کو
شراب سخت ناپسند ہے۔ بعید نہیں کہ اس کی قطعی حرمت کا حکم آجائے، لہٰذا جن جن لوگوں کے پاس شراب موجود ہے، وہ اسے فروخت کردیں۔ آپؐ کے اس خطبے کے کچھ مدت کے بعد سورۃ المائدۃ کی نویں آیت نازل ہوئی۔ تو آپؐ نے اعلان کرایا کہ اب جن لوگوں کے پاس شراب ہے، وہ نہ اسے پی سکتے ہیں، نہ بیچ سکتے ہیں، بلکہ وہ اسے ضائع کردیں۔ چنانچہ اسی وقت مدینہ کی گلیوں میں شراب بہا دی گئی۔ بعض لوگوں نے پوچھا کہ ہم یہودیوں کو تحفتہً کیوں نہ دیدیں؟ آپؐ نے فرمایا: جس نے یہ چیز حرام کی ہے، اس نے اسے تحفہ دینے سے بھی منع کیا ہے۔ بعض لوگوں نے پوچھا: ’’ہم شراب کو سرکے میں کیوں نہ تبدیل کردیں؟‘‘ آپؐ نے اس سے بھی منع فرما دیا اور حکم دیا کہ اسے بہا دو۔ ایک صاحب نے باصرار دریافت کیا کہ دوا کے طور پر تو استعمال کی اجازت دی جائے۔ فرمایا: نہیں وہ دوا نہیں، بیماری ہے۔ ایک اور صاحب نے عرض کیا: حضور! ہم اس علاقے میں رہتے ہیں، جو انتہائی سرد ہے اور ہمیں محنت بھی بہت کرنا پڑتی ہے، ہم لوگ شراب سے تکان اور سردی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: جو چیز تم پیتے ہو، وہ نشہ کرتی ہے؟ انہوں نے عرض کیا ’’ہاں‘‘ فرمایا تو اس سے پرہیز کرو۔ انہوں نے عرض کیا: ’’مگر ہمارے علاقے کے لوگ تو نہیں مانیں گے۔‘‘ فرمایا اگر وہ نہ مانیں تو ان سے جنگ کرو۔ کیوں کہ ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔
ایک اور حدیث میں آپؐ نے منع فرمایا اس دستر خوان پر کھانا کھانے سے، جس پر شراب پی جا رہی ہو۔ ابتداً آپؐ نے ان برتنوں تک کے استعمال کو منع فرمادیا تھا، جس میں شراب بنائی اور پی جاتی تھی۔ بعد میں جب شراب کی حرمت کا حکم پوری طرح نافذ ہوگیا، تب آپؐ نے برتنوں پر سے یہ قید اٹھا دی۔
حضرت عمرؓ نے شراب کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی: ’’خمر سے مراد ہر وہ چیز ہے جو عقل کو ڈھانک لے۔‘‘ آپؐ کے زمانے میں شراب پینے والوں کے لئے کوئی خاص سزا مقرر نہ تھی۔ زیادہ سے زیادہ چالیس ضربیں آپؐ کے زمانے میں اس جرم پر لگائی گئیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں چالیس کوڑے مارے جاتے تھے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں شروع میں چالیس کوڑے کی سزا تھی۔ پھر جب آپؓ نے دیکھا کہ لوگ اس جرم سے باز نہیں آتے تو انہوں نے صحابہ کرامؓ کے مشورے سے اسّی کوڑوں کی سزا مقرر کر دی اور اس پر امت کا اجماع ہوگیا۔
شریعت کی رو سے اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ شراب کی بندش کے اس حکم کو بزور قوت نافذ کرے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں بنی ثقیف کے ایک شخص کی دکان اس بنا پر جلوا دی گئی تھی کہ وہ خفیہ طور پر شراب بیچتا تھا۔ ایک اور موقع پر ایک پورا گاؤں حضرت عمرؓ کے حکم سے اسی قصور پر جلا ڈالا گیا تھا کہ وہاں خفیہ طریقے سے شراب کی کشید اور فروخت کا کاروبار ہو رہا تھا۔
پاکستان ایک نظریاتی اسلامی مملکت ہے۔ یہاں کے حکمرانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر قسم کی نشہ آور شے کے بنانے والے، کشید کرنے والے، ڈھونے والے، پینے اور پلانے والے کو قرار واقعی سزا دیں، تاکہ شریعت کا نظام قائم ہو سکے اور معاشرہ منشیات کے نتیجے میں پروان چڑھنے والے جرائم سے پاک ہو۔ پاکستان میں ہر قسم کے جرائم بکثرت ہو رہے ہیں۔ جن میں پاکستانی پولیس اسّی فیصد شامل ہے۔ شراب کے اڈے جگہ جگہ پولیس کی سرپرستی میں قائم ہیں۔ اخبار میں ہر روز ایسی خبریں شائع ہوتی ہیں، جن میں شراب، جوئے کے اڈے، فحاشی کے اڈے، اغوا برائے تاوان، چوری ڈکیتی، قتل و غارت گری میں ملوث پولیس بھیس بدل کر جرائم کرتی نظر آتی ہے۔
پاکستان میں بسنے والے لوگ جن میں اکثریت نوجوانوںکی ہے، وہ بے مقصد گھومتی نظر آتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو بامقصد زندگی کی طرف مائل کرنا خاندان، معاشرے اور حکومت کافرض ہے۔ اسکول، کالج، یونیورسٹی کے طلبا چرس، ہیروین اور افیون کے نشے میں گم ہیں۔ موبائل ایک نیا نشہ ہے، جس میں پاکستانی نوجوان نسل مبتلا ہے۔ دن رات فری پیکیج کی آفر نے اس نئی نسل کو فحاشی کا ایک نیا راستہ دکھا دیا ہے۔ گزشتہ آٹھ سال میں نئی نسل نے اپنے آپ کو تباہ کر ڈالا ہے۔ عشق عاشقی، جھوٹی محبت کا ڈھونگ، گھروں سے بھاگ جانے والی لڑکیوں کی تعداد میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔ ہر چیز جو نشہ پیدا کرے، حرام ہے۔ اسی حدیث کی رو سے موبائل نے نئی نسل میں ایسا خمار پیدا کیا ہے، جو محفل میں بیٹھنے سے گھبرانے لگی ہے۔ کونے کھدرے تلاش کر کے موبائل پر بات کرنے کا نشہ انہیں معاشرے میں تنہا کر رہا ہے۔ وہ لڑکیاں جو اندھیرے میں جاتے گھبراتی تھیں، اب رات بھر لائٹ بند کر کے موبائل پر باتیں کرتی رہتی ہیں۔ کس سے؟ ماںکو پڑھائی کا فریب دے کر اب وہ ہر قسم کے اندھیروں سے بے خوف ہوگئی ہیں۔ ماں اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ بچی امتحان کی تیاری کر رہی ہے۔ باپ ہر قسم کی ذمہ داری سے آزاد ہے۔ اسے اس بات کی فکر نہیں ہے کہ لڑکی اچھے سے اچھے کپڑے، پرس، زیور کہاں سے وصول کر رہی ہے۔ معاشرے میں ناجائز بچوں کی تعدا بڑھتی جا رہی ہے۔ اب برگر مائیں اتنی ترقی پسند ہوگئی ہیں کہ بیٹیوں کو خود خاندانی منصوبہ بندی کے مراکز لے جاتی ہیں۔ کیا یہ سب قیامت کی نشانیاں نہیں ہیں؟ خدارا ہوش میں آجائیں، ورنہ زلزلہ، پتھروں کی بارش، آندھی، سیلاب، طوفان ہمارا مقدر بن جائیں گے۔ کیوں کہ ہمارے لیے ہر حرام شے حلال ہو چکی ہے اور ہماری آنکھیں بند اور عقل پر پتھر پڑ چکے ہیں۔ جبھی تو ایسے حاکم مسلط کئے گیے ہیں، جن کے لئے ہر حرام چیز حلال ہے۔