تھینک یو مشاہد حسین! آپ نے اپنے بارے میں اس قوم کی عظیم اکثریت کی آنکھوں کے آگے پڑا کپڑا خود ہی ہٹا دیا۔ یہ بتا دیا کہ آپ کی اصل ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں، ورنہ تو راقم سمیت پاکستانیوں کی اکثریت آپ کو ایک قوم پرست پاکستانی سمجھتی تھی، جس کے لئے ہر چیز سے زیادہ اہم پاکستان ہے، لیکن سیاسی لوٹے ہونے کے ساتھ ساتھ آپ تو قومی لوٹے بھی نکلے، آپ نے تو اس وقت اس پاک وطن پر غیروں کے لوٹے کا گندا پانی پھینکنے کی کوشش کی، جب اس سرزمین پر اپنا گند پھینکنے کی کوشش کرنے والوں کو جواب دینے کی ضرورت تھی۔ ایک بار پھر تھینک یو کہ آپ نے ٹوئٹر پر چند الفاظ لکھ کر لوگوں کے ذہنوں میں موجود اپنی پوری زندگی کے بارے میں اچھے خیالات پر لکیر پھیر دی۔ خیر یہ نظام قدرت ہے، یہ میرے رب کی سنت ہے کہ وہ ہر بندے کو اس دنیا سے اٹھانے سے قبل اس کی ذات کے سارے گوشے سامنے لے آتا ہے، تاکہ اس کے بندے کسی غلط فہمی میں نہ رہیں، وہ ایک دوسرے کی حقیقت جان لیں۔
مشاہد حسین سید نے دہلی اور تہران کی ترجمانی کرتے ہوئے پاکستان کو اپنا گھر ٹھیک کرنے کا جو مشورہ دیا ہے، اس پر تو آج بات کرنی ہی ہے، لیکن ہماری تجویز ہے کہ حکومت اور ادارے مشاہد حسین کی اس بات پر فوری عمل کریں اور کم از کم سی پیک کو بچانے کے لئے اپنا گھر فوری ٹھیک کریں، اس وقت مشاہد حسین خود کو سی پیک کا چاچا ماما بنا کر پیش کرتے پھر رہے ہیں، فوائد سمیٹنے کیلئے شنید ہے کہ بیٹے کو بھی میدان میں اتارا ہوا ہے، چینیوں کو بھی انہوں نے گھیرا ہوا ہے، سی پیک اربوں ڈالر کا پروگرام ہے، اس کی تو ایک بوند بھی کسی کو مل جائے تو وہ بھی کروڑوں روپے کی ہوگی اور مشاہد کی سیاسی زندگی تو بتاتی ہے کہ وہ بوند پر گزارہ کرنے والے نہیں، بلکہ ہمیشہ اقتدار کے بہتے دریا کے ساتھ ہو لیتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق سے لے کر نواز شریف تک، پھر پرویز مشرف آئے تو ان کے ہمرکاب ہوگئے، ان کے جانے کے بعد چوہدری برادران کی انگلی پکڑ کر پی پی پی حکومت سے راہ و رسم بنالئے، پھر نواز شریف آئے تو انہیں ایسا گرویدہ بنا لیا کہ مشرف دور میں پارٹی کیلئے سختیاں برداشت کرنے والے رہنما دیکھتے رہ گئے اور سینیٹ کا ٹکٹ موصوف لے اڑے۔ اس سے مشاہد حسین کی ’’صلاحیتوں‘‘ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمیں اس وقت فوری طور پر سی پیک کے حوالے سے اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا اور اس منصوبے کو مشاہد حسین کی ’’صلاحیتوں‘‘ سے محفوظ کرنا ہوگا، کیوں کہ ایسا فرد جس کی ہمدردیاں ایران اور بھارت کے ساتھ ہوں، جو ان کی زبان بولتا ہو، اس کا سی پیک سے اس قدر جڑا ہونا خطرے کی علامت ہے۔ سی پیک کے سب سے بڑے دشمن یہ دونوں ملک ہیں۔ انہوں نے تو مل کر گوادر کے مقابل چاہ بہار میں خاص طور پر بندرگاہ بنائی ہے۔ سی پیک کے خلاف سازشوں کے لئے دہشت گردی کے مراکز قائم کئے ہوئے ہیں، جہاں سے یہ کل بھوشن یادیو جیسے لوگ بھیجتے ہیں، لہٰذا سی پیک کو کسی ممکنہ نقصان سے بچانے کے لئے پاکستان اور چین دونوں کو فوری اقدام لینا چاہئے اور مشاہد حسین کے سائے کو بھی اس منصوبے سے دور کردینا چاہئے۔ ان کا پاکستانی قوم پرست ہونے کا لبادہ اتنے طویل عرصے بعد اترا ہے، تو یہ نہ ہو کہ سی پیک کے حوالے سے بھی انہوں نے کوئی لبادہ اوڑھ رکھا ہو اور جب وہ اترے تو اس وقت تک بہت تاخیر ہو جائے۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف، اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران اور بھارت اسٹرٹیجک اتحادی بھی بن چکے ہیں، ایران نے عین پاکستانی سرحد کے قریب پوری بندرگاہ بھارت کے حوالے کر رکھی ہے، پھر ان دونوں ملکوں کی طرف سے اکثر پاکستان پر ایک ساتھ دبائو ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے، الزام میں بھی یکسانیت ہوتی ہے، دونوں پاکستان پر دہشت گردوں کی پناہ کا بے سروپا الزام لگاتے ہیں۔ آج تک یہ ایک ثبوت بھی پیش نہیں کرسکے، جبکہ دوسری جانب ان دونوں ملکوں کے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ایسے ثبوت موجود ہیں، جن سے یہ انکار بھی نہیں کرسکتے۔ کل بھوشن تو صرف اس کی ایک مثال ہے، جو ان کا جوائنٹ وینچر تھا۔ اب چند روز قبل ایران میں فوجی بس پر خود کش حملہ ہوتا ہے، جس میں 42 فوجی نشانہ بنتے ہیں، ایرانی حکومت اس کا الزام امریکہ پر لگاتی ہے، اس کے بعد پلوامہ میں بھارتی فوج پر حملہ ہو جاتا ہے، جس میں 50 کے قریب فوجی مارے جاتے ہیں، بھارت نے تو ظاہر ہے پاکستان کو ہی ذمہ دار ٹھہرانا تھا، لیکن اس وقت حیرت ہوتی ہے جب بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ایران بھی اپنے پہلے بیان کے برعکس پاکستان کو نہ صرف ذمہ دار قرار دینا شروع کر دیتا ہے، بلکہ اس کا لہجہ بھی بھارت کی طرح دھمکی آمیز ہو جاتا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ جب یہ دونوں ملک دھمکی دیتے ہیں تو ان پر ترس بھی آتا ہے، کیوں کہ اس سے زیادہ یہ کچھ کرنے جوگے بھی نہیں ہیں۔ انہیں علم ہے کہ اس سے زیادہ کچھ کرنے کی کوشش کی تو پھر جواب ایسا ملے گا کہ آئندہ ان کی نسلیں بھی دھمکی دینے کے قابل نہیں رہیں گی۔ پاکستان کی دفاعی طاقت پر باقی دنیا کی طرح انہیں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ پلک جھپکتے ہی بہت کچھ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کی صلاحیت ہم الحمد للہ رکھتے ہیں، لیکن سچی بات یہ ہے کہ ایران کے اس رویئے سے افسوس ہوتا ہے، وہ ایک اسلامی ملک ہے، وہاں کی حکومت خود کو اسلامی بھی کہتی ہے، لیکن ایک ہندو ملک سے مل کر وہ پاکستان کے خلاف بولتے اور اقدامات کرتے ہیں، حالاں کہ پاکستان نے ہمیشہ اس کا ساتھ دیا ہے۔ جند اللہ کے عبد المالک ریگی کو بھی پاکستان نے پکڑکر ایران کے حوالے کیا تھا، ورنہ ایرانی ادارے تو ابھی تک ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہوتے۔ اس سے ذرا پیچھے چلے جائیں تو عراق سے جنگ کے دوران جب ساری دنیا ایران کے خلاف تھی۔ سعودی عرب سمیت پورا سنی عرب بلاک صدام حسین کے ساتھ تھا، پاکستان ہی وہ واحد ملک تھا، جس نے ایران کی خفیہ اور کھلی دونوں طریقوں سے مدد کی تھی، لیکن ہمیں اس کا صلہ کیا ملا؟ افغانستان سے سوویت انخلا کے بعد ایران وہاں پاکستان مخالف کیمپ میں جا کر کھڑا ہوگیا۔ بھارت کے ساتھ مل کر شمالی اتحاد کی پیٹھ ٹھونکنا شروع کردی۔ آج بھی ایران اسی رویئے کا مظاہرہ کر رہا ہے، پاکستان نے ریگی کو حوالے کیا، لیکن اس کے بدلے الزامات مل رہے ہیں، کل بھوشن جیسے دہشت گرد برآمد ہوکر آ رہے ہیں۔
کاش مشاہد حسین پاکستان کو گھر ٹھیک کرنے اور ایران کی شکایات پر توجہ دینے کا مشورہ دینے کے بجائے ایران کو یہ مشورہ دیتے کہ وہ اپنا گھر ٹھیک کرے۔ سیستان سمیت اپنی سنی آبادی کو قومی دھارے میں لانے کیلئے اقدامات کرے، انہیں مذہبی آزادیاں دے اور کچھ نہیں تو کم از کم انہیں عبادت کے لئے مساجد کے قیام کی اجازت ہی دے دے، کیوں کہ مساجد پر تو غیر مسلم ممالک میں بھی پابندیاں نہیں ہیں، لیکن ایران نے اتنا جبر رکھا ہوا ہے کہ دارالحکومت تہران میں بھی کوئی سنی مسجد موجود نہیں ہے۔ جب آپ لوگوں کو اتنا دبائیں گے تو پھر اس کا ردعمل آئے گا، پاکستان پر الزامات تھوپ کر آپ جان نہیں چھڑا سکیں گے اور چلیں سیستان میں ہوئے حملے کا الزام تو آپ نے پاکستان پر تھوپ دیا، ابھی چند ہفتے قبل پاکستانی سرحد سے ہزاروں میل دور اہواز میں ہوئے حملے کا الزام کس کو دیں گے؟
اسی طرح مشاہد حسین ایران کے دوست ہیں تو انہیں مشورہ دیں کہ وہ اپنے گھر پر توجہ دیں۔ یمن سے لے کر شام، بحرین اور عراق تک ہر جگہ ٹانگ اڑانے کا شوق چھوڑ دیں۔ عظیم فارس ریاست کے خواب بھول کر آنکھیں کھولیں، اپنی عوام کی حالت پر توجہ دیں۔ اوباما دور میں ملنے والے اربوں ڈالر آپ نے عوام کی فلاح پر لگانے اور معیشت بحال کرنے کے بجائے ان جنگوں میں جھونک دئیے۔ ان سے حاصل بھی کیا کیا؟ روزانہ آنے والی فوجیوں کی لاشیں؟ جو ایران کی بیرونی مداخلت کا ثبوت بھی ہوتی ہیں۔ دوسری طرف ملک میں نئی انتہا کو چھوتی ہوئی غربت، ایرانی کرنسی کا کیا حال ہوگیا ہے، ایک ڈالر 42 ہزار تمن کا ہوگیا ہے۔ چند ماہ پہلے اس پر ہنگامے بھی ہوچکے ہیں۔ یہ تو ایران خوش قسمت ہے کہ اس کے اندر لگنے والی آگ کو کوئی ہوا نہیں دیتا۔ امریکہ بھی نہیں، کیوں کہ مستحکم ایران امریکہ کے مفاد میں ہے۔ ایران وہ طوطا ہے، جس میں امریکی دفاعی صنعت کی جان بند ہے۔ اگر ایران کمزور ہو جائے تو امریکہ کے پاس عرب ممالک کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ بیچنے کے لئے منجن ختم ہو جاتا ہے، اسی لئے امریکہ عربوں کو دکھانے کے لئے ایران کے خلاف لفظی جنگ تک ہی محدود رہتا ہے، ورنہ وہ تو ایران کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ افغانستان میں اس کی فوج موجود ہے، عراق میں وہ ہے، شام میں ہے، پھر بھی ایران میں امن ہے تو اس کے پیچھے امریکہ کا مفاد ہے، آپ دیکھیں افغانستان میں امریکہ نے سارے بڑے اڈے پاکستانی سرحد کے قریب بنائے، کیوں کہ اس کا ہدف پاکستان کو غیر مستحکم کرنا تھا، اس لئے ساری گندی سرمایہ کاری پاکستان میں ہوئی۔ دہشت گرد تنظیمیں کھڑی کی گئیں، ایران کے ساتھ تو اس نے عراق میں اتحاد بنا رکھا ہے اور افغانستان میں بھی شروع میں خاموش اتحاد اور بعد میں نہ چھیڑنے والی پالیسی۔ اب بھی آپ دیکھیں ٹرمپ ایران کے خلا ف کوئی اقدام لینے کی کوشش کرتے ہیں تو امریکی اسٹیبلشمنٹ ان کے سامنے دیوار بن جاتی ہے، اسی سے تنگ آکر ٹرمپ نے چند روز قبل اپنی خفیہ ایجنسیوں کی ایران سے متعلق رپورٹوں پر برہمی کا بھی اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ خفیہ ایجنسیاں ایران کے معاملات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں، ورنہ امریکہ چاہتا تو ایران کی صورت حال بہت خراب ہو جاتی۔
کہتے ہیں انسان جیسا خود ہو ویسا ہی وہ دوسروں کو بھی سمجھتا ہے۔ ایران کے معاملے میں بھی ہمیں یہی نظر آتا ہے، کیوں کہ ایران خود ہر جگہ مداخلت کررہا ہے، اس لئے اسے دوسرے بھی ایسے لگتے ہیں اور ہاں مشاہد حسین صاحب پاکستان کو اپنا گھر ٹھیک کرنے کا مشورہ دینے سے پہلے آپ اپنی سوچ کو بھی ہو سکے تو ٹھیک کرلیں۔ اس ملک نے آپ کو اتنا کچھ دیا ہے کہ کم ہی لوگ ہوں گے جنہیں اتنا ملا، اگر آپ ایران اور بھارت میں ہوتے تو کوئی پوچھتا تک نہیں۔ یہ کام مشکل ہوگا، لیکن کوشش ضرور کریں اپنی سوچ ٹھیک کرنے کی۔ اپنی کلی وفاداری اس سرزمین کے ساتھ رکھنے کی۔ پاکستان نے اپنا گھر ٹھیک رکھا ہوا ہے، اسی لئے ایران کی جانب سے بھارت کو چاہ بہار کی صورت میں پاکستان مخالف اڈا دیئے جانے کے باوجود پاکستان نے سعودیہ یا امریکہ کو بلوچستان میں کوئی اڈا نہیں دیا۔ ایران نے تو پہل کی، لیکن اس کے باوجود ہم نے کوئی جوابی اقدام نہیں کیا۔ ٭