جنرل Pran Nath Thaparبھارتی فوج کے پانچویں سربراہ تھے۔ ان کا تعلق دلی کے ایک معروف اور بااثر پنجابی گھرانے سے تھا۔ معروف بھارتی تاریخ دان Romila Thapar ان کی بھتیجی اور مشہور بھارتی صحافی Karan Thapar ان کے صاحبزادے ہیں۔ نہرو فیملی سے بھی ان کی قرابت داری ہے۔ ایک پنجاب رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے جنرل تھاپر کو بھارتی فوج کی قیادت سنبھالے ابھی سال سوا سال ہی ہو ا تھا کہ اکتوبر 1962ء میں بھارت کی چین کے ساتھ مڈبھیڑ ہوگئی۔
جب چین نے لداخ کے سرحدی علاقے اکسائی چن میں ایک سڑک تعمیر کی تو بھارت نے اس پر یہ مؤقف اختیار کیا کہ مذکورہ سڑک جس علاقے میں تعمیر کی گئی، وہ بھارت کی ملکیت ہے۔ لیکن چین نے اس بھارتی مؤقف کو پرِ کاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دی۔ بلکہ مرکزی وزیر داخلہ گووند بلبھ پنٹ کی تجویز پر جب نہرو حکومت نے متنازعہ علاقے کا زمینی جائزہ لینے کے لیے ایک پیٹرولنگ پارٹی وہاں بھیجی تو علاقے میں پہلے سے موجود چینی فوجیوں نے انڈین پیٹرولنگ پارٹی کے جوانوں کو گھوڑوں کی دُموں کے ساتھ باندھ کر اسی سڑک پر گھسیٹا۔ دلی نے اس پر منمناتے ہوئے ہلکا سا احتجاج کیا، لیکن بے سود۔ تب درونِ خانہ نہرو پر دبائو بڑھنے لگا کہ وہ چین کے خلاف فوجی کارروائی کا حکم دیں۔ لیکن دوسری طرف نہرو عالمی لیڈر بننے کے سپنے دیکھ رہے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے ہی وہ چینی وزیر اعظم چواین لائی کو بنڈونگ (انڈونیشیا) میں ہونے والی غیر جانبدار ممالک کی کانفرنس میں تعارف بھی کرا چکے تھے۔ شاید اس لیے وہ چین کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے اور فوجی محاذ پر چین سے سامنا کرنے سے گریزاں تھے۔ لیکن دوسری طرف اندرونِ ملک پارلیمان کے اندر اور باہر اُن پر شدید تنقید ہو رہی تھی۔
نہرو نے اپنے ناقدین کو چُپ کرانے کے لیے یہ بیان بھی دیا کہ ’’چین کبھی بھی ہندوستان کے خلاف جنگ نہیں چھیڑے گا اور اگر اس نے کبھی ایسا کر ہی لیا، تو یہ جنگ عالمی جنگ کی شکل اختیار کر جائے گی‘‘۔ اس دوران میں دلی اور بیجنگ کے درمیان بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رہا، جو بے نتیجہ رہا۔ اسی اثنا میں نہرو حکومت نے لداخ کے علاقے میں بھارت کی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے وہاں 64 کے قریب پولیس چوکیاں قائم کیں، جو بعد ازاں ریت کی دیوار ثابت ہوئیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سرحد ی علاقے میں پولیس چوکیاں قائم کرنے کی وجہ یہ تھی کہ بھارتی فوج نے رسد و کمک اور دیگر ضروریات کی مکمل فراہمی کے بغیر لداخ میں چوکیوں پر جوانوں کی تعیناتی سے صاف انکار کر دیا، جس پر نہرو سرکار نے پولیس کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ دوسری طرف چین کے خلاف ڈنگ ٹپائو پالیسی اختیار کرنے پر نہرو کو تاحال سخت تنقید کا سامنا تھا۔ بالآخر انہوں نے اس تنقید سے جان چھڑانے اور اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے جنرل تھاپر کو لداخ کے علاقے میں چین کے خلاف ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ کا حکم دیا۔
دلی سرکار کو ہر دور میں ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ بہت پسند رہی ہے، خواہ اس کے نتیجے میں منہ کی ہی کیوں نہ کھانی پڑے۔ نہرو کے حکم پر جنرل تھاپر نے انہیں بتایا کہ چین کے خلاف ایسا کوئی بھی اقدام بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہو گا۔ جنرل کا یہ مؤقف تھا کہ بھارتی فوج فی الحال چین کا سامنا کرنے کے قابل نہ تھی۔ انہوں نے وزیر اعظم نہرو کو یاد دلایا کہ 1960ء میں بھارتی فوج کی قیادت سنبھالنے کے فوراً بعد انہوں نے تحریری طور پر حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ بھارتی فوج جس ساز و سامان سے مسلح ہے، اس کی حالت اس قدر خراب اور مقدار اس قدر کم ہے کہ کسی مہم جوئی کی صورت میں چین یا پاکستان بہ آسانی بھارت کو شکست دے سکتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف نہرو کو اپنی ساکھ بچانے کی فکر تھی، اس لیے انہوں نے پارلیمان میں کھڑے ہو کر کہا کہ ’’میں ایوان کے سامنے برملا کہہ سکتا ہوں کہ آزادی سے لے کر آج تک ہمارا دفاع کبھی بھی اس قدر بہتر صورت اور عمدہ حالت میں نہ تھا جتنا آج ہے‘‘۔ لداخ میں سرجیکل اسٹرائیک سے پہلے آخری بار جنرل تھاپر نے نہرو سے ملاقات کے لیے وقت مانگا۔ جب وہ نہرو ہائوس جانے کے لئے نکل رہے تھے تو ان کی ملاقات اُس وقت کے سیکریٹری کابینہ ایس کھپرا سے ہو گئی۔ سیکریٹری کابینہ نے جنرل سے دو باتیں کہیں۔ پہلی یہ کہ ’’جنرل صاحب! اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو پنڈت جی کے سامنے اپنے ڈر اور تحفظات کا اظہار کبھی نہ کرتا، کیونکہ ان کو یہ خیال آ سکتا ہے کہ آپ لڑنے سے خوفزدہ ہیں۔‘‘ دوسری یہ کہ ’’جنرل صاحب! آپ کو اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ اگر بھارت جنگ میں شرکت نہیں کرتا تو حکومت گر جائے گی‘‘۔
جنرل تھاپر اسی لمحے سمجھ گئے کہ چین کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کے حکومتی فیصلے کے پیچھے سیاسی مصلحتیں کارفرما ہیں۔ نہرو سے ملاقات میں جنرل تھاپر نے ایک بار پھر بھارتی فوج کی خستہ حالی بیان کی تو پنڈت جی نے کہا کہ انہیں وزیر دفاع کرشنا مینن نے بتایا ہے کہ بھارت فوجی سازو سامان کا بڑا حصہ خود تیار کر رہا ہے۔ اِس پر جنرل نے انہیں بتایا کہ بھارت تو ابھی جنگ کے لیے مطلوب ہتھیاروں کو جوڑنے کے مراحل سے بھی کوسوں دور ہے، کجا کہ انہیں تیار کر سکے۔ نہرو نے جنرل تھاپر کی تسلی کے لیے انہیں مزید بتایا کہ ’’میرے پاس قابل ِاعتماد اطلاع آئی ہے کہ اگر سرحدی چوکیاں خالی کرانے کے لیے بھارت چین پر فوجی دبائو ڈالے تو وہ مزاحمت نہیں کرے گا۔‘‘
وزیر اعظم کے ساتھ اس گفتگو کے بعدبھی جنرل تھاپر کسی مہم جوئی کے لیے تیار نہ تھے۔ لیکن پنڈت جی کا یہی اصرار تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق چین جوابی کارروائی نہیں کرے گا۔ اپنے وزیر اعظم کے اس قدر اصرار پر جنرل تھاپر کے مَن میں بھی امید کا جگنو ٹمٹمایا کہ کیا خبر ایسا ہی ہو، جیسا کہ پنڈت جی کہہ رہے ہیں اور ’’فاتح چین‘‘ کا تاج اُن کے سر پر سج جائے۔ لیکن جب لداخ میں چین اور بھارت کا آمنا سامنا ہوا تو چینی فوجیوں نے بھارتی سورمائوں کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ اس شکست پر جنرل تھاپر 19 نومبر 1962ء کو دلی میں وزیر اعظم نہرو کے روبرو حاضر ہوئے کہ انڈین آرمی کی روایت کے مطابق اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے وہ استعفیٰ دینا چاہتے ہیں۔ جنرل یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ ان کی بات سن کر نہرو کا چہرہ خوشی سے جگمگا اٹھا۔ جنرل تھاپر نے انہیں بہت دنوں بعد یوں مسکراتے دیکھا تھا۔ پنڈت جی نے آگے بڑھ کر جنرل تھاپر کے ہاتھ تھامے اور کہا: ’’شکریہ، مگر اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں‘‘۔
اگلی صبح ہونے والی دوسری ملاقات میں نہرو نے جنرل تھاپر سے کہا: ’’جنرل! تمہیں یاد ہے، تم نے پچھلی رات مجھ سے جو بات کہی تھی، مجھے وہ چیز تحریری طور پر چاہئے‘‘۔ جنرل فوراً گھر واپس لوٹے اور اپنی بیٹی سے اپنا استعفیٰ ٹائپ کرانے کے بعد اگلے دو گھنٹے کے اندر نہرو کو پہنچا دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد وزیر اعظم نہرو لوک سبھا کے اجلاس میں کھڑے جنرل تھاپر کا استعفیٰ لہرا رہے تھے تاکہ ارکانِ پارلیمان کا غصہ کچھ ٹھنڈا کیا جاسکے۔ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت تو پھر جنرل تھاپر نے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے اپنے دفاع میں ایک بیان دینا چاہا، لیکن پنڈت نہرو نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ وہ انہیں کسی روز اپنا مؤقف بیان کرنے کا موقع دیں گے۔ لیکن وہ موقع جنرل تھاپر کی زندگی میں پھر کبھی نہ آیا۔
سابق انڈین آرمی چیف جنرل پران ناتھ تھاپر کی یہ افسوس ناک کہانی بیان کرنے کے بعد معروف بھارتی صحافی کلدیپ نائر اپنی خودنوشت ’’ایک زندگی کافی نہیں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’بہت عرصے تک تھاپر اپنا ہاتھ سے لکھا ہوا بیان سنبھالے پھرا۔ جس میں اس نے بتایا تھا کہ کس طرح غلط یقین دہانیوں کی بنیاد پر اسے جنگ میں دھکیلا گیا، بغیر اس کے اتفاق اور بغیر کسی تیاری کے۔ ستمبر 1970ء میں تھاپر نے مسز اندرا گاندھی سے رابطہ کیا۔ اس وقت وہ وزیر اعظم تھیں۔ جنرل تھاپر نے آسٹریلین نژاد بھارتی افسر لیفٹیننٹ جنرل ہینڈرسن بروکس کی رپورٹ دیکھنے کی اجازت چاہی۔ جنرل برو کس اور بریگیڈئیر پریم بھگت کو چین کے ہاتھوں بھارتی شکست کے اسباب کی تحقیق پر مقرر کیا گیا تھا۔ جنرل تھاپر چاہتے تھے کہ وہ اپنا مؤقف بھی ان کے علم میں لا سکیں۔ لیکن اندرا گاندھی نے ان کی درخواست مسترد کر دی۔ 1996ء میں جب میں راجیہ سبھا کا رُکن بنا تو میں نے اس رپورٹ کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ اٹھایا۔ لیکن حکومت کا مؤقف تھا کہ ایسا کرنا مفاد عامہ کے خلاف ہے، اس لیے رپورٹ شائع کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ میرا اپنا گمان یہ تھا کہ رپورٹ میں نہرو کو بُری طرح تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا‘‘۔ (ص۔ 179-180)
1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران میں لاہور کے محاذ پر بھارتی فوج کے 15 ویں ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل نرنجن پرساد پاکستانی شاہینوں کی بمباری سے ڈر کر کھیتوں میں جا چھپے تھے۔ مغربی کمان کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ہر بخش سنگھ اپنی کتاب In The Line Of Duty میں لکھتے ہیں کہ جب وہ محاذ پر پہنچے تو میجر جنرل نرنجن پرساد پاکستانی بمباری سے بچنے کے لیے گنے کے کھیتوں میں روپوش تھے۔ جنرل ہر بخش سنگھ کے پہنچنے پر جب وہ اپنے ’’مورچے‘‘ سے باہر نکلے تو ان کی حالت یہ تھی کہ ان کے جوتے کیچڑ سے بھرے ہوئے تھے۔ سر سے ٹوپی غائب تھی۔ انہوں نے داڑھی بھی نہیں بنائی ہوئی تھی اور ان کی وردی پر سے ان کے رینک بیج بھی غائب تھے۔ جنرل نرنجن پرساد کی یہ ’’بدحالی‘‘ دیکھ کر جنرل ہر بخش سنگھ نے انہیں ڈانٹا: ’’آپ ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ ہیں یا قلی؟‘‘
اسی اثنا میں دو پاکستانی جنگی طیارے نیچی پرواز کرتے ہوئے ان کے سر پر سے گزرے تو جنرل نرنجن پرساد کے چہرے کا رنگ کورے لٹھے جیسا ہو گیا اور وہ ڈر کے مارے جنرل ہر بخش سنگھ کو کھینچتے ہوئے ایک قریبی جھاڑی کی طرف لپکے، جس پر انہیں اپنے کمانڈر سے دوبارہ ڈانٹ کھانی پڑی۔ سات ستمبر کو جنرل نرنجن پرساد اپنے بریگیڈ کی پوزیشن کا جائزہ لینے کے لیے اپنے اے ڈی سی کے ہمراہ جیپ میں سوار ہو کر میدان جنگ میں نکلے تو پاکستان کی طرف سے ان پر میڈیم مشین گن سے فائر کیا گیا، جس پر جنرل صاحب مع اے ڈی سی ایک بار پھر جیپ چھوڑ کر قریبی کھیتوں میں جا چھپے۔
بی بی سی ہندی کی 8 ستمبر 2017ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاک بھارت جنگ 1965ء میں میجر جنرل نرنجن پرساد کی وجہ سے بھارت کی کافی سبکی ہوئی۔ اس ’’شاندار کارکردگی‘‘ پر 15 ویں کور کے کمانڈر تو میجر جنرل نرنجن پرساد کا کورٹ مارشل چاہتے تھے، لیکن آرمی چیف جنرل بی این چوہدری نے کورٹ مارشل کے بجائے ان سے استعفیٰ لے لیا۔
مذکورہ بالا دونوں واقعات میں موجودہ انڈین آرمی چیف جنرل بپن راوت کے لیے بڑا سبق ہے۔ جس طرح نہرو نے اپنی ساکھ بچانے کے لیے جنرل تھاپر کی پیشہ ورانہ ساکھ دائو پر لگا دی تھی، بالکل اسی طرح نریندر مودی بھی اگلا الیکشن جیتنے کے لیے جنرل بپن راوت کو بلّی چڑھانے کے موڈ میں ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ 1965ء میں پاکستان نے بے سرو سامانی کے عالم میں بھارت کا مقابلہ کیا اور اس کے جرنیل کو گنے کے کھیتوں میں چھپنے پر مجبور کردیا۔ اب تو وہ بفضلہٖ تعالیٰ دنیا کی ایک بڑی جوہری طاقت بھی ہے اور پھر مسلمان کو تو اول روز سے ہی بارگاہِ رسالتؐ سے یہ درس دیا گیا ہے کہ ’’دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو اور خدا سے عافیت مانگو۔ ہاں، اگر ان سے تمہارا سامنا ہو تو پھر ثابت قدم رہو اور جان لو کہ جنت تلواروں کی چھائوں میں ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
٭٭٭٭٭