بھارت بے بس نظر آرہا ہے

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتے ہوئے قریبی تعلقات اور اہم معاہدے اور دیگر ممالک کے ساتھ حال ہی میں ہونے والے اہم معاہدے پاکستان دشمن طاقتوں بالخصوص بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے پلوامہ میں ہونے والے حملے کو جس میں تقریباً 45 بھارتی فوجی بارودی دھماکے کی نذر ہوگئے کی ذمہ داری ہمیشہ کی طرح بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر عائد کردی۔ حالانکہ ایک رپورٹ کے مطابق پلوامہ حملے میں ویڈیو پیغام ریکارڈ کرنے والے عادل ڈار کے بھارتی فوج کے حراست میں ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
10 ستمبر 2017ء کو شوپیاں کے علاقے میں بھارتی فورسز نے 2 فریڈم فائٹرز کو شہید کیا تھا، اسی چھڑپ کے دوران عادل ڈار کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ پلوامہ حملہ آر ایس ایس کا مودی سرکار کو ویلنٹائن ڈے کا گفٹ ہے۔ بی جے پی کو ریاستی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پلوامہ حملہ بھارت کے پارلیمانی الکیشن جیتنے کی حمکت عملی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ خود کش حملہ آور عادل ڈار کے والدین نے واقعے کا ذمہ دار فوج کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی فوج کی جانب سے تشدد کے بعد بیٹے میں بھارتی فوج کے خلاف نفرت انگیز جذبات ابھرے۔ بھارتی فوج نے عادل کو مرغا بنایا اور ناک رگڑوائی تھی۔
دوسری جانب پاکستان میں رنگے ہاتھوں گرفتار بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کیس کی 18 فروری کو دی ہیگ کی عالمی عدالت میں سماعت ہوئی اور فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔ اب 3 ماہ بعد عالمی عدالت اس کیس کا فیصلہ سنائے گی۔ پاکستان کے جانب سے تحریری جواب میں بتایا گیا کہ کل بھوشن یادیو سابق ایس ایس پی چوہدری اسلم سمیت 1345 پاکستانی شہریوں کے قتل میں براہ راست ملوث ہے۔ کل بھوشن یادیو مبارک پٹیل کے نام سے بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث رہا ہے۔ اس بات کا اعتراف وہ خود بھی کر چکا ہے، جبکہ بھارت کل بھوشن کی پاکستان میں حسین مبارک پٹیل کے نام سے رہنے کی معقول وجہ آج تک نہیں بتا سکا۔ کل بھوشن کرکٹ، سیاحت، ایکسپورٹ کو تباہ کرکے پاکستان کی معیشت کو 3 ارب ڈالرز کا نقصان پہنچا چکا ہے۔ بھارتی جاسوس یہ اعتراف کر چکا ہے کہ اسے بھارتی حکومت نے سی پیک کو تباہ کرنے کے لئے پاکستان بھیجا تھا۔
تصور کریں پاکستان کا سی پیک اور اس سے وابستہ منصوبے پاکستان دوست ممالک کے ساتھ مل کر تیزی سے کامیابی کی طرف گامزن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں اور وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت آنے والے میں دنوں میں کشمیریوں پر پہلے سے زیادہ مظالم بڑھا دے گا اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف ہر قسم کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرے گا۔ ان حالات میں کیا بڑی طاقتیں پاکستان کا ساتھ دیتی ہیں کہ نہیں۔ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا؟
آخر کب تک عالمی برادری بہری، گونگی، اندھی اور بے حسی کی تصویر بنی رہے گی؟ قابل تحسین ہیں مقبوضہ جموں وکشمیر کے وہ سرفروش جنہوں نے اپنے دلوں سے اپنے اہل و عیال، اپنے مال و متاع، اپنے گھر بار کی فکروں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی سرزمین کی آزادی کے لئے شہادت جیسی عظیم نعمت کا انتخاب کیا۔ وہ بھارتی غلامی پر عزت کی موت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ آخر کیوں؟ یہ ہے وہ سوال جس کا جواب آج کے نام نہاد تہذیب یافتہ عالمی جمہوریتوں کے حکمرانوں کے پاس ہے نہ اقوام متحدہ کے پاس ہی اہل کشمیر کے اس سلگتے سوال کا کوئی تسلی بخش جواب موجود ہے۔ افسوس اکیسویں صدی میں انسانوں اور جانوروں کے خون میں تمیز ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جانوروں کی قدر اس طرح کی جاتی جیسے انسانوں کی، جبکہ کبھی فلسطین میں، کبھی عراق و شام کے بازاروں میں، کبھی افغانستان میں اور برسوں سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی غاصب فوج کے ہاتھ آزادی کی جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کے لہو سے رنگے ہوئے ہیں۔ آخر ان تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ ممالک کے انسانوں کے دل میں ان مظلوم نہتے انسانوں کے لئے احساس کیوں پیدا نہیں ہوتا؟
کشمیری مسلمان ہوں یا فلسطینی، افغان ہوں یا عراقی، یہ سب اپنی زمین پر اپنا پیدائشی حق مانگ رہے ہیں۔ تقسیم ہند کی دھول ابھی بیٹھی ہی نہ تھی کہ بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 3 جون 1947ء کے تاریخی لندن پلان کو نظر انداز کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوا۔ آبادی کے واضح مسلم تناسب کا مہاراجہ کشمیر نے احترام کیا نہ ان کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے برعکس وہ اپنے ہندووانہ تعصب میں بہہ گیا اور کانگریسی لیڈروں کی خوشنودی کی خاطر راتوں رات اپنا یکطرنہ فیلصہ کشمیر پر لاگو کر دیا۔ یہ جاننے کی اس نے کوشش نہیں کی کہ وادی کشمیر کی مسلم اکثریت برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں قائم ہونے والے دو نئے ملکوں میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔
لندن پلان میں واضح کیا گیا تھا کہ غیر منقسم ہند کی ریاستوں کے مہاراجہ از خود کوئی فیصلہ عوام کی مرضی کے خلاف نہیں کر سکتے۔ کوئی فیصلہ کرنے سے قبل انہیں دیکھنا ہوگا کہ ریاستوں کے اکثریتی باشندوں کی سماجی و ثقافتی روایات کیا ہیں؟ آیا وہ بھارت کے ساتھ دینا چاہتے ہیں یا پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں؟ لائن آف کنٹرول کے اس پار اپنے زیر انتظام کشمیری علاقوں کو بھارت نے اپنا اٹوٹ انگ کہنا شروع کر دیا۔ اسے کون یاد دلائے کہ 1948ء میں نئی دہلی حکومت کی دہائی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی منظور کردہ قرارداد نمبر 39 میں فیصلہ کیا تھا کہ ہر دو متحارب فریق (پاکستان اور بھارت) کی فوجیں اپنے مقام پر ٹھہریں گی۔ بقول بھارت جونہی کشمیر میں حالات معمول پر آجائیں گے، کشمیری عوام اقوام متحدہ کی نگرانی میں اپنا حق خودارادیت استعمال کرسکیں گے۔ جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کا ڈھونڈورا پیٹنے والے امن کے ٹھیکیداروں کے سوئے ہوئے ضمیر مسئلہ کشمیر کا نام لبوں پر آتے ہی اب بھی اپنی آنکھیں موند لینے سے باز نہیں آتے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیر کی صورت حال اور یونائٹیڈ نیشنز ملٹری پر نظر رکھنے کے لئے جو دو ادارے یونائٹیڈ نیشنز فار انڈیا اینڈ پاکستان قائم کئے۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ برسوں گزر گئے عالمی سطح پر ابزرور گروپ ان انڈیا اینڈ پاکستان پر ان دو عالمی اداروں کی کارکردگی منظر عام پر آئی؟ ان اداروں نے مسئلہ کشمیر کے بارے میں بھارت سے یا پاکستان سے یا کشمیری تحریک آزادی کی قیادت سے پوچھا ہے کہ وہ کن حالات و واقعات کا شکار ہیں اور کچھ نہیں تو کم از کم یہ ہی معلوم کر لیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق پامال تو نہیں کئے جا رہے؟
1990ء سے آج تک ہر سال 5 فروری کو پاکستان سمیت مختلف ممالک میں رہنے والے کشمیری مسلمان کشمیریوں سے اپنا اظہار یکجہتی کا دن مناتے چلے آرہے ہیں۔ مقبوضہ وادی کے باشندے بھارتی تسلط سے آزادی چاہتے ہیں، جس کے لیے وہ اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کو بزور طاقت دبانے کے لیے بھارت نے ایک بار پھر کشمیریوں کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ امریکا اور بھارت کی دوستی رنگ لارہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا میں مضبوط بھارتی لابی نے اتنخابی مہم میں ڈونالڈ ٹرمپ کا ساتھ دیا تھا۔ مہم کے دوران ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ صدر بننے کے بعد بھارت سے اچھے تعلقات قائم رکھیں گے۔
کشمیریوں کی جنگ بھارت کے کالے قوانین کے خلاف نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی مرضی کا مستقبل چاہتے ہیں۔ وہ آزادی سے رہنے کی خواہش رکھتے ہیں، جس کے لیے انہوں نے غلامی کی زنجیریں توڑنے کا عزم کر رکھا ہے۔ جمہوریت کے سب سے بڑے دعویدار بھارت نے ان کا سکھ، چین چھین رکھا ہے۔ اس نے طاقت کے زور پر کشمیری قوم کو غلام بنا رکھا ہے۔ بندوق کی نوک پر عوام کو قید کر رکھا ہے، لیکن اس تمام جبرو استبداد کے باوجود کشمیری نسل در نسل آزادی کی جنگ میں مصروف ہیں۔ کشمیریوں نے سب سے زیادہ قیمتی عزت و جان کی قربانی دی ہے۔ امریکا کے تمام اخبارات بالخصوص واشنگٹن پوسٹ کشمیر کی صورت حال پر شہ سرخیوں سے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق بھارتی فوج کی جانب سے مہلک چھروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ جس سے سینکڑوں بچے آنکھوں سے محروم ہوگئے ہیں۔
تحریک آزادی کشمیر کی قیادت اب نوجوانوں کے پاس ہے۔ انہی نوجوانوں میں سے ابو القاسم شہید ہوئے اور برہان وانی کی شہادت پر ان کے جنازے میں لاکھوں کشمیری جمع ہوئے۔ مظاہرین میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ یہ نوجوان پاکستانی پرچم لہرا کر پاکستان سے اپنی محبت کا ثبوت بھی دے رہے ہیں۔ تحریک آزادی میں تیزی جو اب آئی ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی فوج کے کور کمانڈرز اور جنرلز یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ہم کشمیر میں جنگ ہار چکے ہیں۔ اس وقت تحریک اپنے عروج پر ہے۔ بھارت کے اندر اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے بیانات آرہے ہیں۔ مغربی ممالک کی توجہ بھی اس طرف ہونا شروع ہوگئی ہے۔ یہی سبب ہے کہ بھارت نے کشمیری حریت پسندوں کے مظاہروں کے میڈیا کوریج پر پابندی عائد کر دی ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل بھی کردی ہے۔ ان اقدامات سے صاف ظاہر ہے کہ بھارت ہر اوچھی حرکت کرنے کو تیار ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود بھارت کشمیری نوجوانوں کے سامنے بے بس نظر آرہا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment