پھر وہی آبی دہشت گردی

بھارت کے حالیہ بڑھتے ہوئے جنگی جنون کو وقتی ابال قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اس سال اپریل کے انتخابات کی گرما گرمی ختم ہونے اور نریندر مودی بھارت کے آئندہ وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوں یا ناکام، دونوں صورتوں میں بھارتی انتہا پسند ہندو رہنمائوں کا پاکستان دشمنی کا بخار اتر جائے گا۔ بھارت میں جب اور جہاں انتخابات ہوتے ہیں، پاکستان دشمن رہنما نہ جانے کیوں تصور کر لیتے ہیں کہ وہ جتنے تند و تیز بیانات پاکستان کے خلاف دیں گے، انتخابات میں ان کی کامیابی اتنی ہی یقینی ہے۔ یہ بات کسی حد تک تو درست قرار دی جا سکتی ہے، لیکن سو فیصد نہیں۔ اس مرتبہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی مودی سرکار اگرچہ اپنی دانست میں پاکستان مخالف فضا کو بہت گرم کرنے کی کوشش کر چکی ہے، لیکن اب تک اسے خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ کشمیر کی جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لیے بھارتی فوج کے تمام تر اقدامات سے نریندر مودی کے لیے الٹے نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ امریکا و دیگر مغربی طاقتوں کے علاوہ اقوام متحدہ میں بھی یہ مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا سلسلہ بند کیا جائے۔ پاکستان اور بھارت دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل نکالیں۔ اس کے ساتھ ہی کشمیری باشندوں کی رائے اور ان کے حق خودارادیت کی حمایت بڑھتی جا رہی ہے، جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق ہے۔ ادھر عالمی عدالت میں بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کا مقدمہ بھارت کے گلے میں ہڈی بن کر پھنس گیا ہے۔ فیصلہ جو بھی آئے اور جب بھی آئے، عالمی برادری نے بین الاقوامی عدالت میں بھارتی وکیل کے بودے اور لا یعنی دلائل کے مقابلے میں پاکستانی مؤقف کو زیادہ مضبوط قرار دیا ہے۔ مودی سرکار کی جانب سے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورئہ بھارت سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ پلوامہ میں بھارتی فوجیوں پر حملوں اور ان کی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا ذمے دار پاکستان کو قرار دے کر سعودی ولی عہد سے پاکستان کو دہشت گرد کہلوانے میں کامیابی حاصل ہو جائے گی، لیکن بھارت کی یہ حسرت بھی مودی سرکار کے دل ہی میں رہ گئی۔ اس کے برعکس سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے صاف کہہ دیا کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا کوئی ثبوت ہی پیش نہیں کیا تو اسے کیونکر دہشت گرد قرار دے دیا جائے۔ سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک بھارت سے تجارتی روابط بڑھانے میں تو دلچسپی لے سکتے ہیں، لیکن ان کے مذہبی، تہذیبی، لسانی اور ثقافتی تعلقات درحقیقت پاکستان کے ساتھ بہت گہرے اور تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس وقت بھارت کو ماضی کی طرح روس کی آشیر باد بھی حاصل نہیں، جبکہ امریکا کی افغانستان سے بے دخلی کے بعد وہاں بھارت کا کردار ویسے ہی صفر ہو جائے گا۔ بھارت نے چین کو بھی اپنا دشمن بنا رکھا ہے۔ جو آبادی اور معیشت کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی قوت ہے، حتیٰ کہ امریکا بھی اس کا مقروض ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں پاکستان دشمنی کے تمام بھارتی اشارے خود اس کی جانب پلٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ مودی سرکار جھلاہٹ اور بوکھلاہٹ میں پاکستان کو حملے کی دھمکیاں دینے کے علاوہ تجارتی قافلے روکنے اور ٹماٹر کی فراہمی بند کرنے کے اعلانات جیسی پست سطح تک آ گئی ہے۔
بھارت کے مختلف علاقوں میں خالصتان سمیت آزادی کی جو تحریکیں چل رہی ہیں، ان کی موجودگی میں مودی سرکار نے اگر پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کی کوئی حماقت کی تو دونوں ملکوں کے ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے ہولناک تباہی ہر ایک کے وہم و گمان سے کہیں زیادہ ہو گی۔ اس کے علاوہ جنگ کی صورت میں پاکستان کی حکومت، افواج، تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں، رضا کار تنظیمیں اور اقلیتوں سمیت سارے عوام متفق و متحد ہو کر بھارت کا مقابلہ کریں گے۔ اس کے برعکس بھارت کی علیحدگی پسند تنظیمیں موقع پا کر زیادہ زور پکڑیں گی، جس کے نتیجے میں بھارت کے مزید ٹکڑے ہو سکتے ہیں۔ ایک اور حقیقت وزیر اعظم نریندر مودی کی نگاہوں سے اوجھل ہے یا وہ جان بوجھ کر اس کو اہمیت نہیں دیتے کہ بھارت میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے مفکر، مبصر، دانشور اور سیاسی رہنما نریندر مودی کے جنگی جنون کی مخالفت کرتے ہوئے صاف لفظوں میں کہنے لگے ہیں کہ اب مودی جی کو مسئلہ کشمیر حل کرنے پر آمادہ ہو جانا چاہئے۔ اس کا آغاز کشمیری باشندوں پر فوج کے وحشیانہ مظالم کا سلسلہ بند کر کے اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی سے ممکن ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستانی افواج کو بھارت پر جوابی حملے کا مکمل اختیار دے دیا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان نے بھی حکومت بھارت کو دو ٹوک انداز میں متنبہ کر دیا ہے کہ اگر اس نے جنگ چھیڑنے کی غلطی کی تو وسیع تر تباہی اس کا مقدر ہوگی۔ پاکستانی افواج کی صلاحیت، تربیت، تجربہ اور دفاعی ساز و سامان 1971ء کے مقابلے میں اس قدر جدید اور ترقی یافتہ ہے کہ بھارتی فوج اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ بھارتی افواج کے کئی سابق فوجی سر عام اور متعدد بار اس حقیقت کا اظہار کر چکے ہیں۔ گزشتہ روز بھارتی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس مرکنڈے کاٹجو نے جنگی جنون میں مبتلا اپنے وزیر اعظم نریندر مودی کو متنبہ کیا ہے کہ اگر انہوں نے پاکستان سے جنگ چھیڑنے کی غلطی کی تو صدیوں پچھتانا پڑے گا۔ وہ ایک ایٹمی قوت ہے۔ کشمیریوں پر حملے ہو رہے ہیں، میں بھی کشمیری ہوں۔ بھارت نے کشمیر میں جو کچھ کیا ہے، اس کے بعد سارے کشمیری عوام بھارت کے خلاف ہوگئے ہیں۔ میں نے بھی اپنا ڈنڈا سنبھال کر رکھا ہے۔ جو آئے گا اس کا سر کھول دوں گا۔ ادھر خالصتان تحریک پہلے ہی کشمیر کو متنازع علاقہ قرار دے کر کہہ چکی ہے کہ عالمی قوانین کے تحت بھارتی فوجیوں پر حملے جائز ہیں۔ چاروں طرف سے مایوسی کے بعد مودی سرکار ایک بار پھر آبی دہشت گردی کا سہارا لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف بہہ کر آنے والے تین دریائوں سندھ، جہلم اور چناب کا پانی روک کر اسے صرف بھارت کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ماہرین نے اسے گیڈر بھبھکی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دریائے سندھ کا پانی روکنا تو تیکنیکی طور پر ممکن ہی نہیں ہے، جبکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت جہلم اور چناب کا پانی وہ پاکستان کی اجازت سے صرف بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ سندھ کے ماہر آبپاشی ادریس راجپوت کا یہ فکر انگیز تبصرہ بھارت کے لیے کافی ہونا چاہئے کہ اگر اس نے جہلم اور چناب کا پانی دو تین ماہ کے لیے کسی بھی بہانے سے روکنے کی کوشش کی تو پھر ہمارا ایٹم بم کس کام آئے گا؟ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment