سرفروش

عباس ثاقب
مہتاب سنگھ نے ہاں میں گردن ہلائی ’’تلونڈی میں داخل ہونے سے پہلے ریل کی پٹری آئے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسی ہی ٹوٹی پھوٹی سڑک الٹے ہاتھ پر جاتی ہے۔ آگے پھر قصور نالہ آئے گا، جس پر کچا پل ہے۔ اسے پار کر کے ہم امرتسر کی حدود میں داخل ہو جائیں گے‘‘۔
میں نے کہا ’’ٹھیک ہے۔ تم وہ کچی سڑک آتے ہی گاڑی موڑ کر اس پر چڑھا دینا۔ ہم پولیس کی نظروں میں آنے یا تلاشی دینے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے‘‘۔
مہتاب سنگھ نے ایک بار پھر ہاں میں گردن ہلائی۔ لیکن تبھی سکھبیر نے کہا ’’ذاکر بھائیا اس طرح تو ہم خود بخود مشکوک بن جائیں گے۔ پل اس سڑک سے زیادہ آگے نہیں ہے۔ ہم نے اس سڑک پر جیپ چڑھائی تو یقینی بات ہے کہ ہماری کھوج لگانے کی ڈیوٹی کرتے پولیس والوں کی نظروں میں آجائیں گے۔ وہ ہمارے پیچھے گاڑی لگا دیں گے اور اس چھوٹی سڑک پر ہمارے بچ نکلنے کا امکان بہت کم ہوگا‘‘۔
اس کی بات میں وزن تھا۔ لہٰذا میں نے اس کے اندیشے کی تائید کی۔ اس کے ساتھ ہی میں اس خطرناک صورتِ حال سے بچ نکلنے کی کوئی ترکیب بھی سوچتا رہا۔ ایک خیال ذہن میں آتے ہی میں نے سکھبیر سے پوچھا۔ ’’اس جیپ کے پچھلے حصے کی چھت ہٹ جاتی ہے ناں؟‘‘۔
اس نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا اور کہا ’’ہاں، کینوس کی ہے۔ چند بٹن کھولتے ہی اتر جاتی ہے۔ ہم اسے فولڈ کر کے سیٹ کے نیچے رکھ سکتے ہیں۔ آپ کا مطلب ہے…‘‘۔
میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ’’ہاں۔ آئیں چھت کھول کر فولڈ کریں۔ لیکن جلدی۔ ابھی پیچھے کوئی گاڑی نہیں ہے اور ہمیں ناکے کے پاس پہنچنے سے پہلے یہ کام کرنا ہے‘‘۔
پتا نہیں میری بات کتنی سمجھ آئی۔ لیکن سکھبیر مزید کوئی سوال کیے بغیر حرکت میں آگیا۔ میرے ہاتھ بھی تیزی سے چل رہے تھے۔ شیر دل بھی اپنے حصے کا کام نمٹا رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں جیپ کا پچھلا حصہ کھل گیا۔ سکھبیر نے میری طرف دیکھ کر پوچھا ’’اب چھت لپیٹ کر سیٹ کے نیچے سرکادیں؟‘‘۔
میں نے اس کا ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے کہا ’’نہیں۔ آؤ چاروں بندوقوں کو اس کینوس میں لپیٹیں۔ لیکن جلدی‘‘۔
اس نے میری ہدایت پر فوری عمل کیا۔ اب ہمارے سامنے ایک بنڈل موجود تھا۔ میں نے سکھبیر کو کہا۔ ’’اب ہمیں یہ سامان لے کر جیپ سے دور جانا ہے۔ انہیں ایک کینوس کی چھت والی جیپ اور اس میں سوار چار مسلح افراد کی تلاش ہے۔ اب چاہیں تو تلاشی بھی لے لیں۔ بغیر چھت والی جیپ میں سوار دو بندوں پر انہیں شک نہیں ہوگا۔ اور اگر ہوا بھی تو انہیں روکنے کا پولیس والوں کے پاس کوئی جواز نہیں ہوگا‘‘۔
میری بات سکھبیر ہی نہیں اس کے دونوں ساتھیوں کی بھی سمجھ میں آگئی۔ مہتاب سنگھ نے جیپ روک دی۔ میں نے اسے کہا ’’پل پار کرنے کے بعد رک کر ہمارا انتظار نہ کرنا۔ سیدھے ہرمندر صاحب چلے جانا۔ ہم کسی نہ کسی طرح خود وہاں پہنچ جائیں گے۔ سمجھ گئے ناں؟‘‘۔
اس نے اپنی عادت کے مطابق زور زور سے سر ہلایا۔ پہلے سکھبیر اور پھر میں نیچے اترا اور ہم دونوں رائفلوں کا ’’پیکٹ‘‘ اٹھا کر تیزی سے سڑک کنارے اگی گندم کی لہلہاتی فصل میں گھستے چلے گئے۔ میں نے کچھ آگے بڑھنے کے بعد پلٹ کر دیکھا تو سڑک خالی نظر آئی۔ جیپ ہمیں چھوڑ کر آگے بڑھ چکی تھی۔
ہم ایک بار پھر ہلکی نم آلود زمین میں اگے پودوں کے درمیان چلنے لگے۔ پھر میں نے رک کر دائیں طرف لگ بھگ سو گز کے فاصلے پر بنے ایک بڑے سے کوٹھڑے کی طرف اشارہ کیا ’’میرا خیال ہے ہم وہاں اپنا مال چھپانے کی کوشش کر سکتے ہیں‘‘۔
سکھبیر نے بغور کوٹھڑے کی طرف دیکھا اور کہا ’’لیکن اگر وہاں کوئی ہالی یا کھیت کا راکھا ہوا تو؟‘‘۔
میں نے کہا ’’میں یہیں انتظار کرتا ہوں۔ تم جاکر پتا کر آؤ!‘‘۔
اس نے میری تائید کی اور رائفلوں کا بنڈل چھوڑ کر کوٹھڑے کی طرف چل دیا۔ میں بنڈل پر بیٹھ گیا۔ وہ کچھ ہی دیر بعد لوٹ آیا۔ مجھے وہ کافی پرجوش دکھائی دیا۔ میں نے پوچھا ’’کیا خبر لائے ہو بھائی؟‘‘۔
اس نے کہا ’’آس پاس کوئی دکھائی نہیں دیا۔ کوٹھڑے کے دروازے پر بھی تالا لگا ہوا ہے‘‘۔
میں نے کہا ’’تو پھر تم اتنے جوش میں کیوں دکھائی دے رہے ہو؟‘‘۔
اس نے مسرور لہجے میں کہا ’’اس جھونپڑے کے پچھواڑے مجھے ایک ٹریکٹر کھڑا نظر آیا ہے۔ اس کے پیچھے ٹرالی بھی جڑی ہوئی ہے اور وہاں سے ایک پگڈنڈی سڑک کی طرف جا رہی ہے‘‘۔
میں نے اس کی بات کچھ کچھ سمجھتے ہوئے پوچھا ’’تمہارا مطلب ہے ہم ٹریکٹر چُراکر یہاں سے فرار ہونے کی کوشش کریں؟‘‘۔
اس نے ہاں میں سر ہلاکر کہا ’’ہم وہ ٹریکٹرچوری تھوڑی کر رہے ہیں۔ قصور نالے کا پُل پار کر کے اسے سڑک کنارے چھوڑ دیں گے اور آگے جانے کا کوئی اور ذریعہ ڈھونڈیں گے‘‘۔
میں نے کہا ’’میں سمجھ رہا ہوں۔ تم اپنے ہتھیار یہاں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے۔ لیکن اگر یہ ٹریکٹر چوری کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے تو بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔ تمہارے کسان اپنے ٹریکٹر کو جان سے بڑھ کر چاہتے ہیں‘‘۔
اس نے ایک کمینی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے ریوالور کے ابھار کو تھپتھپاکر کہا ’’فکر نہ کرو بھائیا۔ ہمارے پاس ایسے عاشقوں کا پکا علاج موجود ہے۔ لیکن میں یہ رائفلیں کسی قیمت پر یہاں لاوارث چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ ہمارے مشن کے لیے ایک ایک ہتھیار بہت قیمتی ہے‘‘۔
میں نے کہا ’’ٹھیک ہے بھائی۔ لیکن ٹریکٹر تو شاید چابی سے اسٹارٹ ہوتا ہوگا‘‘۔
وہ پھر مسکرایا ’’ہمارے دیہاتوں میں ایسے تکلفات نہیں چلتے۔ ویسے بھی مجھے چابی کے بغیر انجن اسٹارٹ کرنے کا گُر آتا ہے‘‘۔
تاہم سکھبیر کو اپنا ہنر دکھانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اس کے دعوے کے عین مطابق ٹریکٹر کا انجن بغیر چابی کے، باآسانی اسٹارٹ ہوگیا اور ہماری خوش قسمتی کہ اس میں ایندھن بھی موجود تھا۔ البتہ رائفلوں کے بنڈلوں کو پیچھے ٹرالی میں رکھ کر چھپانے کے لیے بھاری مقدار میں پرالی اکٹھی کرنے میں ہمیں کافی محنت کرنا پڑی۔
سکھبیر نے ٹریکٹر پگڈنڈی پر ڈال دیا۔ میں اس کے ساتھ ٹریکٹر کے جناتی ٹائر کے بمپر پر بیٹھا چوکسی سے چاروں طرف نظریں دوڑا رہا تھا۔ ہمیں دھڑکا لگا ہوا تھا کہ ابھی کسی طرف سے ٹریکٹر کا مالک دوڑتا، فریاد کرتا نمودار ہوگا اور دیکھتے ہی دیکھتے مشتعل دیہاتیوں کا ہجوم ہمیں گھیر لے گا۔ مسئلہ یہ تھا کہ نیم ہموار پگڈنڈی پر سکھبیر ٹریکٹر کی رفتار ایک حد سے زیادہ نہیں بڑھا سکتا تھا۔ ورنہ ٹریکٹر نہ سہی ٹرالی ضرور الٹ جاتی اور ہمارا سرمایہ کھیتوں میں بکھر جاتا۔
جی ٹی روڈ تک پہنچنے میں ہمیں کافی دیر لگ گئی اور پھر رینگتے ٹریفک کے ہجوم میں شامل ہونا بھی دشوار مرحلہ ثابت ہوا۔ میرا اندازہ بالکل درست ثابت ہوا تھا۔ لگ بھگ سو گز آگے نہر کے پل سے پہلے سڑک کے کنارے واقعی پولیس کی ایک جیپ ترچھی کھڑی دکھائی دی اور کئی بندوق بردار پولیس والے وہاں سے گزرنے والی گاڑیوں کا جائزہ لے رہے تھے اور حسبِ ضرورت پوچھ گچھ بھی کر رہے تھے۔
میرا دل زور سے دھڑکا۔ ہتھیار تحویل میں رکھنے کے لالچ میں سکھبیر نے جو خطرہ مول لیا ہے، وہ کہیں بھاری نہ پڑ جائے۔ خدا جانے وہ ہماری کس بات سے مشکوک ہو جائیں اور ہماری جامہ تلاشی پر تُل جائیں۔ ٹرالی میں جمع پرالی کے ڈھیر پر صرف ایک ہاتھ مارنے کی دیر تھی۔ ہمارا سارا کچا چٹھا کھل جاتا۔
لیکن ہم جیسے جیسے قریب ہوتے گئے ہمیں اندازہ ہوگیا کہ ان کی اصل دلچسپی کا مرکز جیپ ہی ہے۔ باقی گاڑیوں پر وہ محض رسماً توجہ دے رہے تھے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ہم سے تین گاڑیاں آگے چلنے والی ایک کھٹارا جیپ کو انہوں نے روک کر سڑک سے نیچے سے اتار لیا تھا اور دو رائفل بردار سنتری اسٹیئرنگ پر موجود لگ بھگ ساٹھ سالہ سردار جی سے پوچھ گچھ کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ ان کا نگران حوالدار بھی پولیس جیپ سے اتر کر وہاں آگیا تھا۔
لیکن یہ ہمارے لیے بہت اچھا ہوا۔ کیونکہ نفری آدھی ہوجانے کی وجہ سے ہمارے ٹریکٹر کو روکنے کے لیے اشارہ بھی نہیں کیا گیا اور ہم سیدھے پل پر چڑھ گئے۔ چند ہی منٹ بعد ہم کھلی سڑک پر حتی الامکان تیزی سے ٹریکٹر دوڑائے جا رہے تھے۔ سکھبیر کے چہرے کی رونق لوٹ آئی تھی۔ اس نے فخریہ لہجے میں کہا ’’دیکھا ذاکر بھائیا۔ ان پولیس والوں کو کیسے بدھو بنایا؟ مجھے پتا تھا وہ ٹریکٹر پر توجہ نہیں دیں گے‘‘۔ پھر اسے کچھ خیال آیا اور اس نے داد و تحسین سے لبریز لہجے میں کہا ’’لیکن بھائی اصل کمال تو تم نے کیا ہے۔ تم پہلے ہی خطرہ نہ بھانپ لیتے تو ہم سیدھے پولیس والوں کے شکنجے میں پھنس جاتے۔ ہمارے دماغ میں یہ بات تو آئی ہی نہیں تھی کہ پولیس والوں کو ٹیلی فون کے ذریعے بھی الرٹ کیا جا سکتا ہے‘‘۔
میں نے اس کی دلجوئی کی ’’سکھبیر بھائی، بس اوپر والے کی کرپا ہے کہ میرا دماغ عین وقت پر کام کر گیا۔ لیکن تم نے بھی جیپ کو کچی سڑک پر ڈالنے کا خطرہ بھانپ کر ہمیں سنگین غلطی سے بچالیا تھا۔ ورنہ لینے کے دینے پڑ جاتے۔ اچھا اب یہ بتاؤ۔ کیا اسی ٹریکٹر میں ہرمندر صاحب پہنچنے کا ارادہ ہے تمہارا؟‘‘۔
میرے آخری جملے میں شامل شرارت محسو س کر کے وہ ہنس پڑا۔ ’’یار اس ٹریکٹر کے حوالے سے کوئی خطرہ تھا بھی تو وہ بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ پہلے تو سوچ رہا تھا کہ اسے چھوڑ دوں۔ لیکن پھر ہمیں ہتھیاروں کا بوجھ ڈھونے کے لیے کوئی دوسری سواری ڈھونڈنی پڑے گی۔ اب اسی میں چلتے ہیں۔ ہرمندر صاحب کے قریب کسی جگہ اسے روکیں گے اور پھر جیپ لاکر اپنا سامان لے جائیں گے‘‘۔ میں نے تائید کی تو وہ بے فکری سے ٹریکٹر دوڑانے لگا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment