مٹی کا گلک (پہلا حصہ)

وہ والہانہ انداز میں کعبہ شریف کے گرد چکر لگا رہی تھی۔ ہر چکر کے اختتام پر وہ حجر اسود کا استیلام کرتی اور پھر اللہ یار کا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے حجر اسود کے نشان پر بنی ہوئی کتھئی رنگ کی پٹی سے آگے بڑھ جاتی۔ مطاف اس وقت زائرین سے بھرا ہوا تھا۔ کعبہ اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ موجود تھا۔ طواف میں بے پناہ رش کے باوجود خیراں کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ ہر چکر میں وہ کعبہ کی دیوار کو چھو کر محسوس کرے۔ خدا کے گھر کو ہاتھ لگاتے ہوئے اس کے روئیں روئیں میں کرنٹ سا دوڑ جاتا تھا۔ دیواروں کو چھوتے ہوئے اس کی روح میں ٹھنڈک اتر جاتی۔ اینٹوںکے بنے ہوئے اس چوکور گھر میں اسے ہر جگہ خدا کا قرب محسوس ہوتا تھا۔ اسی لئے طواف کرتے ہوئے رب سے قریب ہونے کے شوق اور بھوری دیواروں کو چومنے کی کوشش میں وہ کئی بار لڑکھڑا کر گری۔ اس کے پیر کچل کچل گئے۔ پیروںکے تلوئوں میںکانٹے سے چبھنے لگتے تھے۔ سانسیں رک رک جاتی تھیں۔ اللہ یار اسے کمر سے پکڑ کر کھینچتا، مگر وہ بے خود سی ہوکر پھر آگے بڑھ جاتی۔ حجر اسود کو اس نے چھونے کی کوشش نہیں کی۔
پہلی بار طواف کرتے ہوئے اسے آسانی سے حجر اسود چومنے کا موقع مل گیا تو اس نے بے اختیار چوم لیا، مگر اس کے بعد تو اس نے صرف اپنی توجہ اور کوشش کعبہ کی دیواروں کو چھونے، ان کو سینے سے لگانے اور دیوار کو ہاتھ لگا کر دعا کرنے میں ہی صرف کی۔ طواف کرتے ہوئے اس کی نظر ایسے لوگوں پر پڑتی، جو جسمانی طور پر معذور ہوتے تو ’’خدا تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے‘‘ کہہ کر اس کی زبان خشک ہو جاتی۔ طواف کی دعائیں تو اسے یاد نہیں تھیں۔ لیکن بچپن سے ماں نے جو قرآنی سورتیں اسے یاد کرائی تھیں، وہ اسے ابھی تک ازبر تھیں۔ سورئہ یٰسین اور سورئہ رحمٰن اس کی پسندیدہ سورتیں تھیں۔ جنہیں وہ روزانہ فجر کی نماز میں پڑھتی تھی۔ رات سوتے وقت سورئہ ملک، سورئہ واقعہ، سورئہ مزمل پڑھنا کبھی نہ بھولتی تھی۔ خواہ دن بھر وہ کتنی ہی تھکے، اکثر اسے لیٹنے میں دیر ہو جاتی تو وہ ان سورتوں کو پڑھتے پڑھتے بے خبر سو جاتی اور پھر رات بھر خواب میں خدا کے گھر کا طواف کیا کرتی۔ یہ اس کی دلی تمنا تھی۔
نوجوانی میں اس نے کبھی کسی زیور، ریشمی کپڑے کی خواہش نہیں کی۔ وہ بچپن سے ’’نیک روح‘‘ تھی۔ ماں اس کی مسکنت پر ترس کھا کر اسے پیار کرتی تھی۔ کیونکہ اس نے بڑی بہنوں کی طرح کبھی کسی چیز کی فرمائش کرکے ماں کو پریشان نہیں کیا۔ بڑی بہنوں کی اترن پہن کر سب کا بچا کھچا کھا کر خدا کا شکر کرتی۔ کبھی اس نے کسی سے کوئی شکوہ نہ کیا۔ گھر کے سب افراد تازہ کھاتے، اس کیلئے بچانا کسی کو یاد ہی نہ رہتا۔ سب پلنگ پر سوتے، گھر میں اسے زمین پر سونا بھی غنیمت لگتا۔ یہاں تک کہ اس کی شادی بھی ایسے آدمی سے ہوئی جو اس کی سب سے بڑی بہن کا شوہر تھا۔ جواس سے بیس سال عمر میں بڑا تھا۔ بہن کے مرنے کے بعد اللہ یار نے اس کی ماں سے خیراں کا ہاتھ مانگا۔ بہن کی کوئی اولاد نہیں تھی، ماں نے یہ سوچ کر ہاتھ پکڑا دیا کہ دیکھا بھالا ہے، بیس سال کا فرق بھی کوئی فرق ہے۔ عورت تو ویسے یہ جلدی بوڑھی ہو جاتی ہے اور مرد کی عمر کیا دیکھنا۔ اور خیراں لب سئے اللہ یار کی دلہن بن گئی۔
اللہ یار کی ماں قریب کے بنگلوں میں کام کرتی تھی۔ بیٹے کو لاڈ پیار میں اس نے کبھی کام نہ کرنے دیا۔ بس وہ آتی جاتی عورتوں پر بری نظر ڈالتا۔ ماں کے مرنے کے بعد جب وہ اکیلا ہوگیا تو اسے کمانے سے زیادہ کھانے اور کھانا پکانے والی کی ضرورت ہوئی۔ پہلی بیوی خیراں کی سب سے بڑی بہن کڑھ کڑھ کر ختم ہوگئی۔ خیراں کی عمر اس وقت صرف پندرہ سال تھی۔ اللہ یار نے تو ساس کے در کی دھول ہی لے ڈالی۔ اس کے کئی بار پیر پکڑ لئے۔ ماسی تم ہی میری ماں ہو، تم نہیں سوچو گی میرے لئے تو کون سوچے گا۔ جوان بیٹی کی ماں کو کیا سوچنا۔ اس نے دوسری بیٹیوں کی مخالفت کے باوجود خیراں کا ہاتھ اللہ یار کے ہاتھ میں دے دیا۔ جن گھروں میں اللہ یار کی ماں کام کرتی تھی، ان گھروں میں شادی کے دوسرے یہ دن سے خیراں جانے لگی۔ نارتھ ناظم آباد کے بنگلوں میں رہنے والوں کو یہ معصوم سی سادہ خیراں بہت اچھی لگی۔ وہ محنت اور جانفشانی سے کام کرتی، رات کا بچا کھچا کھانا لے کر خاموشی سے اپنی جھونپڑی میں آجاتی۔ دونوں میاں بیوی کھانا کھاتے اور سو جاتے۔
زندگی بڑے سکون سے گزر رہی تھی۔ کیونکہ وہ جن گھروں میں کام کرتی تھی، وہ سب دولتمند اور صاحب حیثیت لوگ تھے۔ دولت کی نمائش کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ اس نمائش میں کھاتے کم اور ضائع زیادہ کرتے تھے۔اسراف میں مبتلا حرص و ہوس میں آلودہ یہ لوگ خوب دل کھول کر اپنا بچا کھچا خیراںکو دیتے تھے۔ خیراں کیونکہ محنت اور دیانتداری سے کام کرتی تھی، اس لئے اس کی خیرات میں بھی اضافہ ہو جاتا تھا۔ جب وہ گھر لوٹتی تو اس کے دونوں ہاتھوں میں مختلف کھانوں کے تھیلے ہوتے۔ گھر میں تو صرف وہ صبح اللہ یار کیلئے دو پراٹھے پکاتی، خود تو رات کا بچا کھچا کھا کر یہ کام پر چلی جاتی تھی۔
مہینہ کی پہلی تاریخ کو جب اس کو تنخواہ ملتی تو وہ سب سے پہلے اللہ کے نام کے دس روپے نکال کر الگ رکھ دیتی۔ اس کے بعد اللہ یار کیلئے حقہ کے تمباکو، کوئلے، بیڑی اور پان کے پیسے نکال کر اس کے ہاتھ میں دیدیتی اور باقی تنخواہ مٹی کے گلک میں ڈال دیتی۔ جو اس نے اللہ یار سے چھپا کر جہیز کے اکلوتے صندوق میں کپڑوں کی تہہ میں رکھا ہوا تھا۔
خیراں کو بنگلوں میں کام کرتے کرتے عمر گزر گئی تھی۔ اب تو وہ بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑی تھی۔ خدا کے گھر کو دیکھنے کی تمنا بچپن سے اس کے دل میں تھی۔ جو اب بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ اللہ یار اس سے بالکل الگ اور مختلف تھا۔ پھر بھی زندگی کی گاڑی چل رہی تھی۔اللہ یار ایک پختہ عمر کا گھاگ آدمی تھا۔ جو خیراں کیلئے ایک سائبان تھا۔ اس نے کبھی کسی بات میں اللہ یار سے اختلاف نہیں کیا تھا۔ میکے میں ماںکے مرنے کے بعد کوئی نہ تھا۔ جو اس کی بات سنتا، اس کے درد کو محسوس کرتا۔ اسے اللہ یار سے عشق تھا اور سچ تو یہ ہے کہ عشق تو ایک مستقل مجاہدہ، زندگی کا وظیفہ اور یکطرفہ قرینہ ہے۔ جو کسی جزا سے مشروط نہیں۔ اسے تو یہ بھی پروا نہیں تھی کہ اس عشق میں اسے کیا ملا؟ اپنی وفا اور عشق کے بدلے صرف اور صرف اللہ یار کی سنگدلی ہی ہاتھ آئی۔ رات کو سونے سے پہلے وہ دل ہی دل میںاللہ یار کی سلامتی، عمر
کی درازی اور خدا کے گھر کو دیکھنے کی دعا ضرور مانگی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ عشق تو صرف اس خالق حقیقی سے کرنا چاہئے جو سرچشمہ حیات اور منبع جزو کل ہے۔ مگر اس نے زندگی اللہ یار کے ساتھ گزارنے کا عہد کیا تھا۔ عہد بھی تو ایک زنجیر کی مانند ہوتا ہے۔ جس کو توڑنا آسان نہیںہوتا۔ وہ تو بس اپنے رب کی وجہ سے ہر عہد نبھا رہی تھی۔ اصل عشق تو اسے خدا اور اس کے رسولؐ ہی سے تھا۔ جبھی تو بنگلوں میں صفائی کرتے ہوئے کاغذ یا اخبار زمین پر پڑا دیکھتی تو آنکھوں سے لگا کر چوم لیتی۔ جانے کس پر خدا کا نام لکھا ہو؟ وہ تھی تو نری ان پڑھ۔ پر رب کے گھر اور گنبد خضرا کو خوب پہچانتی تھی۔ یہ تصویریں اسے شروع ہی سے بہت پسند تھیں۔ اس کے جہیز کے اکلوتے صندق میں خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ کی بے شمار تصاویر تھیں۔ جن کو وہ صندوق کی صفائی کے بہانے دیکھ کر چوم لیتی تھی۔
حج کا موسم آنے والا تھا۔ خیراں بس حسرت سے اپنی مٹی کے گلکک کو ہلا ہلاکر دیکھتی اور اس کی مالیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتی۔ جوانی سے اب تک اس نے اس گلک کو ایک دفعہ بھی توڑنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ بس ایک آس تھی کہ کبھی تو بھرے گا اور اس میں سے جب نوٹ باہر نکلنے لگیں گے تو وہ خدا کے گھر پہنچ جائے گی۔ عجیب سی تمنا تھی۔ راشد صاحب کے بنگلے میں وہ گزشتہ پچیس سال سے کام کر رہی تھی۔ ان کی بیگم خیراں کا بڑا خیال رکھتی تھیں۔
ایک دن وہ ان کے گھر کام کرنے گئی تو اسے معلوم ہواکہ راشد صاحب اپنی بیگم کے ساتھ حج کرنے جا رہے ہیں۔ ان کا ارادہ اس سال حج کے فارم بھرنے اور کعبہ کی زیارت کا ہے۔ اندر کی تڑپ نے اسے بے چین کردیا۔ آنکھوں کے کنارے خود بخود بھیگنے لگے اور آنسوئوںکی بوندیں گالوں سے پھسلتی ہوئی گردن تک پھیل گئیں۔ وہ سر جھکائے کام ختم کرکے اپنی جھگی میں آگئی۔ اللہ یار مٹر گشت پہ نکلا ہوا تھا۔ یہ موقع غنیمت جان کر اس نے اپنا گلک صندوق سے نکال کر موٹے کپڑے میں لپیٹا، اس کی آنکھیں خون ہو رہی تھیں۔ ٹھنڈے پانی کے چھینٹے ڈال کر وہ گلک لئے راشد صاحب کے گھر دوبارہ آگئی۔ بیگم صاحبہ اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئیں ۔ ان کا دھیان اللہ یار کی طرف گیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment