ہمارے معاشرے میں عام دستور ہے کہ جو اولاد اپنے باپ کی نافرمان نکلے، اسے ناخلف کہا جاتا ہے اور اگر بیٹا اپنے باپ ہی کو مار ڈالے تو دنیا اس پر لعن طعن کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس سے بڑا بدبخت اور کوئی نہیں۔ بالکل اسی طرح بھارت میں بسنے والے جنونی ہندوئوں کی بدبختی میں بھی کوئی شک نہیں کہ جنہوں نے اپنے ’’باپو‘‘ کو بھی نہیں بخشا، ان سے انسان دوستی، امن و شانتی، مکالمے اور بھائی چارے کی توقع رکھنا عبث ہے۔ اس سلسلے میں کانگریس اور بی جے پی میں رتی بھر فرق نہیں ہے کہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں، جو انسان دشمنی اور مسلم دشمنی کی دہکتی ہوئی بھٹی میں ڈھالا گیا۔
معروف بھارتی صحافی کلدیپ نائر 30 جنوری 1948ء کا وہ خنک دن زندگی بھر بُھلا نہ سکے، جب انتہا پسند ہندو نتھو رام گوڈسے نے گاندھی کو گولی مار کر قتل کیا اور افواہ پھیلائی گئی کہ باپو کا قاتل مسلمان تھا۔ وہ اپنی خودنوشت ’’ایک زندگی کافی نہیں‘‘ میں ان افسوسناک لمحات کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’میں اس وقت روزنامہ ’’انجام‘‘ کے لیے کام کرتا تھا۔ 30 جنوری کسی بھی دوسرے دن کی طرح سردیوں کا عام دن تھا۔ روشن اور خنک۔ دفتر کے ایک کونے میں رکھا ہوا پی ٹی آئی ٹیلی پرنٹر مسلسل لفظوں پر لفظ اگل رہا تھا۔ صابری صاحب جو ڈیسک کے ذمہ دار تھے، نے مجھے ترجمہ کے لیے ایک طویل تحریر دی، جس کی ڈیٹ لائن میں لندن درج تھا۔ چپراسی میرے لیے گرم گرم چائے کا پیالہ رکھ چکا تھا، جس میں ڈھیر ساری چینی ڈالی ہوئی تھی۔ میں اسے آہستہ آہستہ چسکیاں لیتے ہوئے پی رہا تھا کہ ٹیلی پرنٹر کی گھنٹی بجی۔ میں ٹیلی پرنٹر کی طرف لپکا اور جلی سرخی تھی Gandhi Shot ’’گاندھی جی کو گولی مار دی گئی‘‘۔
میرے ایک رفیقِ کار نے موٹر سائیکل پر مجھے برلا ہائوس پہنچایا۔ برلا ہائوس پر بے کیف اداسی چھائی ہوئی تھی۔ دور سے بار بار یہ بول بلند ہوتے سنائی دے رہے تھے: ’’گاندھی امر رہے‘‘ دروازے پر کوئی نہ تھا، جو اندر آنے والوں کو روکتا ٹوکتا۔ سفید کھدر میں لپٹے ہوئے مردوں اور عورتوں کا ایک گروہ گاندھی جی کی میت کے گرد کھڑا تھا۔ یہ ان کے مقربین اور پیروکار تھے، جو ان کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ بہت سے لوگ جو دوپہر کی دعا (پرارتھنا) میں شرکت کے لیے جلدی پہنچ گئے تھے، وہیں ٹھہر گئے تھے۔ کوئی زیادہ بڑا مجمع نہ تھا۔
میری نہرو، پٹیل اور وزیر دفاع بلدیو سنگھ پر نظر پڑی۔ رنج و غم میں ڈوبے ہوئے۔ ان کا دکھ ان کے چہروں سے عیاں تھا۔ میںنے دیکھا کہ مولانا آزاد تن تنہا ایک درخت کے نیچے سوچ میں غرق تشریف فرما ہیں۔ بدقسمتی سے تقسیم سے قبل کی یہ اہم آواز، آزادی کے بعد غیر اہم ہو گئی تھی۔ نہرو نے ان سے مشاورت جاری رکھی اور ان کی رائے کا احترام کیا۔ لیکن پٹیل اکثر اپنے لوگوں کو باور کراتے کہ کس طرح مولانا صفر ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس کے برعکس گاندھی جی ہمیشہ مولانا آزاد کی رائے جاننا چاہتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ لارڈ مائونٹ بیٹن آئے اور انہوں نے مہاتما کی میت کو سیلوٹ کیا، جو صحن کے وسط میں ایک چبوترے پر رکھی ہوئی تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ قاتل پنجابی نہیں تھا۔
بلدیو سنگھ نے مائونٹ بیٹن سے کہا: ’’وہ مسلمان بھی نہیں تھا اور ہم اس حقیقت کی تشہیر کر رہے ہیں‘‘۔ مجھے خیال آیا کہ اس تشہیر سے یہ افواہ دم توڑ دے گی کہ قاتل مسلمان تھا۔‘‘ (ص ۔102-103)۔
اس اقتباس کے آخری جملے یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ بھارتی انتہا پسند ہندو کہ آج کل جن کے سرخیل نریندر مودی ہیں، کی یہ پرانی عادت ہے کہ وہ دہشت گردی کی واردات کرنے کے بعد الزام مسلمانوں پر لگا دیتے ہیں۔
کلدیپ نائر نے گاندھی کے قتل کی دو بڑی وجوہ بیان کی ہیں۔ پہلی یہ کہ دلی سرکار مشترکہ اثاثوں میں سے پاکستان کا حصہ دینے پر صرف اس لیے راضی ہوئی کہ گاندھی نے تامرگ بھوک ہڑتال کی دھمکی دی تھی۔
گاندھی کی اس حرکت پر راشٹریہ سیوک سنگھ کے ’’باپو‘‘ مرکزی وزیر داخلہ ولبھ بھائی پٹیل سخت چیں بہ جبیں ہوئے۔ کلدیپ نائر کے الفاظ میں ’’پٹیل مہاتما کو اس مسئلے کے اٹھانے پر کبھی معاف نہ کر سکے اور نہ ہی انتہا پسند ہندوئوں کو یہ ہضم ہوا‘‘۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ جنونی ہندوئوں کو یہ محسوس ہوا کہ گاندھی بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے منصوبے کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ گاندھی کے قتل کے بعد پٹیل نے جو اقدامات کیے، ان سے بھی ظاہر ہوتا تھا کہ باپو کا قتل کسی جنونی ہندو کے وقتی اشتعال کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ انہیں پرلوک بھجوانے کے لیے باقاعدہ سازش تیار کی گئی تھی۔ قتل کی واردات سے چند روز پہلے پرارتھنا کے دوران مدن لال نامی ایک ہندو نے باپو پر بم پھینکا، جس کے پھٹنے کی آواز سن کر کلدیپ نائر سمیت وہاں موجود سبھی لوگ اسے کریکر سمجھے۔ گاندھی نے بھی اس پر کوئی خاص ردعمل ظاہر نہ کیا۔ لیکن اس حرکت کے باوجود سرکار نے گاندھی کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہ کیا، جسے کلدیپ نائر ناقابل معافی جرم قرار دیتے ہیں۔
واردات کے بعد پورے ملک میں ولبھ بھائی پٹیل کی طرف انگلیاں اٹھنے لگیں، کیونکہ لوگ جانتے تھے کہ پٹیل کو اس بات کی سخت تکلیف تھی کہ باپو نے پاکستان کو اثاثے دلانے کے لیے مرن برت کی دھمکی کیوں دی۔ پٹیل نے اس موقع پر خود کو گاندھی کے قتل کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کابینہ سے مستعفی ہونے کا ڈرامہ بھی کیا، جبکہ کلدیپ نائر کے بقول ’’اس کے استعفے کا اصل مقصد اس بھڑکتی ہوئی رائے عامہ کو ٹھنڈا کرنا بھی تھا، کیونکہ انگلیاں اس پر اٹھ رہی تھیں‘‘۔
گاندھی کے قتل میں دہشت گرد ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS ) کا پورا ہاتھ تھا۔ واضح رہے کہ یہ وہی تنظیم ہے، جس نے نریندر مودی جی کو بھی پال پوس کر بڑا کیا۔ عوام نے جب پٹیل کے علاوہ آر ایس ایس کو بھی ہدفِ تنقید بنایا تو پٹیل نے اس تنظیم پر پابندی کا اعلان کردیا، لیکن پابندی کے حکم نامے کی ابھی روشنائی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ یہ فیصلہ واپس بھی لے لیا۔ کلدیپ نائر کے بقول ’’سبھی جانتے تھے کہ پٹیل آر ایس ایس کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ لوگوں کو شک تھا کہ آر ایس ایس گاندھی کے قتل میں ملوث ہے۔ پٹیل نے آر ایس ایس پر پابندی لگا دی، لیکن فوراً بعد ہی یہ پابندی اٹھا بھی دی۔ ایسا محسوس ہوتا کہ اسے یہ سب کچھ مجبوراً کرنا پڑ رہا تھا‘‘۔ کلدیپ نائر کی زبانی گاندھی کے قتل کی یہ کہانی بھارتی دہشت پسند جنونی ہندو کے مزاج کو سمجھنے میں کافی ممدو معاون ثابت ہو سکتی ہے ۔
بیگم ثریا حفیظ الرحمان کو 80ء کی دہائی میں کافی سال دلی رہنے کا اتفاق ہوا۔ اُن کی اُس دور کی یادداشتوں کے مجموعے ’’جس دیس میں گنگا بہتی ہے‘‘ اور ’’صنم کدۂ ہند‘‘ بھارتی ہندو ذہنیت کی بہترین عکاس ہیں۔ یہ دونوں کتابیں پاکستانی نوجوان نسل کو ضرور پڑھنی چاہئیں۔ بیگم صاحب نے ’’جس دیس میں گنگا بہتی ہے‘‘ میں لکھا ہے کہ تقسیمِ ہند کے بعد ’’سیکولر‘‘ پنڈت نہرو نے دنیا کے مختلف ممالک سے ضروری معلومات اکٹھی کرنے کے لیے لاتعداد سیل قائم کیے۔ ان میں سے سپینش سیل کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ اسی سیل کے تحت ایک وفد بھی اسپین بھیجا گیا تاکہ وہ معلوم کرے کہ اسپین سے مسلمانوں کا صفایا کیسے کیا گیا اور وہاں سے حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں ہی ’’ہندو مسلم فسادات‘‘ کے نام پر بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام کی پالیسی وضع کی گئی۔
نہرو کا نواسہ اور اندرا گاندھی کا دوسرا بیٹا سنجے گاندھی تو مسلم دشمنی میں اس قدر اندھا ہو چکا تھا کہ اس نے بھارت میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے لیے مسلمان مردوں کی جبراً نس بندی کرانی شروع کردی اور صرف ایک سال میں ایک لاکھ سے زائد غریب مسلمان نوجوانوں کی جبراً نس بندی کرائی تھی… جی ہاں! سیکولرانڈیاکا اصل سیاہ ترین چہرہ یہی ہے۔
23 جون 1980ء کی صبح جب وہ ایک فضائی حادثے میں مرا توغریب ہندو بھی یہ کہتے پائے گئے کہ اچھا ہی ہوا کہ وہ راکھشس جلدی ہی نرک کو سدھار گیا۔ زندہ رہتا تو نجانے کیا کچھ کرتا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نا صرف بھارت کے اندر دیگر اقوام کو انتہا پسند ہندو کی دہشت گردی کا سامنا ہے، بلکہ بھارت دہشت گردی برآمد کرنے میں بھی خود کفیل ہے۔ نائن الیون کے بعد افغانستان میں کھولے گئے اٹھارہ بھارتی قونصلیٹ عملاً دہشت گردی کے اڈے بنے رہے، جہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کرائی جاتی تھی۔ ہمارے ’’برادر ملک‘‘ ایران کے تعاون سے بھارتی قومی سلامتی مشیر اجیت دوول کا سگا بھانجا کل بھوشن یادو بلوچستان اور کراچی میں جو گل کھلاتا رہا، ان کی گونج عالمی عدالت انصاف تک میں سنائی دے رہی ہے۔ جی ہاں! اگر کل بھوشن کی جگہ ’’را‘‘ کا کوئی اور کن ٹُٹا جاسوس ہوتا تو دلی سرکار اسے پہچاننے سے بھی انکار کردیتی، لیکن یہاں چونکہ پاکستانی سیکورٹی اداروں نے اجیت دوول کی بہن کے کلیجے کو ہاتھ ڈال رکھا ہے، اس لیے بھارت اس کیس کو عالمی عدالت انصاف تک لے کر گیا ہے۔
اجیت دوول کے داعش کے ساتھ تعلقات بھی کوئی سربستہ راز نہیں ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے برطانوی میڈیا نے انکشاف کیا تھا کہ اجیت دوول نے شام و عراق میں داعش کے لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ انہیں افغانستان لانے کا بھی انتظام کیا۔ بھارت کی سات بڑی اسلحہ ساز کمپنیاں داعش کو اسلحہ و بارود سپلائی کرتی ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اس وقت پورے جنوبی ایشیا کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو تشدد کو فروغ دے، وہ خود بھی تشدد کا نشانہ بنتا ہے۔ یہ بات دہشت گردوں کی ماں ریاست بھارت پر صادق آتی ہے، جہاں صرف مظلوم کشمیری ہی آزادی نہیں مانگ رہے، بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں علیحدگی کی 36 تحریکیں اس وقت بھی چل رہی ہیں، جب کہ Seven Sister States میں تو گزشتہ کئی برسوں سے بھارتی ترنگا لہرانے پر بھی پابندی ہے۔
جہاں تک پلوامہ حملے کا تعلق ہے، یہ بھی اب کوئی راز نہیں رہا کہ اس حملے کی سازش کے ڈانڈے بھی مودی سرکار کے پالیسی سازوں سے جا کر ملتے ہیں۔ اس سلسلے میں لیفٹیننٹ جنرل (ر)Deependra Singh Hooda کی گواہی موجود ہے۔ وہ بھارتی شمالی کمان کے کمانڈر رہ چکے ہیں۔ ان کے اسی دور میں ستمبر 2016ء میں بھارت نے پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ رچایا۔ جنرل (ر) ڈی ایس ہوڈا نے چند روز پہلے ایک انٹرویو میں کہا کہ پلوامہ حملے میں بھارت کا ہی بارود استعمال کیا گیا۔ حملے میں استعمال کیا گیا ساڑھے سات سو پائونڈ بارود پاکستان سے لایا جانا ممکن نہ تھا۔
1947ء سے لمحہ موجود تک پوری بھارتی تاریخ دہشت گردی،انتہا پسندی اور انسانیت دشمنی سے عبارت ہے۔ اس سلسلے میں خاص طور پر پاکستان کو ہر دور میں کوئی نہ کوئی نقصان پہنچانے کی سازش کی گئی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کا یہ سیاہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے اور اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی فورمز اور دنیا بھر کی مہذب اقوام کے سامنے یہ سوال رکھا جائے کہ وہ وقت کب آئے گا، جب بھارت کو دہشت گرد ریاست قرار دیا جائے گا۔
٭
٭٭٭٭٭