منافقت ترک کرنا ہوگی

مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی سیکورٹی فورسز پر مشکوک حملے کے بعد پڑوسی ملک نے الزام پاکستان پر دھر کر جنگی جنون کی جو فضا قائم کی ہے، اس پر پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے نہایت تحمل کے ساتھ جواب دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نہ جنگ چاہتا ہے اور نہ اس کی تیاری کر رہا ہے۔ تاہم اگر جارحیت ہوئی تو حیران کن جواب دیا جائے گا۔ دوسری جانب امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کے سیٹلائٹس نے لاہور اور سیالکوٹ سیکٹر میں بھارتی فوج کی نقل و حرکت کی تصویریں اپنے اپنے ممالک کو بھیج دی ہیں۔ جس سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بھارت جنگی تیاریوں میں مصروف ہے۔ بھارتی جنونی رہنمائوں اور میڈیا نے پورے ملک کو جنگی جنون میں مبتلا کر رکھا ہے۔ تاہم یہ بات بھارتی حکام اور فوجی قیادت اچھی جانتی ہے کہ پاکستان کے خلاف کوئی بھی جارحیت بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ ہم معاشی طور پر کمزور سہی، لیکن افواج پاکستان پوری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہیں۔ جس کا اظہار فوجی ترجمان کے مذکورہ بیان سے بھی ہوتا ہے۔ جنگی جنون اور مسلمانوں کے خلاف فضا کو ہموار کرنا بھارتی سیاست کی پرانی روایت ہے۔ نریندر مودی پاکستان کے خلاف عوام کے جذبات بھڑکا کر آنے والے الیکشن میں کامیابی حاصل کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ پاکستان پر حملہ خود ان کیلئے سیاسی موت بن سکتا ہے۔ اس لئے دفاعی ماہرین انڈیا کی جانب سے کسی فوری حملے کے امکان کو خارج ازمکان قرار دیتے ہیں۔ تاہم الیکشن تک جنونی فضا قائم اور ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں پر حملوں کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ جس کا سب سے زیادہ نشانہ بھارت میں مقیم اور وہاں کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے کشمیری طلبہ بن رہے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے پڑوسی ملک میں صرف مسلمان ہی غیر محفوظ نہیں، وہاں ہندو اکثریت کے علاوہ تمام اقلیتوں کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے۔ انیس سو چوراسی میں سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر حملہ کرکے درجنوں سکھوں کا قتل عام کیا گیا اور ملوث مجرم اب بھی دندناتے پھر رہے ہیں۔ ریاست آسام میں اٹھارہ فروری اُنیس سو تراسی کو بھارتی تاریخ کا بدترین قتل عام ہوا تھا۔ اس وقت بھی بوڈو تحریک کے ہاتھوں تقریباً چھبیس سو افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ یہ بھارت ہی کا طرئہ امتیاز ہے کہ اتنے افراد کے قتل عام کی ذمہ دار تحریک نے بعد میں انیس سو پچاسی میں ہونے والے انتخابات میں اقتدار بھی حاصل کیا۔ پھر دو ہزار بارہ میں آسام میں بوڈو قبائل اور مسلمانوں کے درمیان خوں ریز تصادم ہوا تھا، جس میں سو سے زیادہ افراد مارے گئے تھے اور لاکھوں بے گھر ہوئے تھے۔ ہندو جنونی کبھی احمد آباد میں مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں تو کبھی گجرات میں فسادات کی آگ بھڑکائی جاتی ہے۔گجرات میں ہونے والے دو ہزار دو کے فسادات میں نریندر مودی وہاں کے وزیر اعلیٰ تھے۔ جنہیں ان فسادات کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا جاتا ہے۔ اب وہ اس ملک کے وزیر اعظم ہیں، جبکہ ان فسادات میں مودی کے دست راست کا کردار ادا کرنے والے سابق وزیر اعلیٰ مایا کوڈنانی کو بھی گجرات کی ہائی کورٹ باعزت بری کر چکی ہے۔ امریکن اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں دو ہزار چودہ سال کے دوران اقلیتوں کے خلاف مذہبی بنیادوں پر تشدد کے آٹھ سو واقعات رونما ہوئے۔ جبکہ حکومت ایسے واقعات کی روک تھام میں ناکام نظر آئی۔ بھارت میں تو فوج کے حاضر سروس افسران بھی مسلمانوں پر حملوں کی نہ صرف سرپرستی کرتے ہیں، بلکہ اس مقصد کیلئے انہیں سرکاری ڈپو سے بارودی مواد بھی میسر آتا ہے، پھر تمام ثبوت موجود ہونے کے باوجود ایسے مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ گائے کے تحفظ کے نام پر درجنوں مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ متعصب ہندو نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد انتہا پسندوں کی دلی مراد بر آئی ہے۔ وہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو گھر واپسی کے نام سے ہندو بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ آئے روز اقلیتوں کے مذہبی مقامات پر حملے اور ان کی کتابوں کی بے حرمتی کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ نریندر مودی کی سربراہی میں بھارت کو سیکولر ملک کے بجائے ایک کٹر ہندو ریاست بنانے کی جانب پیش قدمی جاری ہے۔ تشدد کی اس صورتحال پر باشعور بھارتی باشندے بھی پریشان ہیں، بلکہ چالیس سے زائد ادیب احتجاجاً اپنے سرکاری اعزازات بھی واپس کرچکے ہیں۔ اکیسویں صدی میں رہنے والے بھارتیوں کو خود بھی اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے۔ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں اکثریت کے ساتھ اقلیت بھی امن و سکون کے ساتھ رہتے ہیں۔ عقیدے کے اختلاف کی وجہ سے کسی انسان کا خون بہانے کی دنیا کا کوئی مذہب اور قانون اجازت نہیں دیتا۔ پھر کشمیر میں ہونے والے ایک مشکوک حملے کا بدلہ بے گناہ مسلمانوں سے لینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ ویسے بھی بھارت میں سو سے زائد آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ اگر بھارت نے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ ترک نہیں کیا اور انہیں انتہا پسندوں کے ہاتھوں جینے کے حق سے محروم کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو بھارت کا نقشہ بدلنے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ بھارتی انتہا پسند جو کچھ کر رہے ہیں، وہ ان کی فطرت اور خمیر کا حصہ ہے۔ وہ ہر میدان میں پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے ہمیں بھی سبق حاصل کرنا چاہئے۔ ہمارا دین ہمیں اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کی تعلیم دیتا ہے۔ اس لئے بھارتی جنونیوں کے ہاتھوں وہاں کے مسلمانوں کے قتل عام کے باجود پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف کبھی کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ بھارت ہماری ٹیم کے ساتھ بھی کرکٹ میچ کھیلنے پر آمادہ نہیں۔ مگر ہمارے یہاں ثقافت کے نام پر اس کی لچر و حیا سوز فلمیں اور ڈرامے دکھائے جاتے ہیں۔ مذہبی طور پر نہ سہی، کم ازکم قومی و ملی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انڈین فلموں اور ڈراموں پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہئے۔ جبکہ عوام کو بھی چاہئے کہ وہ از خود ان کا بائیکاٹ کریں۔ ایک طرف ہم انڈیا کو اپنا ازلی دشمن کہتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے یہاں شادی بیاہ ہو یا کوئی اور تقریب، انڈین گانوں کا شور بلند ہوتا رہتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ میڈیا کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ بالی وڈ سے متعلق خبریں چلانے سے گریز کرے۔ جبکہ ان درجنوں ایف ایم ریڈیو چینلز کو بھی کسی ضابطہ اخلاق کا پابند بنانا چاہئے، جو رات دن، مقدس ایام کی تمیز کئے بنا انڈین گانے چلاتے ہیں۔ یہ بدترین منافقت ہے کہ ایک طرف انڈیا کو دشمن کہا جائے اور دوسری طرف اس کی فلموں اور گانوں کی کھلے عام اجازت ہو اور اس کی حیا باختہ ثقافت کو قبول کیا جائے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment