عباس ثاقب
ہم جب امرتسر شہر میں داخل ہوئے تو میں نے اندازہ لگایا کہ ٹریکٹر اس راستے پر نہیں جارہا جو ہرمندر صاحب کی طرف جاتا ہے۔ لیکن میں نے سکھبیر سے وجہ پوچھنا غیر ضروری سمجھا۔ بالآخر ہم ایسی سڑک پر پہنچ گئے جس پر ٹریفک کا خاصا ہجوم تھا۔ جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ ہم اس وقت امرتسر ریلوے اسٹیشن کے آس پاس موجود ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد سکھبیر نے ایک قدرے الگ تھلگ جگہ ٹریکٹر روکا تو میرے اندازے کی تصدیق ہوگئی۔ سڑک کے دوسری طرف لگ بھگ سو گز آگے ریلوے اسٹیشن کا مرکزی دروازہ نظر آرہا تھا۔
سکھبیر نے ٹریکٹر کا انجن بندکرتے ہوئے کہا۔ ’’لو جی، ہم اپنے امرتسر پہنچ گئے۔ اب ہمیں کوئی خطرہ نہیں‘‘۔
میں نے ہلکے پھلکے لہجے میں کہا۔ ’’یہاں ہرمندر صاحب کی کوئی برانچ کھول رکھی ہے تم نے سکھیر بھائی‘‘۔
میری بات سن کر وہ ہنسا۔ ’’یونہی سمجھ لو ذاکر بھائیا کہ پورا امرتسر ہی ہرمندر صاحب ہے اور ہر خالصہ سکھبیر ہے۔ ہندوستان سے آزادی حاصل کرنے کی جنگ یہیں سے لڑی جائے گی اور واہگرو نے چاہا تو امرتسر ہی خالصتان کا صدر مقام ہوگا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ان شاء اللہ ضرور!‘‘۔
وہ آس پاس کی صورتِ حال کا جائزہ لے کر مطمئن ہونے کے بعد ٹرالی میں چڑھا اور بندوقوں والا بنڈل کھینچ کر نیچے لے آیا۔ ہم نے ٹرالی کی آڑ میں اس بنڈل کو ایک چادر میں اچھی طرح لپیٹا اور پھر سکھبیر مجھے وہیں انتظار کرنے کا کہہ کر ریلوے اسٹیشن کی طرف چلا گیا۔ کچھ دیر بعد ایک آٹو رکشا میرے پاس آکر رکا اور اس میں سے سکھبیر اتر کر میرے پاس آیا۔ اس نے شاید جان بوجھ کر دروازوں والے آٹو کا انتخاب کیا تھا۔ ہم دونوں نے ٹرالی کے پیچھے پوشیدہ بنڈل کو مل کر سواری میں رکھا اور خود بھی سوار ہوگئے۔ سکھبیر نے آٹو ڈرائیور کو کہا۔ ’’چل میرے ویر، فٹا فٹ واہگرو کے ڈیرے لے چل اپنے بھائیوں کو‘‘۔
آٹو ڈرائیور بیس بائیس سال کا سکھ جوان تھا جس نے خود کو گرم چادر میں لپیٹ رکھا تھا۔ اس نے سکھبیر کی فرمائش سنتے ہی گیئر لگایا اور آٹو امرتسر کی سڑکوں پر دوڑنے لگا۔ لگ بھگ بالکل نیا ہونے کی وجہ سے انجن کا شور بہت کم تھا۔ لیکن میں نے جان بوجھ کر سکھبیر سے کوئی حساس بات چھیڑنے کی کوشش نہیں کی۔ کچھ ہی دیر بعد ہم ہرمندر صاحب کے اکال تخت والے بڑے پھاٹک کے پاس پہنچ گئے۔ سکھبیر کی ہدایت کے مطابق آٹو تبرک اور پھول فروخت کرنے والی ایک دکان کے پاس رک گیا۔
پہلے سکھبیر آٹو سے اترا اور کرایہ دینے لگا۔ لیکن اس پر نظر پڑتے ہی دکان کے اندر سے پچاس پچپن سال کا بھاری مونچھوں اور داڑھی والا، ہٹا کٹا سردار باہر نکلا اور سکھبیر سے نہایت گرم جوشی سے گلے ملا۔ اس نے آٹو والے کو بھی ڈپٹ کر سکھبیر سے کرایہ لینے سے منع کر دیا تھا۔ اس دوران میں بھی نیچے اتر آیا تھا اور بنڈل کو کھینچ کر آٹو سے نکال رہا تھا۔ لیکن سردار صورتِ حال بھانپتے ہوئے خود آگے بڑھا اور مجھ سے پہلے خود ایک جھٹکے سے بنڈل نکالا اور کسی ہلکے پھلکے کھلونے کی طرح بغل میں داب کر دکان میں لے گیا۔ اس نے ہمیں اپنے پیچھے آنے کا اشارہ بھی کیا تھا۔
سکھبیر نے کہا۔ ’’یہ منندر بھٹی ہیں۔ ہماری جنگ میں حصے دار بہت ہی جی دار بھائی‘‘۔
منندر بھٹی کی دکان تو زیادہ بڑی نہیں تھی۔ تاہم اس کے عقب میں ایک کشادہ کمرہ موجود تھا۔ جسے پھول اور دیگر اشیا رکھنے کے علاوہ خواب گاہ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ سامنے ایک تخت اور تین مونڈھے بچھے ہوئے تھے۔ منندر نے ہمیں بیٹھنے کی دعوت دی اور دکان کے تھڑے پر بیٹھے دو لڑکوں میں سے ایک کو چائے لانے کا حکم دیا۔
سکھبیر نے سلام دعاکرنے کے بعد منندر بھٹی سے پوچھا۔ ’’چاچا جی، کوئی مشکوک بندہ تو نہیں پچھلے آٹھ دس دن میں؟‘‘۔
منندر بھٹی نے اس کی بات سن کر ایک نظر مجھے دیکھا اور پھر کہا۔ ’’نہیں سکھبیر پتر۔ بس وہی دو چٹے کپڑوں والے سنتری باری باری صبح اور شام کو ایک ایک چکر لگاکر ڈیوٹی پوری کر کے چلے جاتے ہیں۔ کوئی نیا مخبر تو ابھی نظر میں نہیں آیا‘‘۔
سکھبیر نے اس کی بات سن کر مطمئن ہونے کے بجائے فکرمند لہجے میں کہا۔ ’’چاچا ہمیں اصل خطرہ دلّی کے بھیجے ہوئے خفیہ پولیس والوں سے ہے۔ وہ بندے بدلتے رہتے ہیں۔ جو سب کے سب ہماری قوم کے ہوتے ہیں۔ وہ یاتری کے روپ میں ہر ہفتہ پندرہ دن میں بس اڈے یا ریل کے اسٹیشن سے سیدھے ہرمندر صاحب آتے ہیں اور پورا دن جاسوسی کرنے کے بعد واپس چلے جاتے ہیں‘‘۔
میں اس کی بات سن کر چونکا۔ ’’اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو تمہارے مشن کی سن گن مل چکی ہے؟‘‘۔
سکھبیر نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’وہ جانتے تو ہیں لیکن انہیں یہ نہیں پتا کہ ہم عملی طور پر جدوجہد کے لیے کس حد تک تیار ہیں۔ ہماری طاقت کتنی ہے۔ اصل میں ماسٹر (تارہ سنگھ) اپنی چوہدراہٹ جتانے کے لیے کئی بار پنڈت نہرو کو خالصتان بنانے کے لیے ہتھیار بند جنگ کی کھوکھلی دھمکی دے چکا ہے۔ جس کی وجہ سے سرکار بہت پہلے سے ہرمندرصاحب، خاص طور پر اکال تخت میں ہونے والی سرگرمیوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے‘‘۔
منندر بھٹی نے اسے یقین دلایا کہ وہ اب زیادہ توجہ سے ایسے جاسوسوں پر نظر رکھے گا اور باقی ساتھیوں کو بھی خبردار کر دے گا۔ ہم نے بندوقوں کے بنڈل کو کھول کر پستول اور ریوالور نکال کر قبضے میں کیے اور باقی ہتھیاروں کو وہیں چھوڑ کر ہرمندر صاحب کی طرف چل پڑے۔ میں نے راستے میں تشویش بھرے لہجے میں کہا۔ ’’یار سکھبیر۔ پھر تو خفیہ پولیس والے لوگ ہم کشمیریوں کی ہرمندر صاحب میں آمد پر بھی چونک جائیں گے!‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭