موجودہ عالمی تناظر میں امریکا اگرچہ واحد سپر پاور نہیں رہا۔ لیکن مختلف ممالک اور بین الاقوامی سیاست و معیشت میں اس کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کے کئی ممالک آج بھی امریکا کے ذہنی غلام نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے اندرونی معاملات میں بھی فیصلوں کے وقت پہلے امریکا کی جانب دیکھتے ہیں۔ امریکی معیشت خود چین کے قرضوں پر انحصار کرتی ہے۔ جو بلاشبہ اس دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی قوت ہے۔ اس کا سستا اور معیاری مال عالمی منڈیوں میں ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ ان حقائق کے باوجود آئی ایم ایف جیسے کئی عالمی مالیاتی ادارے امریکا کے کنٹرول میں ہیں۔ کئی پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان بھی آئی ایم ایف کا بری طرح مقروض ہے اور مزید قرضے کے لئے پاکستان کے اس سے مذاکرات چل رہے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کا جو قرضہ حاصل ہوگا۔ اس کے پیچھے امریکی انتظامیہ کی شرائط بھی ہوں گی۔ تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ خطے کی موجودہ صورتحال میں پاکستان کا کردار پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ ان کالموں میں اس کے بعض اسباب کئی مرتبہ پیش کئے جا چکے ہیں۔ مثلاً پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن۔ اس کی مصروف بندرگاہیں اور ہوائی اڈے۔ اردگرد کے ممالک سے خوشگوار تعلقات۔ اندرونی طور پر امن و امان کا قیام اور دہشت گردی کا خاتمہ۔ مسلمان ملکوں سے قریبی روابط اور دنیا کا واحد مسلم ایٹمی ملک ہونا۔ عالمی طور پر تسلیم کردہ مضبوط، نہایت باصلاحیت اور تجربہ کار فوج اور ذہین و محنتی افرادی قوت۔ قدرتی و معدنی ذخائر سے مالا مال پاکستان کو اگر مخلص اور دیانتدار سیاسی قوت میسر آجائے تو اس کی قدر و قیمت میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ بعض کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود امریکا سمیت اکثر بڑی طاقتیں عالمی سیاست میں پاکستان کی اہمیت اور کردار کو تسلیم کرتی ہیں۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ برسر اقتدار آئے تو ابتدا میں انہوں نے اپنی پاکستان اور مسلم دشمنی کا کھل کر اظہار کیا۔ لیکن انہیں جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ اپنے ملک میں تو وہ غیر مقبول ہیں ہی۔ امریکی بینکوں میں موجود عرب اور مسلمان ملکوں کی دولت ان کے ملک کی معیشت کا بہت بڑا سہارا ہے۔ لہٰذا وہ ان کی ناراضی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ ادھر مسلم دنیا کے اہم ترین ملک پاکستان کی امریکا کو افغانستان سے اپنی فوج کے انخلا کی صورت میں مزید ضرورت پڑے گی۔ اس لئے فی الوقت اسے ناراض کرنا بھی درست نہیں ہے۔ اس پورے پس منظر پر غور کریں تو پاکستان کے خلاف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی گیدڑ بھبکیاں ان کے جنگی جنون سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ ان پر اس قسم کے دورے اکثر بھارت کے عام انتخابات کے زمانے میں پڑتے رہتے ہیں۔ پھر جب اپنے ملک اور دنیا بھر سے لعن طعن بڑھنے لگے تو انتہا پسندی کا یہ بخار خود ہی اترنے لگتا ہے۔ بھارت کے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ مفکرین اور دانشوروں نے اپنے حکومت پر واضح کر دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار پاکستان نہیں بھارت ہے۔ اور اس کو جنگ کے میدان میں شکست دینے کا تصور انتہائی احمقانہ ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کو پانی بند کرنے کی دھمکیاں ناقابل عمل ہیں۔ اس لئے کہ کشمیر کے پہاڑوں سے بہہ کر نیچے آنے والے دریائوں کا پانی روکنا تکنیکی طور پر ممکن نہیں ہے۔
سوویت یونین کے بعد گزشتہ ادوار میں امریکا بھارت کا سب سے بڑا مربی و سرپرست بنا رہا۔ اس کا خیال تھا کہ بھارت کو افغانستان میں بٹھاکر وہ پاکستان پر دبائو ڈالنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ لیکن اب جبکہ اسے وہاں سے خود اپنا بوریا بستر گول کرنے کے لئے پاکستان کے تعاون کی مجبوری لاحق ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ امریکی فوجیوں کی واپسی کے بعد طالبان کی حکومت قائم ہوگئی تو اس کے بھارت سے بہتر تعلقات نہیں رہ سکتے۔ چنانچہ نریندر مودی کی طرح امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا لب و لہجہ بھی تبدیل ہونے لگا ہے۔ مودی سرکار پاکستان کو جنگ کی کھلی دھمکیاں دینے کے بعد اب کہہ رہی ہے کہ پلوامہ حملے کا سفارتی و تجارتی جواب دیں گے۔ انسانیت کے دشمنوں کو سفارتی سطح پر تنہا کرنا اور سبق سکھانا لازم ہے۔ دنیا کے زیادہ تر ممالک ہمارے ساتھ ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اول تو پلوامہ حملے کا بھارت نے کوئی ثبوت دیا ہے نہ دنیا نے اس میں پاکستان کو ذمہ دار تسلیم کیا ہے۔ دوم پاکستان کو تجارتی جواب دینے کا مطلب خود اپنے ملک کا نقصان کرنا ہے۔ کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان درآمد و برآمد کے فرق کی وجہ سے زر مبادلہ کا توازن بھارت کے حق میں بہت زیادہ ہے۔ سفارتی سطح پر بھارت پہلے ہی ناکامی سے دو چار ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک بھارت کے ساتھ نہیں بلکہ اصولی، اخلاقی اور قانونی طور پر پاکستان کی حمایت کرتے ہیں ۔ پاکستان نے انسانیت کے دشمنوں کی صرف زبانی مذمت نہیں کی۔ بلکہ اپنے ملک سے دہشت گردں کا خاتمہ کر کے اس کا عملی ثبوت دیا ہے۔ بھارت اگر فی الواقع انسانیت کے دشمنوں کو سبق سکھانے میں مخلص ہے تو وہ پاکستان کی تقلید اور اس کے ساتھ تعاون کرے۔ امریکی ڈونالڈ ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان صورتحال کو انتہائی خراب قرار دیتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ یہ کشیدگی ختم ہونی چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ اس ضمن میں دونوں ممالک سے رابطے میں ہے۔ امریکی صدر نے تسلیم کیا کہ پاکستان کے امریکا سے تعلقات انتہائی کم وقت میں بہت بہتر ہوئے ہیں۔ انہوں نے جلد ہی پاکستانی حکام سے ملاقات کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہاں بہت سے لوگ مارے گئے۔ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اموات کا یہ سلسلہ رکے اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا خاتمہ ہو۔ امریکی انتظامیہ اگر پاک و بھارت کشیدگی کا ریکارڈ اٹھاکر دیکھے تو اسے خود اندازہ ہوجائے گا کہ اس کا ذمہ دار بھارت ہے۔ مسئلہ کشمیر کو بنیاد بناکر اس نے پاکستان کے ساتھ ہمیشہ کشیدگی برقرار رکھی۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے مسلمانوں پر اپنے سات آٹھ لاکھ فوجی چھوڑ کر بدترین مظالم کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔ امریکا نے اس مسئلے کو حل کرانے میں ستّر برسوں کے دوران کوئی مثبت کردار ادا نہیںکیا۔ اس وقت بھی جب وہ دنیا کی پہلی سپر پاور تھا۔ اور اس وقت بھی جب سوویت یونین کی افغانستان میں ذلت آمیز شکست کے بعد یہ یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی اور امریکا خود کو آج تک دنیا کی واحد سپر پاور کہتا ہے۔ اس دعوے کے سچ اور جھوٹ ہونے سے قطع نظر یہ حقیقت فراموش نہیں کی جاسکتی کہ امریکا کے دنیا کے بہت سے ممالک پر آج بھی بہت اثرات ہیں۔ وہ چاہے تو موجودہ صورتحال میں مسئلہ کشمیر حل کرانے کی کوششوں میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ لیکن خدانخواستہ جنگ چھڑگئی تو اس کے ہولناک اثرات سے امریکا سمیت کوئی بھی ملک نہیں بچے گا۔
٭٭٭٭٭