جابہ کا علاقہ میڈیا نمائندوں کا مرکز بنا رہی

محمد زبیر خان
بھارتی طیارے مار گرانے پر جہاں پوری پاکستانی قوم شاداں و فرحاں ہے، وہیں مانسہرہ کے علاقے جابہ اور کشمیر میں بھی ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ فضا نعرہ تکبیر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجتی رہی۔ ان علاقوں کے شہریوںکا کہنا تھا کہ آئندہ بھارت کو پاکستان کی جانب میلی نظر سے دیکھنے کی جرأت نہیں ہوگی۔ مانسہرہ میں جابہ کا علاقہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کا مرکز رہا، جہاں صحافی حضرات جیش محمد کا کیمپ تلاش کرتے رہے، مگر انہیں صرف مرا ہوا کوا، پندرہ گرے ہوئے چیڑ کے درخت اور بموں سے پڑنے والے چار گڑھے ہی دکھائی دیئے۔
گزشتہ روز (بدھ کو) جب صبح دس بجے سے یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ پاکستانی جانبازوں نے بھارت کے دو طیارے مار گرائے ہیں تو مانسہرہ کے علاقے جابہ میں فضا ’نعرہ تکبیر اللہ اکبر‘ اور ’پاکستان زندہ باد‘، ’پاکستان پائندہ باد‘ کے نعروں سے گونج اٹھی۔ اس موقع پر جابہ کے رہائشی انتہائی خوش دکھائے دیئے اور پاک فوج کے حق میں نعرے لگائے گئے۔ اس موقع پر بھارتی ایئر اسٹرائیک سے زخمی ہونے والے روان شاہ، جن کا گھر بم گرائے جانے والے علاقے سے تیس میٹر کے فاصلے پر تھا، نے ’’امت‘‘ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ… ’’اس وقت میں نے کلمہ پڑھ لیا تھا اور اپنی شہادت کے لئے تیار تھا۔ جب میں نے جہازوں کی آوازیں سنیں تو گھر سے فوراً باہر نکلا۔ اس وقت اندھیرا تھا۔ ابھی باہر ہی نکلا تھا کہ پہلا دھماکہ ہوا اور پھر اس کے بعد میرا خیال ہے کہ دو منٹ سے بھی کم وقفے کے دوران چار دھماکے ہوئے۔ بم کے پارچے میرے کچے گھر پر جا کر لگے، جس سے گھر کے دروازے اور کھڑکیاں ہل کر رہ گئیں اور گھر کو بھی نقصاں پہنچا۔ خود میرے سر پر بھی کچھ لگا۔ میرا خیال ہے کہ سر پر کوئی پتھر لگا تھا۔ اس کے بعد میں گھر کے اندر دوڑ کر گیا اور وہاں ہم لوگ ایک جگہ جمع ہوکر بیٹھ گئے۔ بعد میں بھی جہازوں کی آوازیں آتی رہیں۔ پھر ہم گھر سے اس وقت باہر نکلے جب سیکورٹی اہلکار موقع پر پہنچ گئے‘‘۔ ایک سوال پر روان شاہ کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں موت سے ڈر نہیں لگتا، کیونکہ موت تو آنی ہی ہے۔ مگر جب یہ پتا چلا کہ بھارتی طیارے تھے تو بہت دکھ ہوا۔ مجھے دکھ اس بات کا تھا کہ میرے پاس کوئی بندوق وغیرہ کیوں نہیں تھی کہ میں بھارتی طیاروں پر فائر کرتا۔ اب جب سے یہ سنا ہے کہ پاکستان نے دو بھارتی طیارے مار گرائے ہیں اور ایک پائیلٹ کو زندہ پکڑ لیا ہے تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ میں اتنا خوش ہوں کہ بتا نہیں سکتا‘‘۔ روان شاہ کے ساتھ موجود مشاہد، کامران اور دیگر مکینوں نے ’’امت‘‘ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’بھارتی حملے کے بعد ہمارے گھروں میں غم و غصے کا عالم تھا۔ مگر جب سے بھارتی طیارے مار گرائے گئے ہیں، اس وقت سے صورت حال یہ ہے کہ ہماری خوشی کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بدلہ لے لیا گیا ہے‘‘۔
جابہ کے علاقے کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر محمد صدیق نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بھارتی ایئر اسٹرائیک سے پندرہ درخت گرے ہیں، جبکہ دو چار کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ ان درختوں کا ریکارڈ مرتب کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چیڑ کا ایک درخت پچاس ساٹھ سال کے بعد جوان ہوتا ہے۔ جبکہ اس علاقے میں اکثر درختوں کی عمر تیس سال کے لگ بھگ ہے۔ اس عمر کے صحت مند اور توانا درخت کی قیمت تیس سے پینتیس ہزار روپے ہو سکتی ہے۔
گزشتہ روز جابہ کا علاقہ ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بھی بنا رہا۔ صبح ہی سے میڈیا کے نمائندے دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے کنگڑا کے گاؤں پہنچتے رہے۔ جہاں پر سیکورٹی فورسز کے اہلکار بڑی تعداد میں موجود تھے۔ سیکورٹی فورسز کی جانب سے ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں کو تمام سہولتیں فراہم کی جارہی تھیں۔ اس موقع پر ملکی، بالخصوص غیر ملکی صحافی جیش محمد کا کیمپ بھی تلاش کرتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ گھنے جنگلات کے اندر تک پہنچ گئے۔ مقامی لوگوں سے بھی کیمپ کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ لیکن ان صحافیوں کو گرے ہوئے درخت، مرا ہوا ایک کوا اور چار گڑھے ہی دکھائی دیئے۔ صحافی ایک دوسرے سے پوچھتے رہے کہ یہاں پر کیمپ کس مقام پر ہے اور اگر تھا بھی تو اس کا کوئی نشان ہونا چاہیے۔ اگر بھارتی دعوے کے مطابق تین سو سے زائد لوگ مارے گئے ہیں تو پھر کئی زخمی بھی ہوں گے۔ ان کی کوئی نشانی، کوئی خون کا دھبہ، کچھ تو موجود ہونا چاہیے تھا۔
دوسری جانب کشمیر بھر میں بھی بھارتی طیارے مار گرائے جانے کے بعد ریلیاں اور جلوس نکالے گئے اور بے انتہا خوشی اور جوش کا اظہار کیا گیا۔ فضا نعرہ تکبیر اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجتی رہی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment