سوشل میڈیا پر آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہونے والے ایک مشاعرے میں پڑھا گیا یہ شعر زبردست پذیرائی حاصل کر رہا ہے:
سرحدوں پر بہت تنائو ہے کیا
کچھ پتہ تو کرو چنائو ہے کیا
ہر طرف ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اور خراب سرحدی صورتحال کا چرچا ہے۔ پلوامہ واقعہ، کل بھوشن یادیو کیس، بھارتی دراندازی، انڈین طیاروں کی ٹھکائی اور پاکستان اور عرب ورلڈ کی قربت میڈیا پر چھائی ہوئی ہے۔ اصل گیم یہ ہے کہ ہندوستان میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ حال ہی میں بھارتی جنتا پارٹی کو ریاستی یعنی صوبائی الیکشن میں پانچ جگہ عبرت ناک شکست ہوئی ہے۔ نریندرا مودی سے مرکز میں انتخابی معرکہ سنبھلتا نظر نہیں آرہا۔ ان کے پاس کوئی پروگرام ہے نہیں۔ وہ عوام کی حمایت کھوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن ہے ہی نہیں، سوائے اس کے کہ وہ اینٹی پاکستان جذبات کو بھڑکائیں اور ووٹ سمیٹنے کی کوشش کریں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی وادی ہندوستان کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے۔ جذبہ آزادی، شوق شہادت اور پاکستان سے الحاق کا جنون اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ موت کا خوف اور قیدو بند کی صعوبتیں اب کشمیریوں کے لئے بے معنی ہو چکی ہیں۔ کشمیر کے خون آشام مسئلے کا حل سات لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی اور ظلم و ستم نہیں ہے۔ اس کا صرف ایک حل ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دے کر اقوام عالم کی نگرانی میں استصواب رائے کے ذریعے تمام کشمیریوں سے پوچھا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا ہندوستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ اس سیدھے سادھے فارمولے کو ہندوستان اپنانے کو تیار نہیں ہے۔ ہندوستان کی راج نیتی کا شیطانی کھیل کشمیر کے گرد کھیلا جا رہا ہے۔ ہر مرتبہ ہندوستان میں الیکشن کے موقع پر کشمیر کے مدّے پر خوان بھارتی سیاست دان جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کرتے ہیں … اور کشمیر کے خونریز الائو پر سیاست کی روٹیاں سینکتے ہیں۔ اس مرتبہ مودی سرکار جنگ شروع کردینے کی دھمکیوں پر اتر آئی ہے۔ بھارتی میڈیا پر بلڈپریشر بلند ہوتا جا رہا ہے اور کھلم کھلا یہ کہا جا رہا ہے کہ بھارت کسی وارننگ کے بغیر اچانک پاکستان پر حملے کردے گا۔ انیس سو پینسٹھ میں بھی وہ یہ تجربہ کرچکا ہے۔ اسے منہ کی کھانی پڑی تھی۔ صرف سترہ دنوں کی لڑائی میں ہندوستان کے ہاتھ پائوں پھول گئے تھے اور بھارتی وزیر اعظم آنجہانی لال بہادر شاستری جنگ بندی کے معاہدے پر روس کے شہر تاشقند میں دستخط کرتے ہی مارے جوش کے دنیا سے سدھار گئے تھے۔ انڈین آرمی، نیوی اور ایئر فورس کا بھرکس نکل گیا تھا۔ اگر چند دن اور معرکہ ستمبر مزید جاری رہتا تو ہندوستان پر سبز ہلالی پرچم لہرا دیا گیا ہوتا۔ اس جہاد میں پاکستان کی بہادر افواج اور پاکستانی قوم نے ایسے ایسے سنہری کارنامے سر انجام دیئے کہ عقل دنگ رہ گئی۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
جہاد ستمبر کے وقت میں پانچویں کلاس کا طالب علم تھا۔ پی اے ایف بیس ماڑی پور (مسرور) کراچی کے گورنمنٹ اسکول کی اسمبلی میں ہر روز لہک لہک کر ’’پاکستانی بڑے لڑیا جن کی سہی، نہ جائے مار‘‘ رزمیہ نغمہ گاتا تو میدان تالیوں سے گونج اٹھتا۔ اس موقع پر ممتاز نامی ایک طالب علم ’’اللہ کے وعدے پر مجاہد کو یقین ہے، اب فتح مبین ہے، فتح مبین ہے‘‘ پیش کرتا اور اساتذہ اور ساتھیوں کے جسم میں جیسے بجلی بھردیتا۔ یادوں کے دریچے کھولتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ پوری پاکستانی قوم یکجان اور متحد تھی۔ تمام روز مرہ سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رہتی تھیں۔ خوف و ہراس نام کی کوئی چیز پاکستانی معاشرے پر مسلط نہ تھی۔ سترہ دنوں کے جہاد نے پورے سماج کو نظم و ضبط اور اوصاف حمیدہ سے سجا دیا تھا۔ جنگ ستمبر کے دوران میرے ابوجی مرحومؒ نے کئی نظمیں لکھیں۔ پنجانی زبان میں کہی گئی نظم ’’چل چلئے، واہگیوں پار میاں… چھڈ سارے کاروبار میاں‘‘ بہت پسند کی گئی۔ مختلف مواقع پر میں ترنم سے یہ نظم سناتا اور خوب داد پاتا۔ اس نظم کا آخری بند تھا:
ایہہ دشمن بڑا کمینہ اے
ساڈا مرنا اسدا جینا اے
سینے وچ رکھدا کینہ اے
صدیق رہیں ہشیار میاں
چل چلئے واہگیوں پار میاں
چھڈ سارے کاروبار میاں
اس بند میں ایک کائناتی سچ پیش کیا گیا ہے کہ ہندوستان ہمارا ازلی اور ابدی دشمن ہے۔ منہ پہ رام رام اور بغل میں چھری رکھنے والا ایک ایسا دشمن ہے، جس نے پاکسان کے قیام کو کبھی دل سے تسلیم ہی نہیں کیا ہے اور مملکت خدادا کو سازشوں، ریشہ دوانیوں اور کمینے پن کے منصوبوں سے ہمیشہ نقصان پہنچایا ہے۔ ہمارے سیاست دان جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان سے دوستی، خیر سگالی اور باہمی تعاون اور تجارت ہو سکتی ہے، وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ یاد رکھئے گا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔ جس پر سات لاکھ بھارتی فوجی بیٹھے ہوئے ہیں۔ جب تک مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی تاریخی قرارداد کے مطابق حل نہیں ہوگا، اس خطے میں لگی ہوئی آگ کبھی نہیں بجھے گی۔ بھارتی تنائو اور بلند فشار خور کا خاتمہ چند گھنٹوں میں نہیں، چند سیکنڈوں میں ٹچ اینڈ گو سے ہو جائے گا۔ دنیا کے نقشے پر ستاون اسلامی ممالک چمک رہے ہیں۔ مگر ہندو ملک صرف ایک ہے۔ اسے کرئہ ارض سے مٹانے میں چند لمحے درکار ہیں۔ مودی جی! ان لمحوں کو مت مکارو، نہ تنائو باقی رہے گا اور نہ ہی چنائو۔ یہ بات پتھر پر ان مٹ لکیر ہے۔ چاہو تو ابھی آزمائو۔
٭٭٭٭٭