’’بابا! جنگ ہوگی؟‘‘ شیث خان نے سوئٹر پہنتے ہوئے مسہری پر نیم دراز اپنے بابا سے سوال کیا۔ سیلانی نے چونک کر اپنے بیٹے کی جانب دیکھا اور سوچنے لگا کہ اب کیا جواب دے۔ اس کا موڈ سخت آف تھا۔ بھارتی میڈیا کے جشن نے سیلانی کو چڑچڑا سا کر دیا تھا۔ سوشل میڈیا پر بھارتی اچھلتے، منہ چڑاتے اور بغلیں بجاتے پھر رہے تھے۔ ان کی خوشی سے چمکتی آنکھوں میں پاکستان کے لئے شدید نفرت دکھائی دے رہی تھی۔ بھارت کا عام شہری ہو یا بالی ووڈ کا کوئی نوٹنکی باز، سب اسی نفرت آمیز خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ بالی ووڈ کا وہ سلمان خان جس کی فلموں کو پاکستانی اپنے سینما گھروں میں بڑے اہتمام سے دکھاتے ہیں، آج وہ بھی اپنی اصلیت دکھا رہا تھا۔ اس کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے انڈین ائیر فورس کو شاباشایاں دی جا رہی تھیں۔ امیتابھ بچن کی خوشی بھی چھپائے نہ چھپ رہی تھی اور اس کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جھلک نہیں چھلک رہی تھی۔ بھارتی فلم انڈسٹری سے لے کر آٹو انڈسٹری تک، ہر جگہ جشن کا سماں تھا۔ سرحد پار کے پڑوسی بغلیں بجا رہے تھے، بھنگڑے ڈال رہے تھے کہ بدلہ لے لیا۔ بھارتی میڈیا کی تو جیسے دل کی مراد پوری ہوگئی ہو۔ سیلانی ان کے ٹاک شوز دیکھ دیکھ کر نفرت کا سودا بیچنے والوں پر حیران ہو رہا تھا۔ میڈیا عوام کو سوچ دیتا ہے، سمجھ بوجھ دیتا ہے، یہاں تو عقل خبط کی جا رہی تھی کہ پاکستان پر چڑھ دوڑا جائے۔ خاکم بدہن اسے ختم کر دیا جائے۔ جیسے پاکستان پاکستان نہ ہوا، کسی لالچی بنئے کے گھر داماد ہو۔ سسر جی کا موڈ خراب ہوا اور اس کا سامان اٹھا کر دروازے سے باہر پھینک کر نکال باہر کیا۔ بھارتی نیوز چینلز کے پروگرام دیکھ دیکھ کر سیلانی کی عجیب سی کیفیت ہو رہی تھی۔ سچی بات ہے سبکی کا احساس ہو رہا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اٹھے اور سرحد کی طرف چل پڑے۔ ایسے خراب موڈ میں اس کا بیٹا سامنے کھڑا ہو کر اس سے جنگ کا پوچھ رہا تھا۔ سیلانی نے اسے بغور دیکھا اور پوچھا:
’’کیوں تم بارڈر پر جاؤ گے؟‘‘
’’اور کیا؟‘‘ شیث خان نے جواب دینے میں لمحہ بھی نہیں لگایا۔
’’اچھا کیا کرو گے وہاں جا کر؟‘‘ سیلانی نے ناک پر دھری عینک کے اوپر سے اپنے بیٹے کو دیکھا۔
’’بابا! فوج کے ساتھ مل کر لڑوں گا۔‘‘ شیث خان نے سینہ چوڑا کرکے کہا اور سیلانی بے اختیار مسکرا دیا۔
’’کبھی غلیل بھی چلائی ہے؟‘‘
’’بابا! غلیل کیوں، ہمیں اسکول میں فائرنگ کرنا سکھائی گئی تھی، میں نے بھی فائر کئے تھے۔‘‘ شیث نے فخریہ لہجے میں بتایا۔ سیلانی نے اسے دیوار پر گھڑی کی طرف متوجہ کیا اور کہا:
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، شاباش جلدی نکلو، کالج کے لئے دیر ہو رہی ہے۔‘‘
شیث خان نے بیگ لیا اور منہ بناتے ہوئے بولا: ’’بابا! دیکھنا، ہم چھوڑیں گے نہیں، بدلہ ضرور لیں گے۔‘‘
’’چلو، چلو بھاگو شاباش۔‘‘ سیلانی نے شیث خان کو روانہ کیا اور ایک بار پھر سیل فون کی طرف متوجہ ہوگیا۔ سوشل میڈیا میں اپنے پاکستانی بھائیوں کی وہی کیفیت تھی، جو 1985ء میں شارجہ کپ کے فائنل میں تھی۔ ہمارا عجیب جذباتی اور بچکانہ ردعمل تھا۔ سیلانی کو اچھی طرح یاد ہے شارجہ کپ کے فائنل میچ میں پاکستان کے جاوید میاں داد کریز پر تھے اور بھارتی باؤلر نپی تلی گیندیں کرواتے ہوئے جیت کی جانب بڑھ رہے تھے۔ ٹی وی کے سامنے بیٹھے کروڑوں پاکستانی ہر ہر گیند پر ماہرانہ تبصرہ کر رہے تھے۔ گیند مس ہو جاتی یا ایک دو رنز بنتے تو وہیں سے جاوید میاں داد کو ریٹائرمنٹ کا مشورہ دے دیا جاتا۔ آخری اوور میں پاکستانیوں کا غصہ انتہاؤں پر تھا۔ لیکن اس آخری اوور کی آخری گیند پر انہونی ہوگئی۔ میچ جیتنے کے لئے چار رنز درکار تھے۔ بھارتی باؤلر گیند کرانے کے لئے بھاگتا ہوا آیا۔ اس نے گیند کرائی اور میاں داد کے بلے نے اسے اٹھا کر باؤنڈری سے باہر پھینک دیا۔ جاوید میاں داد کے اس چھکے سے پاکستان میچ جیت گیا اور پھر ایسا ہی ستائیس فروری کو بھی ہوا۔ پاکستان کے تمام شیث خانوں کی دعا قبول ہو گئی۔ چھبیس فروری کو پاکستان کی فضائی حدود میں گھسنے کا دعویٰ کرکے بالاکوٹ میں ساڑھے تین سو ’’آتنک وادی‘‘ مار دینے والی انڈین ائیر فورس نے ایک بار پھر پاکستان کا رخ کیا۔ سیالکوٹ کی سرحد پر پاک فوج نے توپ خانہ کھول رکھا تھا۔
مختلف ذرائع سے اطلاعات آرہی تھیں کہ پاک فوج نے دشمن کے پاؤں اکھاڑ کر انہیں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ عالمی میڈیا بہت محتاط انداز میں خبریں دے رہا تھا۔ میڈیا کے محاذ پر بھارت کا جشن غالب تھا۔ بھارتی میڈیا نے انڈین ایئر فورس کے غباروں میں کچھ زیادہ ہی ہوا بھر دی تھی۔ سسروں نے پاکستان کو ہریانہ کا کوئی دھرم شالہ سمجھ لیا کہ جب جی چاہا، منہ اٹھا کر اندر گھس آئے۔ بھارتی ائیر فورس نے ایک بار پھر پاکستان کا رخ کیا، لیکن اس بار ان کی شامت انہیں یہاں کھینچ رہی تھی۔ ان کے ساتھ وہ ہوا، جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ پاک فضائیہ کے راڈاروں نے چوکس بیٹھے ہوا بازوں کو الرٹ کیا۔ شکار کی اطلاع دی۔ شاہینوں کا لہو ویسے ہی کھول رہا تھا۔ شاہینوں نے شکار پر جھپٹنے کے لئے پر کھول لئے۔ پوری تیاری سے بیٹھے ہوئے جے ایف تھنڈر نے اڑان بھری اور پھر آٹھ اسکواڈرن کے جے ایف تھنڈر نے دشمن کے مگ اکیس کو جا لیا۔ بھارتی طیارے نے بھاگ نکلنے کی بڑی کوشش کی، لیکن شاہین اپنے پنجوں میں آیا شکار بھلا کہاں جانے دیتا ہے۔ ’’آسمانی بجلی‘‘ بھارتی مگ پر قہر بن کر گر چکی تھی۔ تھوڑی ہی دیر ہی میں پاک فوج کا ترجمان دو بھارتی طیاروں کے گرائے جانے کی اطلاع دے رہا تھا۔ اطلاع کے ساتھ ایک پائلٹ کی گرفتاری کی خبر نے تو کھلبلی مچا دی۔
سیلانی نے جھٹ سے بھارتی میڈیا کا رخ کیا، وہاں ’’فتح‘‘ کا جشن جاری تھا۔ ریٹائرڈ فوجی مونچھوں کو تاؤ دیئے نیوز چینلز کے ذریعے گجرات کے قصاب کو مشورہ دے رہے تھے کہ پڑوس میں پاکستان کا ٹنٹنا ہی ختم کر دے۔ وہ بھارتی فوج اور فضائیہ کی پیشہ ورانہ مہارت کے گن گا رہے تھے کہ ان کے رنگ میں بھنگ پڑ گیا۔ مکار بنئے نے دو مگ طیارے گرائے جانے کی اطلاع دبا کر اسے کاؤنٹر کرنے کے لئے پاک فضائیہ کے ایف سولہ کو گرانے کی جھوٹی بریکنگ نیوز دے دی۔ بھارتی مزید اچھلنے لگے۔ سوشل میڈیا پر جے جے کار ہونے لگی۔ وہ تو جب عالمی میڈیا نے ونگ کمانڈر ابھی نندن کے پاکستان میں ’’سواگت‘‘ کی تصویریں جاری کیں تو بھارت میں ایسا سکوت چھایا، جیسے 85ء میں میاں داد کے چھکے کے بعد شارجہ اسٹیڈیم میں بھارتیوں کو چپ لگی تھی۔ یہ سکوت اس وقت افسردگی میں تبدیل ہوگیا، جب بھارت نے نہایت محتاط انداز میں اپنے ایک طیارے کے لاپتہ ہونے کا اعتراف کیا۔ پھر بھارتی وزیر خارجہ کے مزاج کی تیزی بھی کم ہوتی گئی۔ سشما سوراج کا بیان آگیا کہ بھارت مزید تناؤ نہیں چاہتا۔ اب بھارتی اپنے نیتاؤں پر الٹ پڑے تھے۔ وہ سوال لئے پھر رہے تھے، لیکن کوئی حکومتی ذمہ دار ان سے بات کرنے نہیں آرہا تھا۔ وہ نریندرا مودی جو ہیرو بن گیا تھا، اب زیرو ہو چکا تھا۔ پاکستانی نیوز چینلز پر بریکنگ نیوز چل پڑی تھیں۔ ایک کے بعد ایک خبر کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ لوگوں کے چہرے خوشی سے چمک رہے تھے۔ سیلانی کا چھوٹا بیٹا منیب خوشی سے ناچ رہا تھا۔ ’’بے غم‘‘ کے چہرے پر تو اس روز بھی سکون تھا، جب بھارتی مگ طیاروں نے گھس بیٹھ کا دعویٰ کیا تھا۔ موصوفہ نے سیلانی کو ڈبل روٹی لینے بھیج دیا تھا۔ آج تو صورت حال ہی مختلف تھی۔ وہ سیلانی کی جانب ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھیں، جیسے کہہ رہی ہوں کہ آپ ٹینشن نہ لیں اور جائیں ڈبل روٹی لے آئیں…
آج سیلانی کا ایسا کوئی موڈ نہیں تھا۔ وہ ٹیلی ویژن لگا کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کتنا ہی اچھا ہو کہ یہاں کسی کا بھی لڑنے کا کوئی موڈ نہ ہو۔ کسی کا ایسا کوئی ارادہ نہ ہو، بھارت اور پاکستان دونوں کے پاس غریبوں کی اک فوج ہے۔ اِدھر بھی خط غربت کے تلے رہنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور اُدھر تو اس سے پچاس کروڑ لوگ بھوکے سوتے ہیں۔ یہاں بھی بے گھر لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور وہاں بھی فٹ پاتھوں پر اک دنیا آباد ہے۔ یہاں بھی عوام کے لئے بنیادی سہولتوں کی صورت حال اچھی نہیں اور وہاں تو حال یہ ہے کہ بیت الخلاء تک میسر نہیں… اور پھر اس معاشی، معاشرتی کمزوریوں کے ساتھ دونوں ہی ملک ایٹمی قوت بن چکے ہیں۔ بھارت چاہے بھی تو پاکستان کو ختم نہیں کر سکتا اور ایسی کسی کوشش کے بعد سلامت نہیں رہ سکتا۔ بھارت بڑا ملک ہے، اس کا یہ زعم بجا سہی، لیکن وہ اتنا بڑا نہیں ہوا کہ پاکستان کا دفاع چیلنج کر سکے۔ یہ بات آج بھی ثابت ہوئی ہے۔ مان لیا کہ یہ ذرا تلخ ہے، لیکن مگ اکیس کے بکھرے ہوئے ملبے کی طرح سچ ہے۔ بھارت کو یہ سچ ہضم کرنا ہوگا۔
ادھر سیلانی اپنی سوچ میں بہے جا رہا تھا اور ادھر ٹی وی اسکرین پر پاک فوج کی تحویل میں ونگ کمانڈر ابھی نندن مگ میں چائے پیتا دکھائی دے رہا تھا۔ سیلانی سوچنے لگا اس سے مہنگا چائے کا کپ دنیا میں شاید ہی کسی نے پیا ہو۔ بھلا کس نے کروڑوں روپے کا مگ اکیس گنوا کر چائے کا مگ اٹھایا ہوگا… سیلانی یہ سوچتا ہوا ونگ کمانڈر ابھی نندن کو چائے کی چسکیاں لیتا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
٭٭٭٭٭