میر باقر علی داستان گو دلی کے قدیم عہد داستان گوئی کی آخری نشانی تھے۔ انہیں یہ فن اپنے آباء واجداد سے ورثے میں ملا تھا۔ ان کے نانا میر امیر علی قلعہ معلی سے وابستہ تھے، جبکہ ماموں میر کاظم علی نے تو داستان گوئی کے فن میں ایسا کمال حاصل کیا کہ دلی کے علاوہ فیض آباد، لکھنؤ اور حیدر آباد دکن تک ان کا طوطی بولتا تھا۔ میر باقر علی اپنے انہی ماموں کے شاگرد تھے۔
ایک روایت کے مطابق اس گھرانے کے کسی بزرگ نے شاہی دربار میں داستان کہتے ہوئے عاشق و معشوق کے وصال کو بارہ برس تک روکے رکھا، حتیٰ کہ ایک روز بادشاہِ وقت کو بے قراری سے کہنا پڑا کہ اب تو عاشق و معشوق کے بیچ سے پردہ اٹھا دیجئے۔ میر باقر علی کو قدیم فنِ داستان گوئی کا خاتم بھی کہا جاتا ہے۔ خواجہ حسن نظامی انہیں مقرر کائنات کہا کرتے تھے۔ حکیم اجمل خان جیسے بزرگ ان کے قدر دانوں میں شامل تھے۔ اخیر عمر میں میر صاحب کی کچھ داستانیں زیورِ طباعت سے آراستہ بھی ہوئیں۔ اپنی ایسی ہی ایک داستان میں وہ بیان کرتے ہیں:
’’ایک تھا دیوانہ۔ برسات کا زمانہ تھا۔ وہ اپنے کوٹھے کی چھت پر سوتا تھا کہ اس نے خواب میں دیکھا کہ بہت سے لوگ جمع ہیں۔ کچھ نے چوسر کی بازی جما رکھی ہے۔ کسی نے ستار چھیڑ رکھا ہے اور کچھ لوگ کونے میں بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ یہ ان کے قریب گیا، سنا، تو کہہ رہے تھے کہ سسرال بڑے مزے کی جگہ ہے۔ اس نے جی میں کہا کہ ہم تو کبھی سسرال گئے نہیں۔ صبح اٹھا۔ اپنی ماں کے پاس گیا اور کہا: ’’بی تم نے ہمیں کبھی سسرال نہیں بھیجا؟‘‘۔ اماں نے کہا: ’’بیٹا! تم تو دیوانے ہو۔ عقل مندوں کی سی باتیں کرو تو سسرال بھیجوں‘‘۔
دیوانے نے کہا: ’’اماں ہم ڈوب مریں گے‘‘۔ اماں نے کہا: ’’بیٹا! ناک کی سیدھ میں چلے جائو۔ سسرال پہنچ جائو گے‘‘۔
یہ چلا ناک کی سیدھ۔ چلا جا رہا تھا کہ راستے میں آ گیا کھجور کا درخت۔ اس نے کہا کہ یہ تو بڑی خرابی ہوئی۔ خیر چڑھ گیا کھجور کے درخت پر۔ اب اترنے جو لگا تو پتے تو رہ گئے ہاتھ میں، پائوں لگے لٹکنے۔ اتنے میں دیکھا کہ دور سے ایک سانڈنی سوار چلا آ رہا ہے۔ دیوانے نے آواز دی: ’’میاں سانڈنی سوار! ذرا میرے پائوں پکڑیو‘‘۔ سانڈنی سوار نے آکر اس کے پائوں پکڑے۔ پائوں پکڑنے ہی تھے کہ نیچے سے سانڈنی نکل گئی اور یہ بھی لگا لٹکنے۔
اتنے میں دیوانے نے دیکھا کہ دور سے ایک آدمی ٹٹو پر سوار چلا آ رہا ہے۔ یہ چلایا: ’’میاں گھوڑ سوار! ذرا ہمارے پائوں پکڑنا‘‘۔ گھوڑ سوار نے سانڈنی سوار کے پائوں پکڑ ے ہی تھے کہ ٹٹو بدک کر دور نکل گیا۔ اب میاں ٹٹو سوار بھی لگے لٹکنے۔ اب دیوانہ کیا دیکھتا ہے کہ دور سے ایک بڈھا ڈوم گدھے پر سوار چلا آ رہا ہے۔ دیوانے نے کہا: ’’بڑے میاں! ذرا ہمارے پائوں پکڑیو، نہیں تو ہم مرے‘‘۔ ڈوم بولا ’’بھیا! میں بڈھا آدمی ہوں۔ مجھ سے کیوں پائوں پکڑواتے ہو؟‘‘۔
خیر تینوں نے منت سماجت کی تو بوڑھے ڈوم نے درخت کے نیچے آ کر گھوڑ سوار کے پائوں پکڑے۔ گھوڑ سوار کے پائوں پکڑنا تھے کہ گدھا دولتی جھاڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ ایک سانڈنی سوار، دوسرا گھوڑ سوار، تیسرا ڈوم، ان کا سب کا بوجھ دیوانے پر پڑا تو بلبلا اٹھا۔ دل بہلانے کو کچھ تو چاہیے، سو دیوانہ ڈوم سے کہنے لگا: ’’میاں کچھ سنائو تو دل بہلے‘‘۔ غرض یہ کہ ڈوم نے گانا گایا، گھوڑ سوار نے ہاتھ سے طبلے پر تھاپ دی، سانڈنی سوار ناچنے لگا اور دیوانے نے ہاتھ بڑھا بڑھا کر داد دینی شروع کی۔ اب جو ہاتھ چھوٹے تو ڈوم پر گھوڑ سوار، گھوڑ سوار پر سانڈنی سوار، دیوانہ تھا سب سے اونچا، گرا تو سب سے زیادہ چوٹ آئی۔ نکسیر جو پھوٹی تو کہا: ’’سسرال بڑے مزے کی جگہ ہوگی، مگر راستہ بہت ٹیڑھا ہے‘‘۔
میر باقر علی کی یہ داستان نریندر مودی اینڈ کمپنی پر صادق آتی ہے۔ نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے امن پسند طالبان حکومت ختم کرکے افغانستان میں ڈیرے ڈالے تو اس نے بھارت کو جنوبی ایشیا کی تھانیداری سونپنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ امریکی ایما پر دلی سرکار نے ایک طرف افغانستان کی ’’تعمیر و ترقی‘‘ کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے اور دوسری طرف پاکستان کو چرکے لگانے کے لیے افغانستان میں درجن بھر سے زائد دہشت گردی کے اڈے کھول دیئے، جنہیں قونصل خانوں کا نام دیا گیا تھا۔ دمڑی کی خاطر چمڑی تک اتروا لینے والا ہندو بنیا صرف اس اعتماد کے ساتھ افغانستان میں اربوں ڈالر خرچ کرنے پر آمادہ ہوا کہ اب کس نے امریکہ کو یہاں سے نکالنا ہے۔ لیکن مقابلے میں افغان طالبان تھے، جو صرف اس یقین کے ساتھ ہمالہ کی مانند میدان میں کھڑے رہے کہ امریکہ اگر سپرپاور ہے تو خدا سپریم پاور ہے اور سپریم پاور ہمارے ساتھ ہے۔ بالآخر سپریم پاور نے سپر پاور کو افغان طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ اس لیے اب افغانستان میں تیزی سے بدلتے ہوئے منظر نامے نے دلی سرکار کی نیندیں غارت کر دی ہیں، کیونکہ یہ بات روزِ روشن کی مانند عیاں ہے کہ افغان طالبان کابل میں برسر اقتدار آئے تو دلی سرکار کو وہاں سے اپنا بوریا بستر لپیٹنا پڑے گا، کیونکہ افغان طالبان امریکہ اور بھارت کو ایک ہی سکے کے دو رخ سمجھتے ہیں۔
مودی سرکار کا دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بھارت میں عام انتخابات کی آمد آمد ہے۔ دسمبر 2018ء میں پانچ بھارتی ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، تیلنگانہ اور میزورام میں کانگریس اور مقامی سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں حکمران جماعت بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دلی کے اعلیٰ سیاسی حلقوں میں کہا جاتا ہے کہ دلی کا راستہ لکھنؤ سے ہو کر گزرتا ہے اور کانگریس اس بار لکھنؤ میں اندرا گاندھی کی پوتی پریانکا گاندھی کو میدان میں اتار رہی ہے۔ پلوامہ حملے سے صرف تین دن پہلے پریانکا گاندھی نے لکھنؤ میں روڈ شو کے نام پر اپنی اولین سیاسی سرگرمی میں بھرپور حصہ لیا، جس میں بھارتی میڈیا کے مطابق لاکھوں لوگ شریک ہوئے۔
یہ صورت حال ظاہر کر رہی ہے کہ اپریل، مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں کانگریس، مودی اینڈ کمپنی کو خاصا ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ بھارت ابھی تک علاقائی تھانیداری کے خواب دیکھ رہا ہے۔ بدھ کی شام پاکستانی ہائی کمشنر کو بھارتی وزارت خارجہ میں طلب کرکے واضح طور پر کہا گیا کہ انڈیا اپنی قومی سلامتی اور علاقائی وقار کے تحفظ کے لیے ٹھوس کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اس نام نہاد علاقائی وقار کو برقرار رکھنے کی خاطر ہی ایبٹ آباد آپریشن طرز پر بھارت نے بھی پاکستان کو سسرال سمجھتے ہوئے اس پر اپنی تھانیداری کا عملاً سکہ جمانے کی کوشش کی، لیکن پاکستانی شاہینوں نے دلی سرکار کو بتا دیا ہے کہ پاکستان کی طرف آنے والا راستہ خاصا ٹیڑھا ہے۔
مودی سرکار کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ لڑائی خالی ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتی، بلکہ اس کے لیے جذبۂ جنوں بھی چاہیے اور بھارتی فوج اس جذبے سے تہی دامن دکھائی دیتی ہے۔ وہ گولڈن ٹیمپل میں نہتے سکھوں کو مار سکتی ہے۔ معصوم کشمیریوں کو ذبح کر سکتی ہے، لیکن میدانِ جنگ میں دو دو ہاتھ کرنا خاصا جان جوکھوں کا کام ہے۔
کلدیپ نائر راوی ہیں کہ بھارت چین جنگ کے دوران میں پنڈت نہرو نے واشنگٹن میں تعینات بھارتی سفیر بی کے نہرو کو صدر کینیڈی سے ملنے کی ہدایت کی۔ بھارتی سفیر نے امریکی صدر سے ملاقات میں دہائی دی کہ بھارت کو فوری طور پر اسلحہ دیا جائے تاکہ وہ چین کا مقابلہ کر سکے۔ اس موقع پر وہاں موجود ایک اعلیٰ امریکی فوجی افسر نے بھارتی سفیر سے کہا کہ چرچل نے تو ہتھیاروں کے بغیر جنگ جیت لی اور آپ لوگ اسلحہ مانگ رہے ہیں، لیکن چین کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں۔ کلدیپ نائر کے مطابق امریکی افسر کی بات کا اصل مطلب یہ تھا کہ بھارتی فوج میں جنگ لڑنے کے جذبے کی کمی ہے۔
کلدیپ نائر نے اپنی خودنوشت میں بھارتی فوجیوں کی اخلاقی حالت بھی بیان کی۔ پاک چین جنگ کے دوران میں وہ ایک اعلیٰ سطحی سرکاری وفد کے ہمراہ ریاست آسام کے شہر تیز پور کے دورے پر گئے۔ وہاں تعینات بھارتی فوج کے ایک میجر صاحب انہیں کہنے لگے کہ اگر آپ میرے سامان کا ٹرنک لے جائیں تو میں ہر طرف سے بے فکر ہو کر مادرِ وطن کے لیے لڑوں گا۔ کلدیپ نائر نے میجر صاحب کا ٹرنک سرکاری طیارے میں رکھا اور دلی لے آئے۔ انہوں نے ٹرنک میجر صاحب کے گھر پہنچایا تو ان کی بیوی نے کلدیپ نائر کے سامنے ہی ٹرنک کھول دیا تو وہ یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ ٹرنک سمگل شدہ قیمتی اشیا سے بھرا ہوا تھا۔ بھارتی بزرگ صحافی کو یہ منظر دیکھ شدید صدمہ پہنچا کہ بھارتی فوج کے میجر صاحب کتنی ہوشیاری سے انہیں ’’چونا‘‘ لگا گئے۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں بھارتی عوام اور بھارتی فوج کے لیے بھی کئی سبق پنہاں ہیں۔ نریندر مودی اینڈ کمپنی صرف اپنی سیاست کے لیے پورے ملک کو جنگ کی آگ میں جھونک رہی ہے، جس نے گزشتہ چار برسوں میں اپنے ملک کو فرقہ وارانہ نفرتوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ کیا نفرتوں کی فصل کاشت کرنے والی نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی آئندہ عام انتخابات میں ووٹ دیئے جانے کے لائق ہے؟ بھارتی عوام کو اس بارے میں سوچنا ہوگا۔
اور آخری بات یہ ہے کہ پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ وہی کلمہ جو فاران کی چوٹی پر اُترا، بدر و احد میں گونجا، تبوک، قادسیہ اور یرموک کے میدانوں میں سے گزرا، اور بالاکوٹ اور شاملی سے ہوتا ہوا ہم تک پہنچا اور جس کی گونج سے آج غزنوی و ابدالی کے دیس سے لے کر وادی کشمیر تک ہر جگہ بُتانِ آزری کے دل دہل رہے ہیں۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ اس کلمے کی برکت سے قلیل تعداد ہوتے ہوئے کثیر تعداد کو خاک چٹائی۔ مودی سرکار اس زعم میں نہ رہے کہ وہ ہم سے کئی گنا بڑی عسکری طاقت رکھتی ہے۔ جنگیں اسلحہ و ٹیکنالوجی سے نہیں، بلکہ جرأت ِ ایمانی سے لڑی جاتی ہیں۔ یہی عالمگیر سچائی ہے، وگرنہ آج واحد عالمی سپرپاور بھوکے ننگے طالبان سے مذاکرات نہ کر رہی ہوتی۔ ٭
٭٭٭٭٭