بے حسی کس کی اور ناکام کون؟

بھارت تمام تر کمزوریوں کے باوجود اپنی مؤثر سفارت کاری اور کامیاب خارجہ پالیسی کے ذریعے خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت باور کراتا ہے۔ وہ ایک طرف روس کا دیرینہ حلیف ہے تو دوسری جانب امریکا بھی اسے خطے میں اپنے مفادات کا اکلوتا محافظ سمجھتا ہے۔ بھارت نے اپنی کامیاب سفارت کاری کے ذریعے اسرائیل سے بھی مضبوط تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور عرب ممالک کو بھی اپنے دام فریب میں پھنسا رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلیجی ممالک میں سب سے زیادہ غیر ملکی کارکن بھارتی ہیں۔ جو سالانہ اربوں ڈالر ان مسلم ممالک سے کما کر بھارت بھیجتے ہیں۔ سعودی ولی عہد نے اپنے حالیہ دورے میں پاکستان میں تو بیس بلین ڈالرزکی سرمایہ کاری کا اعلان کیا، جو ابھی تک صرف اعلان ہے۔ جبکہ بھارت سے چوالیس بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے ہیں۔ بھارت نے متحدہ عرب امارات سے بھی نہایت قریبی تعلقات استوار کرلئے ہیں۔ دو برس قبل اپنے یوم جمہوریہ میں اماراتی ولی عہد کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا تھا۔ پھر ابو ظہبی میں مندر بنانے کیلئے پچپن ہزار مربع میٹر زمین بھی اماراتی حکام سے حاصل کر چکا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ برس اس سوامی نارائن مندر کا سنگ بنیاد بھی رکھ دیا۔ بھارت کی اول روز سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ خود کو سیکولر ملک کے طور پر پیش کرے تاکہ ہر عقیدہ و مذہب سے تعلق رکھنے والی اقوام سے مفادات سمیٹے جا سکیں۔ بلاشبہ یہ ایک کامیاب حکمت عملی اور قابل تقلید سفارت کاری ہے۔ اب امارات کے شہر ابوظہبی میں ہونے والے اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس میں بھی بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو بطور اعزازی مہمان اور مبصر مدعو کیا گیا، جس سے بھارت کی دیرینہ خواہش پوری ہوگئی۔ واضح رہے کہ اکیس اگست 1969ء کو یہودیوں کی جانب سے مسجد اقصیٰ کو جلانے کی کوشش کی گئی، جس کے ردعمل میں پچیس ستمبر 1969ء کو مراکش کے شہر رباط میں دنیا کے ستاون مسلم ممالک نے او آئی سی کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے قیام کا مقصد مسلمانوں کے مسائل کو مل کر حل کرنا تھا۔ گو کہ یہ اپنے مقصد میں دس فیصد بھی کامیاب نہیں ہوسکی۔ تاہم بھارت غیر مسلم ملک ہوتے ہوئے بھی اپنے مفادات کیلئے اس تنظیم میں شمولیت یا اجلاسوں میں بطور مبصر شریک ہونے کا ہمیشہ متمنی رہا ہے۔ بلکہ او آئی سی کے پہلے اجلاس، جس میں اس تنظیم کی داغ بیل ڈالی جا رہی تھی، بھارتی نمائندہ موجود تھا۔ اس وقت کے پاکستانی صدر یحییٰ خان جب کانفرنس ہال میں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں ایک سکھ بھی براجمان ہے۔ یحییٰ خان نے اس کی موجودگی پر نکتہ اعتراض اٹھایا۔ صدر پاکستان کو بتایا گیا کہ یہ بھارت کا نمائندہ ہے۔ یحییٰ خان نے پھر سوال اٹھایا کہ یہ اسلامی ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس ہے، بھارت کا نمائندہ اس میں کیسے شامل ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ملا کہ بھارت میں مسلمانوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے حکومت نے اس سکھ نمائندے کو مبصر کی حیثیت سے بھیجا ہے۔ جنرل یحییٰ خان اس جواب سے مطمئن نہ ہوئے اور کہا کہ اگر سب سربراہان اس جواب سے مطمئن ہیں تو میں شرکت سے معذرت کرتا ہوں۔ بالآخر بھارتی نمائندے سے معذرت کرکے اس کو کانفرنس ہال سے باہر بھیجا گیا اور پھر باقاعدہ پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کا رباط میں افتتاح ہوا۔ اس کے بعد بھارتی کوششوں کے باوجود کبھی مبصر کی حیثیت سے بھی اسے مدعو نہیں کیا گیا۔ پچھلے برس بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے بھارت کو مبصر کا درجہ دلانے کی کوشش کی تھی، لیکن کامیاب نہیں ہو سکیں۔ البتہ اس مرتبہ متحدہ عرب امارات کی پہل پر بھارت کو نہ صرف دعوت ملی، بلکہ بھارتی وزیر خارجہ نے اعزازی مہمان کے طور پر خطاب کیا اور نام لئے بغیر پاکستان کو دہشت گردوں کا پشت پناہ بھی کہا۔ سشما سواج نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک سیکولر، جمہوری، امن کا پیامبر اور علم کا مرکز ہے، جہاں تمام مذاہب کا احترام کیا جاتا ہے۔ مگر ان سے کسی نے نہیں پوچھا کہ مودی کی حکومت کے دوران اب تک چھپن مسلمانوں کو صرف گائے کے گوشت پر کیوں قتل کیا جا چکا ہے؟ کیا 1989ء سے اب تک چورانوے ہزار چار سو اسّی کشمیریوں کو بھی احتراماً قتل کیا گیا؟ بھارتی ٹارچر سیلوں میں سات ہزار پچاس کشمیریوں کو اذیت ناک موت دینا بھی کیا جمہوریت کا حسن ہے؟ ایک لاکھ دو ہزار تراسی کشمیری خواتین کی آبروریزی اور دو سو کو چھروں سے اندھا کرنا بھی کیا امن کا پیغام ہے؟ کشمیر کی ایک لاکھ چھ ہزار اکہتر عمارتوں کو جلا کر بھسم کرنا علم دوستی کا ثبوت ہے کیا؟ مگر مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ سشما سوراج کی من گھڑت داستان سرائی خاموشی سے سنتے رہے۔ بلکہ بعض عرب رہنمائوں کی ان سے بغلگیر ہونے کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ کو مدعو کرنے پر پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے او آئی سی کے اجلاس میں بطور احتجاج شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا۔ یہ دو روزہ اجلاس ابوظہبی میں کل (بروز جمعہ) شروع ہوا۔ جس میں پاکستانی وزیر خارجہ کے بجائے آفیشلز شریک ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت نہ تو او آئی سی کا رکن ہے اور نہ ہی مبصر۔ اس لئے ہم نے متحدہ عرب امارات سے کہا تھا کہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں وہ یا تو بھارتی وزیر خارجہ کو مدعو کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے یا پھر یہ اجلاس مؤخر کیا جائے۔ بھارتی وزیر خارجہ کو مدعو کرنے کے فیصلے پر او آئی سی کی سطح پر کوئی مشاورت بھی نہیں کی گئی تھی۔ او آئی سی کا یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب بھارت کا جنگی جنون عروج پر ہے۔ وہ پڑوسی ملک کے خلاف مسلسل جارجیت کا ارتکاب کر رہا ہے۔ پائلٹ کی رہائی، خذبہ خیر سگالی اور امن کے کسی پیغام کو وہ خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔ بھارت اقلیتوں کیلئے ویسے بھی جہنم کدہ بنا ہوا ہے۔ لیکن پلوامہ واقعہ کے بعد مسلمانوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کشمیر میں ظلم و بربریت کی نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔ وادی میں گورنر راج نافذ اور کمیونی کیشن سروسز بند کرکے کشمیریوں کے قتل عام کا خدشہ ہے۔ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اہل کشمیر کے حق میں آواز بلند ہوتی رہی ہے۔ یقیناً موجودہ صورتحال سے بھی اس تنظیم کے کرتا دھرتا بے خبر نہیں ہوں گے۔ پھر بھی ایک ایسے مسلم کش ملک کی وزیر کو اعزازی مہمان کا درجہ دینا انتہائی بے حسی کی دلیل ہے۔ عالمی میڈیا نے او آئی سی اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ کی شرکت کو ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا ہے۔ بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے او آئی سی اجلاس میں شرکت کرکے ایک تاریخ رقم کی ہے۔ انہیں امید ہے کہ اب کشمیر سے متعلق بھی او آئی سی کا مؤقف تبدیل ہو جائے گا۔ اب سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ہم سفارتی میدان میں کہاں کھڑے ہیں؟ ہماری خارجہ پالیسی کیوں اتنی کمزور ہے کہ ہم اپنے مسلم ممالک سے بھی کوئی بات نہیں منوا سکتے؟ کیا بائیکاٹ ہی مسئلے کا حل ہے؟ یا ہمیں آنکھیں کھولنی چاہئیں اور خارجہ پالیسی پر نظر ثانی، بلکہ اسے ازسرنو مرتب کرنا چاہئے؟
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment