اپنی برتری تسلیم کرانا ہوگی!

نصرت مرزا
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ڈرامے کا فی الحال ڈراپ سین ہو گیا ہے، اُس کو اپنے بچکانہ حرکتوں کی وجہ سے سبکی اٹھانا پڑی ہے، مقبولیت بڑھانے اور 2019ء کے الیکشن میں بڑی کامیابی کے خواب چکناچور ہوگئے ہیں، کیونکہ بھارت میں عوامی رجحاں اور نعرہ ’’گو مودی گو‘‘ زور و شور سے لگایا جا رہا ہے، سب مخالف جماعتوں کا اِس بات پر اتفاق ہو گیا ہے کہ پلوامہ کے ڈرامے کے ذریعے نریندر مودی نے اپنی الیکشن مہم کا آغاز کیا تھا، اس پر مودی حکومت صرف یہ کہہ پائی ہے کہ مخالف جماعتوں کے بیانات سے پاکستان کو فائدہ پہنچتا ہے، جبکہ وہ پہلے ملک سے غداری کا الزام لگانے میں ذرا دیر نہیں لگاتے تھے۔
14 فروری 2019ء سے مودی سرکار نے پلوامہ ڈرامہ رچانے کے بعد جنگی جنون بڑھا دیا تھا اور وہ 26 فروری 2019ء کی رات کو سرجیکل اسٹرائیک کے انداز میں پاکستان کے علاقے بالاکوٹ (سرحد سے متصل گائوں) تک بھارتی جہاز گھس آئے اور جبہ کے قریب اپنا بم پھینک کر چلے گئے اور یہ دعویٰ کیا کہ انہوں جیش محمد کا تربیتی کیمپ کو اڑا دیا، جس میں 350 جیش محمد کے تربیت پانے والے فدائین مارے گئے، جو انتہائی غلط بات تھی، کیونکہ پاکستان میں جیش محمد کا کوئی تربیتی کیمپ موجود نہیں ہے۔ دوسرے وہاں پر کوئی اتنا بڑا کمپائونڈ نہیں ہے، جہاں اتنے آدمی سمو سکیں۔ تاہم بھارت میں کامیابی کے شادیانے بجائے گئے۔ ویسے جیش محمد پاکستان کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو پاکستان کی منظور نظر نہیں ہیں۔ پاکستان خود اُن کی تلاش میں ہے، مگر وہ منظر سے غائب ہیں، اب وہ بھارت میں رہتے ہیں یا کسی اور ملک میں، اُن کے پاکستانی مفادات کا خیال رکھنے کے معاملے میں شکوک و شبہات ہیں اور پھر پلوامہ کے ڈرامے میں اُن کا نام لیا گیا کہ انہوں نے یہ حملہ کرایا، جس سے بھارت کے مؤقف کو تقویت ملتی ہے۔
میں نے ایک بھارتی چینل کو یہ بتا دیا تھا کہ وہ ایک برانڈ نام ہے اور اُسے کوئی بطور نقل استعمال کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر اُس کو دہشت گرد قرار دینے کے لئے ویٹو کیوں کیا جاتا ہے، شاید اس لئے کہ بھارت کی ایک پوزیشن کو تقویت نہ ملے، بھارت کے لوگ ایک ہزار سال تک غلام رہے ہیں، وہ ایکدم سے سپر طاقت بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور مسلمان جو انڈیا پر ساڑھے سات سو سال حکومت کرتے رہے ہیں، اس کا انتقام وہ پاکستان کی حکومت کو کمزور کر کے بالادست ملک بن کر لینا چاہتے ہیں، اسی بات کو سمجھتے ہوئے مسلمانوں کے زعماء کرام نے دو قومی نظریہ پیش کیا اور پھر پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
1965ء کی جنگ اور سانحہ سقوط مشرقی پاکستان کے کئی پہلوئوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔ تاہم وہ کسی اور موقع پر کریں گے۔ اس تحریر میں اس سوال کا جواب دینا ضروری ہے کہ پاکستان نے 26 اور 27 فروری کی درمیان رات کو انڈیا کے جہاز کیوں نہیں گرائے، جب ہم نے اسلام آباد میں ہوتے ہوئے دفاعی ماہرین سے بات کی تو اُن کا کہنا تھا کہ اس روز بھارت نے چھ مقامات سے دراندازی کرنے کی کوشش کی، جو غیر ذمہ دارانہ اور ناقاعبت اندیشی تھی اور ایک ایٹمی ملک کے رویے کے منافی تھی، کیونکہ ایک چنگاری پورے برصغیر کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردے گی۔ یہ کھیل پھلجھڑیوں کا نہیں۔ یہ ایٹمی ملک کا معاملہ ہے اور ایسے ایٹمی ملک کا جو انتہائی جدید ہتھیار رکھتا ہے، جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ شہادت مرد مومن کی منزل مقصود ہوتی ہے۔ غزوئہ ہند میں فتح کی بشارت اُن کے پاس موجود ہے اور بالاکوٹ میں اُن کے جہاز نہ گرانے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ فضائیہ کے دو اڈے ایک اسکردو اور دوسرا کامرہ میں موجود تھے۔ جب تک وہاں سے جہاز اڑے اس وقت تک وہ سرحد پار گر چلے گئے۔ ایک جنگل میں پے لوڈ پھینک کر چلے گئے تھے۔ اگر ہمارے جہاز اڑ رہے ہوتے تو پھر اُن کو اس طرح گرا لیا جا سکتا تھا، جیسا کہ دوسرے روز گرائے گئے کہ اُن کا ملبہ پاکستان میں پڑے، یا پھر میزائل مار کر انہیں گرایا جا سکتا تھا۔
یہاں ایک بات یہ زیر بحث آئی کہ اسکردو اور کامرہ کے درمیان ایک اور فضائی اڈہ ہونا چاہئے، جو سرعت سے حملہ آور ہو، مگر اس کا جواب یہی ملا کہ ایسی صورت میں ممکن ہے کہ جب جہاز فضا میں موجود ہو جیسا کہ 27 فروری 2019ء کو ہوا کہ جیسے بھارتی طیارے پاکستان میں داخل ہوئے، اُن کو گرا لیا گیا، ایک جہاز مگ 21 پاکستان کی حدود میں گرا، جس کے پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کرلیا گیا، اس نے جہاز کے گرنے سے پہلے اپنے آپ کو چھتری کے ذریعے اتار لیا اور یہ سمجھا کہ وہ بھارت میں اترا ہے۔ جے ہند کا نعرہ لگایا، جواباً جب عوام نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تو بھارتی پائلٹ نے اپنی پسٹل سے ہوائی فائرنگ شروع کر دی۔ رد عمل میں کشمیریوں نے پتھروں کی بارش کر دی۔ ایک آدھ پتھر اُس کے لگا بھی تو اس نے پتھر نہ مارنے کی درخواست کی۔ ہجوم نے اُس کو پستول پھینکنے کا کہا، جو اس نے پھینک دیا، اس کے بعد اس کی عوامی پٹائی ہوئی، مگر فوجیوں نے آ کر اس کو بچا لیا اور یکم مارچ 2019ء کو اس کو رہا کر دیا گیا۔
اس پر اعتراض ہے کہ پاکستان نے اس کو اتنی جلدی کیوں چھوڑا؟ کیا کسی معاہدے کے تحت چھوڑا یا اپنی خود اعتمادی کا مظاہرہ کیا یا پھر ٹرمپ کے دبائو میں چھوڑا؟ جس پر بھارتی میڈیا کے 400 چینلوں میں سے کئی یہ کہتے سُنے گئے کہ پاکستان کی ٹانگیں لرز رہی تھیں اور پاکستان نے حالت خوف میں اُسے چھوڑ دیا۔ یہ ایسا ہی ہے، جو جنرل پرویز مشرف نے 9/11 کے بعد امریکہ کی ساری شرائط مان لی تھیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بھارت اس پر باقاعدہ درخواست کرتا اور کچھ وقت لینا ضروری تھا۔ تاہم فوری رہائی کشیدگی بڑھنے سے روکنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی۔ اگر بھارت کے حملے کا خطرہ تھا بھی تو اس کے لئے جو احتیاطی تدابیر اختیار کی تھیں، وہ کافی تھیں۔ پھر 27 فروری 2019ء کو نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس ہوا، جس میں بہت اہم فیصلے ہوئے، جس میں پاکستان کے اسٹرٹیجک پلان ڈویژن کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز ستار نے جو بریفنگ دی، اس کے مطابق پاکستان اور بھارت کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، اس لئے جنوبی ایشیا میں کشیدگی کی گنجائش نہیں۔
پاکستان کو جوہری ہتھیاروں میں برتری اس طرح حاصل ہے کہ اس کی جوہری ہتھیاروں کو منتقل کرنے کی صلاحیت بہترین ہے۔ وہ ان کو طیاروں اور میزائلوں کے ذریعے مطلوبہ مقام پر پہنچا سکتا ہے۔ بھارت کو عددی برتری حاصل ہے، مگر وہ تکنیکی برتری اور صلاحیتوں کا اظہار نہیں کر سکے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے پاس کچھ ایسی صلاحیتیں ہیں، جن کو اس نے طشت ازبام نہیں کیا، مگر وہ بھارت کے پاس نہیں ہیں۔ پاکستان کی جوہری صلاحیتیں مختلف تہوں میں ہیں۔ وہ اسٹرٹیجک سطح، کم فاصلے اور محدود تباہی پھیلانے اور آپریشنل سطح پر مختلف اقسام کی ہیں۔ یہ بیانیہ ایک اخبار کے مطابق قومی کمانڈ اتھارٹی کے اجلاس میں دیا۔
پاکستان نے جو جہاز گرائے اور اِس بیانیہ کی موجودگی میں شاید حکمراں غیر معمولی پُراعتماد ہوگئے ہوں گے، اس لئے انہوں نے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو رہا کر دیا۔ اُن کے جہازوں کو پہلے دن اس لئے نہیں گرایا تاکہ بھارت کی جارحیت واضح ہو جائے اور پھر اُس کے دو جہاز گرا کر پاکستان کی فضائی بالادستی کو مستحکم کر دیا۔ اسی کے بعد امریکہ مذاکرات میں کودا کہ جواب در جواب شروع ہوا تو برصغیر جنگ کی لپیٹ میں آجائے گا۔
تاہم جب تک نریندر مودی اقتدار میں ہے، یہ خطرہ بہرحال موجود رہے گا، کیونکہ وہ ہٹلر کی طرح بے نام اور ایک ایسا ناکام و نامراد شخص ہے، جو اپنا ایک چھوٹا سا گھر نہیں چلا سکا، وہ بدقسمتی سے بھارت جیسا بڑا ملک چلا رہا ہے، جو بھارتیوں کے لئے عذاب سے کم نہیں۔ بھارت اور جنوبی ایشیائی خطہ کے لئے تباہی اور عالمی امن اور انسانیت کے لئے خطرہ ہے۔ امریکی مفادات بھی جنگ کی صورت میں خطرے میں پڑ جاتے ہیں، کیونکہ یہاں سے 73 فیصد تجارتی جہاز گزرتے ہیں، اس کے علاوہ امریکی فوری مفادات بھی مشکل میں پڑ گئے ہیں۔ اسی لئے افغان طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ پاک بھارت جنگی ماحول اُن کے اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا اور بھارت سے کہا کہ وہ کشیدگی میں اضافے سے اجتناب کرے۔
یہ صورتِ حال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان کو اپنی صلاحیتوں سے دُنیا کو آگاہ کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ وہ پاکستان کو کمتر نہ سمجھے اور روشن بھارت اور سب سے بڑی جمہوریت جیسے خوشنما نعروں اور اصطلاحات سے صرفِ نظر کرکے پاکستان کی اہمیت کو سمجھے۔ یہ اُسی طرح ممکن ہے، جس طرح امریکہ نے اپنے آپ کو واحد سپر طاقت پاور باور کرانے کیلئے اپنے دانشوروں کو دُنیا کی تمام دانشگاہوں میں لیکچر کے ذریعے لوگوں کو سمجھانے کیلئے بھیجا تھا، اس کے لئے ایک بڑا منصوبہ تیار کرنے کی ضرورت پڑے گی، جبکہ صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان کے بغیر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوگیا اور اس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج تقریر کرکے چلی گئیں۔ یہ سفارتی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے؟ آپ کے برادر ملک تک آپ کے ساتھ نہیں تو کسی اظہاریہ کے ذریعے اپنی اہمیت کو واضح کرنا چاہئے۔ چاہے اس کے لئے پُرخطر راستوں سے ہی کیوں نہ گزرنا پڑے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment