عباس ثاقب
میں نے فون رکھ کر مہتاب سنگھ اور شیر دل کو کہا۔ ’’لو جی، سکھبیر سنگھ نے تو مجھے جانے کی اجازت دے دی۔ تم لوگ اب یہ بتاؤ کہ کیا بس اڈے سے براہ راست منڈی گوبند گڑھ جانے کیلئے گاڑی مل جائے گی؟‘‘۔
شیر دل سنگھ نے مہتاب سنگھ کی طرف دیکھا جو کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا۔ ’’وہاں جانے کیلئے تو آپ کو پہلے لدھیانے جانا پڑے گا… یا آپ ایسا کرو کہ انبالے والی بس میں بیٹھ جاؤ۔ دوپہر ایک بجے یہاں سے چلے گی۔ وہ راستے میں پانچ، پانچ منٹ کپورتھلا اور پھگواڑا، اور پھر دس ایک منٹ لدھیانے اسٹاپ کرنے کے بعد بھی آپ کو چار، ساڑھے چارگھنٹے میں منڈی گوبند گڑھ کے اڈے پر اتار دے گی‘‘۔
میں نے اس کی بات غور سے سنی اور پھر پوچھا۔ ’’میرا خیال ہے یہ تو ڈیڑھ سو میل کے قریب فاصلہ بنتا ہے‘‘۔
مہتاب سنگھ نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’نہ جی، ڈیڑھ سو میل تو انبالے کا راستہ ہے۔ منڈی گوبند گڑھ تو یہاں سے لگ بھگ ایک سو بیس میل کی دوری پر ہے۔ راستے میں ٹریفک کم ہوا تو جلدی بھی پہنچ سکتے ہیں‘‘۔
میں نے دیوار پر موجود گھڑیا ل کی طرف دیکھا۔ دوپہر کے بارہ بجنے والے تھے۔ ان دونوں نے اصرارکیا کہ مجھے اسی بس سے جانا چاہیے، کیوں کہ اس کی حالت بہتر ہے اور نظام الاوقات کے مطابق چلتی ہے۔ کسی سکھ کی طرف سے ٹھیک بارہ بجے دیئے گئے مشورے کی درستگی تو میرے نزدیک کچھ زیادہ قابلِ اعتبار نہیں تھی۔ لیکن درحقیقت ایک گھنٹے کا انتظار اتنا زیادہ نہیں تھا۔ خصوصاً ایسی صورت میں کہ مجھے ہرمندر صاحب کے دروازے تک کا ایک فرلانگ سے زائد فاصلہ پیدل طے کرنا تھا اور سائیکل رکشا یا آٹو ڈھونڈ کر، نامعلوم دوری پر واقع بس اڈے بھی پہنچنا تھا۔
اپنے کمرے میں آکر میں ان کے ساتھ کچھ دیر تک گپ شپ لگاتا رہا۔ پھر اپنا واحد اثاثہ یعنی اونی چادر اپنے شانوں پر ڈالنے کے بعد میں نے ان دونوں سے رخصت طلب کی۔ ان کا اصرار تھا کہ وہ مجھے جیپ پر بس اڈے تک چھوڑکر آئیں گے۔ لیکن میں نے ان کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کی ایک وجہ تو انہیں بلا وجہ کی زحمت سے بچانا تھا۔ دوسرے میں امرتسر کی سڑکوں پر ان کے ساتھ جیپ میں گھومتا نظر نہیں آنا چاہتا تھا۔
ہرمندر صاحب کے اکال تخت والے دروازے سے باہر نکل کر سڑک پر پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد مجھے ایک آٹو رکشا مل گیا۔ جس نے مجھے چند ہی منٹوں میں بس اڈے پر پہنچا دیا۔ تھوڑی سی رہنمائی حاصل کر کے بس اڈے کے اس گوشے میں پہنچ گیا جہاں ایک نسبتاً نئی اور بہتر حالت میں بس انبالے جانے والے مسافروں کا انتظار کر رہی تھی۔ میں نے ٹکٹ گھر کی تلاش میں نظر دوڑائی اور پھر ایک میز کے پیچھے براجمان اونی صدری اور کھدرکے کرتے پاجامے میں ملبوس چالیس بیالیس سالہ شخص کی طرف بڑھا۔ اس نے اپنے سامنے ٹکٹوں کی کتاب سجا رکھی تھی۔ بس روانگی میں ابھی تقریباً بیس منٹ باقی تھے۔ اس کے باوجود بس بھری ہوئی دکھائی دے رہی تھی اور ٹکٹ کے مزید پانچ متلاشی میز کے سامنے موجود تھے۔
مجھے لگا کہ اس بس میں جگہ ملنی مشکل ہے۔ لیکن قسمت آزمائی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ اپنی باری آنے پر میں نے پنجابی زبان میں انبالے کا ایک ٹکٹ مانگا۔ جواب میں اس نے ہندی میں کہا۔ ’’تم نے دیر کر دی۔ سب ٹکٹ بک چکے ہیں۔ کوئی سیٹ خالی نہیں ہے‘‘۔
میں نے اپنی مایوسی چھپاتے ہوئے کہا۔ ’’کیا راستے میں کہیں قریب کوئی سیٹ خالی ہونے کی امید ہے؟‘‘۔
اس سے پہلے کہ ٹکٹ منشی کوئی جواب دیتا۔ میرے پہلو میں آکر اسی وقت کھڑے ہونے والے ہٹے کٹے، لمبے تڑنگے کلین شیو شخص نے اسے ہندی میں کہا۔ ’’ذرا دھیان سے دیکھو منشی جی۔ ایک دو سیٹ ضرور ہوں گی۔ مجھے ایک ضروری کام سے اسی بس کے ذریعے انبالے جانا ہے‘‘۔
ٹکٹ کلرک نے ناگواری سے اسے دیکھا۔ وہ اسے کوئی تلخ بات کہنا چاہتا تھا۔ لیکن اس شخص کے جثے کو دیکھ کر اس نے اتنا کہنے پر اکتفا کیا۔ ’’ایسی بات نہ کرو شریمان جی۔ ہماری کمپنی میں یہ نہیں چلتا۔ سب سیٹوں کے ٹکٹ بک چکے ہیں‘‘۔
لیکن انبالے کا عازم شخص اتنی آسانی سے قائل ہونے والا نہیں تھا۔ اس نے بدستور رعب ڈالنے والے لہجے میں کہا۔ ’’مجھے تم لوگوں کے سب ہتھکنڈوں کا پتا ہے۔ تم لوگ اپنے جاننے والوں کیلئے سیٹیں آخر تک بچاکر رکھتے ہو اور عین وقت پر آنے والے مسافروں کو فالتو پیسے لے کر بیچتے ہو۔ تم پانچ روپے اوپر لے لو اور ٹکٹ کاٹ دو‘‘۔
ٹکٹ کلرک نے احتجاج بھرے لہجے میں کہا۔ ’’ایسا کچھ نہیں جناب۔ آپ خود جا کر دیکھ لیں۔ اگر کوئی سیٹ خالی نظر آئے تو بے دھڑک بیٹھ جانا۔ میں آپ سے ٹکٹ کے پیسے بھی نہیں لوں گا‘‘۔
اس موقع پر میں نے ایک بار پھر اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ ’’میں نے پوچھا تھا کہ کیا بس میں کوئی قریب اترنے والی سواری ہے۔ جس کے اترنے پر مجھے سیٹ مل جائے؟‘‘۔
اس نے ناگواری سے میرے ساتھ کھڑے شخص کو دیکھا اور پھر مجھے کہا۔ ’’ایک بڈھا سردار بیاس دریا کے پل پر اترے گا۔ اگر پونے ایک گھنٹے کھڑے رہ کر سفر کرنا ہے تو ٹکٹ کاٹ دیتا ہوں‘‘۔
میں نے بلا جھجک کہا۔ ’’ہاں جی کاٹ دیں‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭