جنگ نہیں، زخموں پر مرہم رکھیں

مودی جی خدا جانے کس گمان میں ہیں۔ پانچ سالہ اقتدار کے خمار میں ہیں یا آنے والے انتخاب کی بے قراری ہے۔ جو کچھ بھی ہے، اس کے حتمی نتجائج سے بے خبری پر کیا کہا جا سکتا ہے۔ اگر بھارت جیسے ملک کا حکمران ہوتے ہوئے وہ نہیں جانتے کہ جنگ اب علاقوں پر قبضہ کی بات نہیں، بلکہ آبادیوں کو بے وجود کرنے کا نام ہے۔ جنگی جنون پیدا کر کے بھارتی جنتا کے ووٹ تو حاصل کئے جا سکتے ہیں، مگر جنگ کے نتیجے میں ان ہی ووٹروں سے محرومی بھی ہو سکتی ہے۔ مودی جی کو معلوم ہوگا آبادی سے محروم زمینوں پر حکمرانی نہیں، حکمرانی کا ماتم ہی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے والا ہر فرد طبعی موت سے محروم رہتا ہے۔ مثال کے طور پر اندرا گاندھی، شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے جو پڑوسی عطا فرما دیئے، ان سے نجات کی کوئی صورت نہیں ہے اور پاکستان اپنے تین اطراف میں موجود ہمسایوں سے دوستانہ اور برادرانہ تعلق رکھتا ہے۔ چین کی دوستی کے بارے میں کتنی سچی بات کسی نے کہی ہے کہ یہ سمندر سے گہری، ہمالیہ سے بلند دوستی ہے۔ ایران ہمارا برادر مسلم ملک ہے۔ افغانستان کو سویت یونین کی بالادستی سے نجات کیلئے جو کچھ کیا، وہ اپنی جگہ، وہ ایک برادر مسلمان ملک بھی ہے۔ ہماری فوج جان دینا اور جان لینا دونوں کاموں میں پوری مہارت رکھتی ہے۔ گزشتہ ادوار اس کی شہادت دیتے ہیں۔ ہماری سرحد پر عزیز بھٹی شہیدؒ سمیت دیگر شہدا کی قبریں سد سکندری کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہمارے اندرونی اختلافات گھر کا معاملہ ہے، کوئی بیرونی دشمن اس سے فائدہ اٹھانے کی خوش فہمی میں نہ رہے۔ خدا نہ کرے جنگ کا مرحلہ آئے، اگر ایسا ہوا تو اس ملک کا ایک ایک فرد سپاہی بن جائے گا۔ مودی جی ہمیں یہ بات بھی دھیان میں رکھنی چاہئے کہ جنگ اب توپ بندوق کی بات رہی بھی نہیں ہے۔ پاکستان اب رب تعالیٰ کے فضل و کرم سے نیو کلیئر پاور ہے۔ ہم اپنے تحفظ اور سلامتی کیلئے ہر حربہ اختیار کر سکتے ہیں۔ ضرورت پڑی تو نیوکلیئر ٹیکنالوجی بھی استعمال کرنے سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔
اس موقعہ پر ایئر مارشل شربت علی چنگیزی بہت یاد آتے ہیں، جنہوں نے اخبار نویسوں کو بریفنگ دیتے ہوئے ایک حقیقت بیان کر دی تھی۔ ایئر ہیڈ کوارٹر میں بریفنگ تھی، ایک اخبار نویس نے سوال کیا کہ ’’اگر خدا نخواستہ بھارت نے کہوٹہ کو نشانہ بنایا تو ہم کیا کریں گے؟‘‘ محترم شربت علی چنگیزی نے کہا کہ اگر ایسا ہوا (خدا نہ کرے) تو یہ معلوم کرنا ممکن نہیں کہ آنے والا نیوکلیئر ہیڈ وار لے کر آ رہا ہے یا نہیں، مگر ہم فرض کریں گے یہ نیو کلیئر ہیڈ وار لے کر آ رہا تھا۔ ہم جواب اسی صورت میں دیں گے اور ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر ہم ’’صورت گڑھ‘‘ کو نشانہ بنائیں گے۔
یقین رکھنا چاہئے کہ یہ جو کچھ بھی ہے، جنگ کا آغاز نہیں ہے، بلکہ جیتی جاگتی انسانی آبادیوں کو ایٹمی جنگ کے حوالے کرنے کا آغاز ہے۔ آج کی مہذب دنیا بھارت تو کیا کسی بڑی طاقت کو ایٹمی جنگ چھیڑنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ روس، امریکہ، عراق اور ایران کے پاس تباہ کن مہلک ہتھیار موجود ہیں۔ ایران، عراق جنگ دس سال جاری رہی، لیکن دونوں میں سے کوئی ملک بھی مہلک ہتھیاروں کے بند صندوق کا تالہ کھولنے کی جرأت نہ کر سکا۔ روس جیسا ملک اپنی فوجی اور مادی قوت کے ساتھ دس سال تک جارحیت کرتا رہا۔ اس کے پاس سینکڑوں ایٹم بم موجود ہیں، لیکن جب اس نے کابل چھوڑا تو اسے کہیں پناہ نہ ملی اور سترہ ٹکڑوں میں بٹ کے رہ گیا۔ امریکہ جس نے (چھوٹے لڑکے) ایٹم بم کا نام رکھا تھا، جو اس نے جاپان پر گرایا، ویت نام اور افغانستان میں ہلاک خیز جارحیت کرنے کے باوجود ایٹم بم استعمال کرنے کی جرأت نہیں کر سکا اور خود مودی جو مادہ پرست دنیا کا ترجمان ہے اور دنیا بھر کی کاروباری شخصیات اس کی پشت پناہ ہیں، اسے ایٹم بم استعمال کرنے کی اجازت کیسے دے سکتی ہیں۔ رہی بات روایتی جنگ کی، پاکستان کی فوج دہشت گردوں کے خلاف پہاڑوں، صحرائوں اور ہر مشکل مقام پر دشمن سے لڑنے کا نایاب تجربہ رکھتی ہے، اس کے باوجود امن کی داعی ہے۔ پاک فوج نے بھی جنگ کی کبھی خواہش ظاہر نہیں کی، مگر تیار ہمیشہ رہتی ہے۔ ایک جھٹکے میں بھارت کے دو طیارے گرانے کا مشاہدہ پوری دنیا کر چکی ہے۔ دو طیارے گرنے کے بعد ہی مودی اور اس کی وزیر خارجہ نے گھٹنے ٹیک دیئے اور پورا ہندوستان اپنے زخم سہلا رہا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ جس طرح پاکستان نے گرفتار بھارتی پائلٹ کے زخموں پر مرہم رکھا، بھارت کی قیادت بھی اس خطے کو زخمی کرنے کے بجائے غربت ختم کرنے پر توجہ دے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment