مسلم مخالف قوتوں نے امریکی کانگریس میں مسلم خواتین کا داخلہ دل سے تسلیم نہیں کیا۔ امریکی تاریخ کی پہلی بار منتخب ہونے والی دو مسلم ارکان محترمہ الحان عمر اور رشیدہ طلیب مسلم مخالف لابی کے نشانے پر ہیں۔ چند ہفتہ پہلے الحان نے امریکی سیاست پر یہودی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا:
Its all about the Benjamin Babyامریکہ میں 100 ڈالر کے نوٹ پر سیاسی رہنما اور ریاست پنسلوانیہ کے سابق صدر (گورنر) بنجامن فرینکلن (Benjamin Franklin) کی تصویر ہوتی ہے۔ اسی بنا پر Its all about the Benjamin پیسے کے کمال کے لئے امریکہ میں ایک ضرب المثل ہے۔ یعنی امریکی ایوانِ نمائندگان کی یہ جوانسال رکن کہنا چاہ رہی تھیں کہ امریکہ کے دولت مند یہودی ترغیب کاروں (Lobbyist) کے ذریعے اسرائیل کے حق میں بھاری رقوم خرچ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں اسرائیل کے اثرات بہت گہرے ہیں۔
شدید ہنگامے کے بعد الحان عمر نے معذرت کرلی۔ لیکن گزشتہ دنوں انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں (پیسے کے بل پر) سیاسی اثرو رسوخ کی بات کر رہی تھی۔ اس ملک میں کسی دوسرے ملک سے وفاداری کوئی بری بات نہیں سمجھی جاتی۔‘‘
الحان عمر ایوان نمائندگان کی مجلس قائمہ برائے خارجہ امور کی رکن ہیں۔ کل کمیٹی کے سربراہ ایلیٹ اینجل (Eliot Engel) اس بیان پر آپے سے باہر ہوگئے اور فرمایا: ’’الحان کا یہ بیان انتہائی شرمناک اور تکلیف دہ ہے۔ میں انہیں یہ بیان واپس لینے اور معذرت کی ہدایت کرتا ہوں۔ الحان کو چاہئے کہ وہ اپنی گفتگو پالیسی امور تک محدود رکھیں اور ان جملوں سے پرہیز کریں، جس کی خارجہ امور کی کمیٹی اور امریکی کانگریس میں کوئی جگہ نہیں۔‘‘
گویا ایلیٹ اینجل نے الحان کو کانگریس سے نکالنے کے لئے کارروائی کے آغاز کا عندیہ دے دیا۔
اس سے پہلے ایوان نمائندگان کے قائدِ حزب اختلاف اور ریپبلکن پارٹی کے رہنما کیون میکارٹھی (Kevin McCarthy) کہہ چکے ہیں کہ اگر الحان عمر اور کانگریس وومن رشیدہ طلیب نے اسرائیل کے خلاف اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو انہیں سزا بھگتنی پڑے گی۔
لڑائی میں زیرو قوم کا ہیرو!
ہفتے کے دن سارے ہندوستان کے اسکولوں میں پاکستان میں گرفتار ہونے والے ونگ کمانڈر ابھی نندن کا دن منایا گیا۔ طلبہ نے ابھی نندن سے یک جہتی کے لئے اپنے چہروں پر اس جیسی مونچھوں کا سوانگ بھرا۔ دشمن کی قید سے سپاہی کی واپسی یقیناً اطمینان کا باعث ہے، لیکن وطن کے لئے قربان ہونے کے بجائے جنگی قیدی بن جانا حمیت کے خلاف ہے۔ جب ابھی نندن کے طیارے کو نشانہ بنایا گیا، اس وقت وہ پاکستان کی سرحد میں چند ہی میل اندر تھا اور اگر وہ چاہتا تو جہاز سے فوراً کود پڑنے کے بجائے خستہ طیارے کو اپنے ملک کی سرحد کے اندر لے جا سکتا تھا۔ اس صورت میں اس کی جان کو تو خطرہ تھا، لیکن اس طرح وہ جنگی قیدی بننے کی ذلت سے بچ سکتا تھا۔ اپنی جان پر ملی غیرت کو قربان کرنے والے کی واپسی کا جشن ہمیں تو بڑا عجیب سا لگا۔ اس کے مقابلے میں شجاعت کی ایک مثال ہمارے نوجوانوں کے لئے۔
1965ء کی جنگ کے دوران یہ اطلاع ملی کہ ہلواڑہ (ہندوستانی پنجاب) کے اڈے سے طیاروں کی ایک بڑی ٹکڑی پاکستان پر حملے کے لئے روانہ ہونے کو ہے۔ پاکستانی فضائیہ نے فیصلہ کیا کہ طیاروں کے اس جھنڈ کو ہندوستان کے اندر ہی نشانہ بنایا جائے۔ چنانچہ اسکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی کی قیادت میں سیسل چودھری اور فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسین اپنے جہازوں کو لے کر ہلواڑہ پہنچ گئے۔ پاکستانی شاہینوں کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی 6 ہندوستانی ہنٹر فضا میں آچکے تھے۔ فضائی معرکہ یا Dog Fight میں سرفرار رفیقی نے 3 ہنٹروں کو شکار کرلیا، جس کے بعد ان کے طیارے کی گن میں خرابی پیدا ہوگئی، جس کی وہ سے وہ مقابلہ نہ کر سکے اور ایک ہنٹر کا نشانہ بن گئے۔ اسکواڈرن لیڈر نے پیراشوٹ سے کودنے کے بجائے اپنا جلتا ہوا طیاہ بھارتی طیاروں پر گرا کر دشمن کے 6 جہاز بھسم کردیئے۔ اسی دوران سیسل چودھری نے دو ہنٹر گرا دیئے۔
بدقسمتی سے Dog Fight میں یونس حسین کا طیارہ ایک ہنٹر کا نشانہ بن گیا اور اس میں آگ لگ گئی۔ اسکوادڑن لیڈر سرفراز رفیقی کی شہارت کے بعد سیسل چودھری وہاں سب سے سینئر تھے۔ انہوں نے جب یونس کا طیارہ جلتے ہوئے دیکھا تو پاکستان کی طرف واپس مڑتے ہوئے اسے حکم دیا کہ پیراشوٹ سے کود جائو۔ یونس کے پاس مہلت بھی تھی، مگر اس بانکے جوان نے پرعزم لہجے میں سیسل چودھری کو جواب دیا: ’’سر! حکم عدولی کی معذرت چاہتا ہوں، لیکن زمین پر مجھے دشمن کے طیارے نظر آرہے ہیں، جو میرے وطن کی طرف پرواز کے لئے تیار ہیں، میں انہیں تباہ کرنے جا رہا ہوں۔‘‘ جس کے بعد یونس نے پنا جلتا ہوا طیارے ہلواڑہ کے رن وے پر گرا دیا۔ ہیرو تو ایسے ہوتے ہیں۔
(نوٹ: اب آپ ہماری فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں)
٭٭٭٭٭