سیاست کا مندر

انڈیا ٹوڈے کے اجتماع میں بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی کا لہجہ اس قدر تھکا ہوا تھا، جس قدر تھکا ہوا ہوتا ہے۔ وہ یاتری جو بغیر نروان کے ناکام گھر لوٹتا ہے۔ بھارت کے بڑے میڈیا گروپ کے کانکلیو کو مخاطب ہوتے ہوئے نریندر مودی نے کانگریس کی قیادت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اپنی اس قوم پر بھی تنقید کی، جو سوشل میڈیا پر بھارتی فوج کو مذاق کا نشانہ بنا رہی ہے۔ نریندر مودی بار بار اصرار کر رہا تھا کہ اس پر بھلے تنقید کی جائے، مگر بھارت اور سینا کی توہین نہ کی جائے۔ نریندر مودی کے اس مؤقف کو بھارت میں بہت جلد تلخ تنقید کے تیزاب سے گزارا جائے گا۔ ارون دھتی رائے نے اس کی ابتدا کر دی ہے۔ ارون دھتی رائے بارش کی پہلی بوند ہے۔ ارون دھتی رائے کے بعد مودی کو اس طوفانی تنقید کا منتظر رہنا چاہیے، جو اس کو سوکھے پتے کی طرح اڑا کر لے جائے گی۔ اس وقت بھارتی دانشوروں اور سوچنے سمجھنے والے متوسط طبقے میں مودی حکومت کے لیے نفرت کا لاوا ابل رہا ہے۔ بھارت کی اکثریت اب تک دور دراز دیہاتوں کے پس ماندہ حالات میں جکڑی ہوئی ہے، مگر بھارت کے شہروں میں جس نئی مڈل کلاس نے جنم لیا ہے، اس کی اکثریت دہریت کو چھونے والی لبرل سوچ کی مالک ہے۔ اس مڈل کلاس کے نوجوانوں کے لیے گائے تو کیا، بھارت بھی ماتا نہیں ہے۔ ان کے لیے بھارت محض ایک ملک ہے۔ ایک ایسا ملک جو ان کے ٹیکس پر چلتا ہے۔ اگر اس ملک سے ان کو فائدہ نہیں تو پھر وہ اس ملک کا اس طرح احترام نہیں کر سکتے، جس طرح کسی دیوی یا دیوتا کی مورتی کا احترام کیا جاتا ہے۔ بھارت اس مودی کے لیے مقدس ہو سکتا ہے، جو شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی ایک برہم چاری کی زندگی جی رہا ہے۔ اس مڈل کلاس کی نظر میں نریندر مودی ایک نارمل شخص نہیں۔ بھارت کی اسٹیبلشمنٹ نے مودی کو پروان چڑھایا اور اسے پردھان منتری بھی بنایا، مگر وہ اسٹیبلشمنٹ مودی کی معرفت ’’اچھے دن‘‘ نہیں لا سکی۔ اب اسٹیبلشمنٹ مودی سے مایوس ہے۔ مودی کی پوری کوشش ہے کہ اسے اقتدار کی ایک باری پھر مل جائے، مگر بھارت کی مڈل کلاس کے تیور دیکھ کر اسٹیبلشمنٹ اس شخص کو دوبارہ اقتدار میں لانے کا رسک اٹھانے کے موڈ میں نہیں، جس نے بھارت کی وحدت کو مضبوط کرنے کے بجائے مزید کمزور کیا ہے۔
مودی حکومت نے صرف انتہا پسند ہندوؤں کو خوش کرنے کی قیمت پر پورے ملک کو ناراض کیا ہے۔ وہ انتہا پسند ہندو بھارت کے لیے ایسا کردار ادا نہیں کر سکتے جو کردار ملکوں کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے اہم ہوا کرتا ہے۔ بھارت کی مڈل کلاس اچھی طرح سے جانتی ہے کہ اگر انہوں نے مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو حقوق نہیں دیئے تو پھر بھارت کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ وہ مڈل کلاس جن کے ووٹ تو تھوڑے ہیں اور شاید وہ انتخابات میں ووٹ دینے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں پر جاتے بھی نہیں، لیکن اس سوشل میڈیا کے دور میں وہ ملک کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ مڈل کلاس جو چھوٹے چھوٹے ویڈیو کلپس اور نئے نعروں کی معرفت بھارت میں اہم حیثیت رکھتی ہے۔ وہ مڈل کلاس کسی بھی طرح کے کلیشے پر یقین نہیں رکھتی۔ وہ مڈل کلاس تو بھگوان پر بھی مذاق کرتی ہے۔ اس لیے وہ مڈل کلاس اپنے ملک کو بھگوان بنا کر پوجنے کے حق میں نہیں۔ اس مڈل کلاس کے لیے ملک ایک مورتی نہیں۔ اس مڈل کلاس کے لیے ملک ایک گاڑی کی طرح ہے۔ اگر وہ گاڑی بار بار خراب ہوتی ہے تو اس سے تنگ ہونے کا اظہار کرنے میں کوئی
ہچکچاہٹ نہیں کرنی چاہئے۔ اس مڈل کلاس کی نظر میں نریندر مودی بھی ایک ڈرائیور سے زیادہ نہیں۔ اگر وہ ڈرائیور ملک کو اچھی طرح سے نہیں چلا سکتا تو اس کی سیٹ پر وہ کسی اور کو لانے کے حق میں ہوتا ہے۔ نریندر مودی کو یہ بات صرف محسوس نہیں ہو رہی، بلکہ وہ جان چکا ہے کہ اس کا اقتدار اب ختم ہونے والا ہے۔ وہ الیکشن میں ہارنے کے ڈر سے بری طرح بوکھلایا ہوا ہے۔ نریندر مودی کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ اس نے اب تک ملک کو کوئی بھی ایسی پالیسی نہیں دی، جس کی تعریف کی جائے۔ نریندر مودی کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ وہ باہر سے بہت بڑی سرمایہ کاری لائے گا، مگر وہ اس سلسلے میں بھی ناکام ہوا ہے۔ مودی روانی سے تقریر تو کر سکتا ہے، مگر وہ روانی سے حکومت نہیں چلا سکتا۔ مودی کی حکومت کو نہ صرف داخلی، بلکہ خارجی سطح پر بھی سخت تنقید کا سامنا ہے۔ مودی بھارت پر ایک بوجھ بنا ہوا ہے۔ بھارت کی مڈل کلاس نریندر مودی سے نجات حاصل کرنے کے سلسلے میں سنجیدہ ہے۔
نریندر مودی کی سب سے بڑی ناکامی کشمیر ہے۔ بھارت کی کسی بھی حکومت نے کشمیر کے مسئلے پر اس قدر ناکامی کا مظاہرہ نہیں کیا، جس قدر نریندر مودی نے کیا ہے۔ مودی سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں جب بھی مزاحمت شدت اختیار کرتی تھی، تب اس دور کی حکومت اس کو علاقائی ایشو بنانے سے بھی بچا لیتی تھی۔ مودی کی حکومت کے دوران کشمیر علاقائی تو کیا، عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان چند دنوں کی کشیدگی نے پوری دنیا کو پیغام دیا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین تنازعہ کی اصل جڑ وادی کشمیر کی سرزمین میں ہے۔ اگر کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تو بھارت میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ یہ بھارت کی بدقسمتی ہے کہ اب کشمیر کی تحریک کو کوئی بھی کنٹرول نہیں کر سکتا۔ بھارت کا پاکستان پر مسلسل دباؤ رہا ہے کہ وہ کشمیری تحریک میں پیدا ہونے والی شدت کو کم کرے، مگر پاکستان بھارت کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اب وہ بھی کشمیر کی تحریک کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس وقت کشمیر کی مثال افغان طالبان جیسی بن گئی ہے۔ امریکہ پاکستان پر برسوں سے دباؤ ڈالتا رہا کہ وہ افغان طالبان کو امریکہ کے حق میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرے اور پاکستان امریکہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ افغان طالبان کے ساتھ اس کے تعلقات اچھے ضرور ہیں، مگر وہ تعلقات ایسے نہیں کہ پاکستان ان کو مزاحمت نہ کرنے پر مجبور کر سکے۔ برسوں کے بعد امریکہ کو یہ بات سمجھ میں آئی کہ افغان طالبان کے آگے پاکستان بھی بے بس ہے۔ بھارت بھی پاکستان پر مسلسل دباؤ بڑھاتا رہا ہے کہ وہ کشمیری حریت پسندوں کو بھارت سے بات چیت پر مجبور کرے، مگر پاکستان بھارت کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ اب کشمیری پاکستان کی ہر بات نہیں مانتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیری حریت پسند اور کشمیری عوام پاکستان کو عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں، اس سے محبت کرتے ہیں، مگر وہ پاکستان کے فرمان بردار نہیں ہیں۔ وہ آزاد روح کے ساتھ آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ انہوں نے اس تحریک کے لیے اپنے ہزاروں بیٹوں کی قربانی دی ہے۔ انہوں نے اس تحریک میں ہر قسم کی قربانی دی ہے۔ انہوں نے اس تحریک میں نہ صرف اپنے خاندانوں کا خون بہتا ہوا دیکھا ہے، بلکہ انہوں نے اپنی ماؤں، بہنوں اور بچیوں کے سروں سے چادریں بھی اترتی اور چاک ہوتی دیکھی ہیں۔ وہ اس تحریک میں اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ اب پاکستان بھی ان کو پیچھے نہیں کرسکتا۔
کشمیر کو جلتے ہوئے انگارے میں تبدیل کرنے کے سلسلے میں نریندر مودی کا اہم کردار ہے۔ مودی کی ہندو شاؤنسٹ سوچ کشمیری کی دھار کو زیادہ تیز کر گئی ہے۔ مودی حکومت نے بھارت میں بکھرے ہوئے مسلمانوں کو تو خوف کا شکار بنایا، مگر کشمیر میں مسلمان پہاڑی ندیوں کی طرح سرکش ہیں۔ ان پر بھارتی حکومت کا کوئی بھی جبر کارگر نہیں ہو سکتا۔ اب کشمیریوں نے بھارت کو جڑوں سے ہلانے کے لیے جو فدائی راستہ اختیار کیا ہے، اس کا تصور کر کے بھارتی فوج کانپ اٹھتی ہے۔ بھارتی فوج نے برسوں سے صرف مال کھایا ہے۔ بھارتی فوج برسوں سے میدان میں نہیں اتری۔ بھارت نے اپنی فوج پر اپنے بجٹ کا بہت بڑا حصہ خرچ کیا ہے، مگر بھارتی فوج کو عیاشی کی لت پڑ گئی ہے۔ بھارتی فوج سختی یا مقابلہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اس کو زیادہ سے زیادہ ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔ بھارتی فوج اس بگڑے بچے کی طرح ہے، جس کو جنگ کے قیمتی کھلونے چاہئیں۔ بھارتی فوج کا خوف پہلے چھپا ہوا ہوتا تھا، مگر اب سوشل میڈیا کی وجہ سے وہ خوف آسانی سے منظر عام پر آجاتا ہے۔ بھارتی فوج کے سپاہی اپنے افسران کی پسپائی دیکھ کر کمزور پڑ جاتے ہیں۔ جب کوئی کل بھوشن کسی پرندے کی طرح بھارت مخالف بولی بولتا ہے، جب کوئی ابھی نندن گرفتار ہونے کے بعد اس قدر گھبرا جاتا ہے کہ نہ صرف پاکستان، بلکہ اپنے ملک میں بھی لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں تو فوج کا مورال کس قدر نیچے گر جاتا ہے۔
نریندر مودی نے انڈیا ٹو ڈے کے اجتماع میں اگر اپنی قوم سے اپنی فوج کی توہین نہ کرنے کی منت کی تو اس کا سبب بھارت میں جاری وہ طنز کی تحریک ہے، جس سے بھارتی فوج کی نفسیات زخمی ہو رہی ہے۔ بھارت کی فوج نے اپنی حکومت کو صاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ وہ جنگ نہیں کر سکتی۔ بھارتی فوج تعداد اور ہتھیاروں کی حوالے سے بڑی فوج ہو سکتی ہے، مگر بھارتی فوج میں لڑنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ وہ فوج جو صرف مراعات حاصل کرنے کی عادی بن چکی ہے، وہ فوج کشمیر جانے کے ڈر سے کانپ اٹھتی ہے۔ بھارتی فوج کی اس کمزوری کا احساس مودی حکومت کو بہت زیادہ مایوس کر گیا ہے۔ مودی حکومت کی مایوسی اس تقریر میں عیاں تھی، جس تقریر میں نریندر مودی نے بھارت کو مذاق کا موضوع نہ بنانے کی منت کرتے ہوئے اپیل کی کہ بھارت کو دیوتا سمجھا جائے۔ مودی کو بہت جلد یہ تلخ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ جب دیوتا کوئی فائدہ نہیں دیتا تو اس کی حیثیت ایک پتھر سے زیادہ نہیں رہتی۔ سیاست کے مندر میں بھارت نامی دیوتا کے وجود پر سوالیہ نشان ابھر آیا ہے۔ اس سوال کا جواب نریندر مودی کے پاس نہیں ہے۔٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment