پاک و بھارت کی کشیدگی کے حوالے سے دونوں ملکوں کے علاوہ عالمی ذرائع ابلاغ بھی نہایت سرگرم ہیں، جن کی وجہ سے متضاد دعوے اور نتائج اخذ کیے جا رہے ہیں، تاہم یہ امر طے شدہ ہے کہ بھارت کی انتہا پسند نریندر مودی حکومت کو خود اپنے ملک میں زبردست تنقید اور سبکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، لیکن اس نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالیہ کشیدگی کو دور کرنے کے لیے کسی بھی دوسرے ملک کی ثالثی کو مسترد کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں روس کا نام زیر گردش تھا، لیکن روس میں تعینات بھارتی سفیر ونکاتش ورما کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان صورتحال تیزی سے بہتر ہو رہی ہے۔ روس نے اول تو ثالثی کی پیشکش ہی نہیں کی اور ایسی کوئی تجویز سامنے آئی تو ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔ ادھر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے پاکستان کی جانب سے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی واپسی کا خیر مقدم کرتے ہوئے پیشکش کی ہے کہ ان کا ملک دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں سمیت کئی ممالک ستر برسوں سے وہی گھسا پٹا مطالبہ دہرا رہے ہیں کہ دونوں ممالک مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل حل کریں، جن میں مسئلہ کشمیر بھی شامل ہو۔ عالمی رہنما اپنے اس بیان کی جگالی سے پاکستان کو ہمیشہ بیوقوف بناتے چلے آ رہے ہیں اور اس کی تائید ہماری حکومتیں بھی آنکھ بند کر کے کرتی ہیں۔ کیا دنیا کو نہیں معلوم کہ مذاکرات دو فریقوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک فریق گفت و شنید کے لیے تیار ہی نہ ہو تو دوسرا فریق اسے آمادہ کرنے سے رہا۔ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ٹھکرانے کے علاوہ کسی تیسرے ملک کی ثالثی کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں مسلم ممالک کو فلسطین اور کشمیر کے مسائل حل کرانے میں متحرک اور فعال ہوکر اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت تھی، لیکن ستاون مسلمان ملکوں پر مشتمل تنظیم او آئی سی زبانی کلامی اعلانات اور قراردادوں سے آگے کچھ نہیں کرتی۔ ہفتے کو ابو ظہبی میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا چھیالیسواں اجلاس ختم ہوا تو بڑی عجیب صورت حال دیکھنے میں آئی۔ ایک طرف تنظیم نے پاکستان کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد منظور کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا میں امن کا خواب پورا کرنے کے لیے مسئلہ کشمیر کو حل کرنا از بس ضروری ہے۔ قرارداد میں بھارت کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ بھارت دھمکیاں دینے اور طاقت کے استعمال سے باز آ جائے، ورنہ … اس کے آگے ستاون مسلم ممالک کو یہ کہنے کی جرأت نہیں ہوئی کہ ’’ورنہ مسلمانان عالم اپنے کشمیری بھائیوں اور پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر بھارت کے مظالم اور جارحیت کا مقابلہ کر کے اسے ناقابل فراموش سبق سکھا دیں گے۔‘‘ مسلمان ملکوں کی مصلحت پسندی یا بزدلی کا نمایاں ثبوت یہ ہے کہ او آئی سی کے اختتامی اجلاس پر جاری کیے جانے والے اعلامیے میں مسئلہ کشمیر اور بھارتی مسلح افواج کے نہتے کشمیری باشندوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ پاکستانی وفد نے صرف کھڑے ہو کر احتجاج کرنے پر اکتفا کیا۔ یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے جدہ میں کشمیر رابطہ گروپ کے اجلاس میں جو ترکی کی سربراہی میں منعقد ہوا تھا، کشمیر کے حوالے سے پاکستانی مؤقف کی واضح طور پر عکاسی اور بھارتی افواج کے مظالم کی مذمت کی گئی تھی۔ پاکستان میں حکومت کسی کی بھی ہو، افواج پاکستان ہمیشہ مضبوط و مستحکم اور دشمن کے خلاف پرعزم رہی ہیں۔ عوام کا اتحاد بھی قابل دید ہوتا ہے، لیکن سفارتی کارکردگی کی ناکامی سے وطن عزیز کو اکثر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میدان میں جیتی ہوئی جنگ پر پاکستان کو سفارتی ناکامی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اچھی سفارت کاری حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے۔ اس کے باوجود جنرل راحیل شریف سے لے کر موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تک فوج نے اس محاذ پر بھی کارکردگی دکھائی ہے۔ اس وقت چین اور ایران خاموش ہیں تو سعودی وزیر خارجہ بھارت کی تنی ہوئی چشم ابرو کو دیکھ کر پاکستان کا دورہ ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر چکے ہیں۔ ادھر ہمارے حکمراں ٹولے کا حال یہ ہے کہ کشیدگی کو بڑھانے میں بھارت کی بدترین ناکامی کے باوجود وہ صرف اس بات پر خوش ہیں کہ دنیا بھر میں نریندر مودی کی مذمت ہو رہی ہے۔ یہ کام تو خود بھارتی باشندوں کی اکثریت بھی کر رہی ہے۔ عوام کے بنیادی مسئلے پر توجہ دینے اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے بجائے حکمراں ٹولے کے خوشامدی، عمران خان کو اس ’’کارنامے‘‘ پر نوبل انعام کا حقدار قرار دے رہے ہیں، جو انہوں نے بھارتی پائلٹ کو غیر مشروط چھوڑ کر انجام دیا ہے۔ اتنی سی بات پر کسی کو نوبل انعام ملنے لگے تو ہر ایرا غیرا نتھو خیرا اس کا مطالبہ کرنے لگے گا۔ بھارتی طیاروں کو بھگانے اور مار گرانے کا سہرا عمران خان کے نہیں، پاک فوج کے سر جاتا ہے۔ فواد چوہدری کو چاہئے کہ وہ حق گوئی اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں۔ یوں بھی نوبل انعام کے لیے کسی پاکستانی کا قادیانی، شریعت مخالف اور ملالہ کی طرح امریکی ایجنٹ ہونا ضروری ہے۔
تبدیلی کا دعویٰ غلط نہیں
تحریک انصاف اور عمران خان کی حکومت کا اندرون ملک مہنگائی کے اپنے ہی ریکارڈ توڑنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ گزشتہ روز پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کے نرخوں میں ایک بار پھر اضافہ کیا گیا، جبکہ تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح چار سال چھ ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ پچھلے سال فروری میں مہنگائی تین اعشاریہ آٹھ فیصد تھی، جو اس سال چھ اعشاریہ چار چھ فیصد ہو گئی، جبکہ اس ماہ افراط زر کی شرح آٹھ اعشاریہ دو فیصد رہی۔ اب تو ماہرین معاشیات ہی نہیں، ہر خواندہ و نا خواندہ شہری جانتا ہے کہ روپے کی قدر کم اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے مہنگائی کا شیطانی چرخہ ازخود چل پڑتا ہے، جس سے عوام ہی متاثر ہوتے ہیں۔ اسی طرح افراط زر بڑھنے سے بھی مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ دسمبر دو ہزار سترہ سے یعنی سوا سال کے دوران روپے کی قدر میں پینتیس فیصد کمی ہوئی۔ موجودہ حکومت کو پاکستانی کرنسی کی قدر کم کرنے اور امریکی ڈالر کی قیمت سب سے زیادہ بڑھانے کا اعزاز حاصل ہے، جس پر اسے کوئی ندامت نہیں، بلکہ وہ سارا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دیتی ہے۔ رواں مالی سال یعنی موجودہ حکومت کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران مہنگائی چھ اعشاریہ چار فیصد زیادہ ہوئی۔ ایک جائزے کے مطابق ٹماٹر، مچھلی، دالیں، انڈے، گھی اور تازہ دودھ کے نرخوں میں تین سے ایک سو انہتر (169) فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے باوجود وطن عزیز کے لوگ تبدیلی کا دعویٰ تسلیم نہ کریں تو عمران خان یا ان کی حکومت کیا کر سکتی ہے؟
٭٭٭٭٭