’’سدا بہار دوست‘‘

وہ مسکرا رہے تھے۔ انہوں نے اپنے ملازم کو ہیٹر کی حدت تیز کرنے کے لئے کہا اور آرام کرسی پر جھولتے ہوئے کہنے لگے: ’’یہ 80ء کی دہائی کی بات ہے جب افغانستان میں روس کے قدم روکنے کے لئے امریکہ کو ہماری ضرورت تھی اور وہ مجبوراً ہمارے نخرے بھی اٹھا رہا تھا۔ ان دنوں امریکہ کے fighting falcon نے دنیا میں دھوم مچا رکھی تھی۔ سنگل انجن کا یہ سپر سانک فائٹر کثیر المقاصد تھا۔ یہ مشین مختلف نوعیت کے مشن میں کام آسکتی تھی۔ وزن میں ہلکا تھا۔ پلٹ کر جھپٹنے میں کمال رکھتا تھا۔ ریڈار بہترین تھا۔ میزائل اٹھا کر بھاری نہیں ہو جاتا تھا۔ ضیاء صاحب نے موقع مناسب جانا اور امریکہ سے ایف سولہ کی فرمائش کردی۔ بھارت کو پتہ چلا تو اس نے بہت ہاتھ پاؤں مارے۔ ہمارے خلاف زبردست لابنگ کی۔ کہا کہ خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔ جس کی براہ راست ذمہ داری امریکہ پر ہی ہو گی، لیکن ان دنوں میں ہم امریکہ کی good book میں تھے، اس لئے ہمارے لاڈ اٹھانے ضروری تھے اور میں آپ سے عرض کروں، ضیاء صاحب تھے تو فوجی، لیکن سفارت کاری میں کمال کا ذہن رکھتے تھے۔ چھوٹے سے قد کے سادہ مزاج بظاہر غیر متاثر کن شخصیت کے مالک تھے، لیکن یہ غیر متاثر کن شخصیت کا مالک بڑی صلاحیتیں رکھتا تھا۔ انہوں نے ایف سولہ طیاروں کی بات کی ہی تھی کہ اسرائیلی، بھارتی لابی حرکت میں آگئی۔ انہوں نے جو جو کیا اور جس جس سطح پر کوششیں کیں، یہ الگ موضوع ہے۔ مختصراً یہ کہ یہ طیارے پاکستان آگئے اور ایک بات اور بھی سنو۔ یہ جو اپنے ایئر مارشل شاہد لطیف ہیں ناں، جو آج کل نیوز چینلز پر تجزیئے بھی دیتے رہتے ہیں۔ یہ اس کی فلائینگ کی تربیت لینے کے لیے امریکہ جانے والوں میں شام تھے۔ امریکیوں کے نزدیک فائٹنگ فالکن کے لئے دس ماہ کی ٹریننگ ضروری تھی، لیکن شاہد لطیف تین مہینوں میں جا کر کاک پٹ میں بیٹھ گئے اور امریکی حیران رہ گئے‘‘۔
اتنا بتا کر وہ اپنے اسٹڈی روم کی بڑی سی کھڑکی سے نیلگوں آسمان کو دیکھنے لگے۔ دو روز کی مسلسل جھڑی کے بعد اسلام آباد کی رنگت کچھ اور نکھر آئی تھی۔ وہ کھڑکی کے پار نیلے آسمان میں جانے کیا دیکھ رہے تھے۔ سیلانی تو بس بے چینی سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ سیلانی کی جانب متوجہ ہوئے: ’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ بیس طیاروں کا سودا ہوا تھا، مگر امریکہ نے سات طیارے ہی دیئے، باقی روک لئے اور پیسے بھی نہیں دیئے، ان انڈینز کی وہاں لابی بڑی strong ہے۔ ہمارے والے تو منمناتے رہتے ہیں۔ امریکیوں نے بدنیتی دکھائی، پھر ضیاء صاحب کریش ہوگئے۔ ان کے بعد تو یہ معاملہ back yard میں رکھے کاٹھ کباڑ کا سامان جیسا ہوگیا۔ افغان جنگ کے بعد امریکہ کو بھی ہماری ضرورت نہیں رہی۔ اس نے بھی آنکھیں پھیر لیں۔ یہ معاملہ چلتا رہا اور پھر 1993ء میں ایسا ہوا کہ ہمارے ایف سولہ طیاروں کو مرمت کی ضرورت پڑ گئی۔ امریکہ سے بات کی۔ مجھے یاد پڑتا ہے امریکہ نے کوئی 658 ملین ڈالر کا بل ایڈوانس میں لیا اور پھر جتنے دن یہ طیارے وہاں رہے، امریکیوں نے اس کا کرایہ بھی وصول کیا۔ نپولین نے انگریزوں کو دکانداروں کی قوم کہا تھا۔ میں کہتا ہوں دکانداروں کی قوم تو امریکیوں کو کہنا چاہئے۔ دکاندار اور بدنیت دکاندار… ہماری ایڈوانس ادائیگی کے باوجود امریکہ نے ہمارے طیارے روک لئے، تب ہمارے بڑے یہاں سرجوڑ کر بیٹھ گئے کہ اس طرح کام نہیں چلے گا۔ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ ہم نے اس میدان میں آنے کا فیصلہ کیا۔ ایف سترہ تھندڑ ڈیزائن کیا گیا، مگر سب سے اہم مسئلہ اس کے انجن کا تھا۔
ہم اس معیار کا انجن بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ افغان جنگ کی وجہ سے روس سے تعلقات برائے نام تھے۔ فرانس اور انگلینڈ امریکہ کی مرضی کے بغیر کبھی ہمیں انجن کا پرزہ بھی نہ دیتے۔ ایسے وقت میں لے دے کر ہمارے پاس صرف ایک ہی ملک تھا، جس پر اعتماد اعتبار کیا جا سکتا تھا اور وہ تھا چین۔ چین کے ساتھ مل کر یہ پروجیکٹ شروع کیا گیا۔ چینیوں اور پاکستانیوں کی مشترکہ محنت سے یہ مشین air born ہوئی تو ایسے خوشی ہوئی، جیسے اپنی محنت ٹھکانے لگ گئی ہو، جیسے میرا بیٹا میری جگہ رسالپور اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ کے بعد کیپ اچھال رہا ہو۔ جب فوجی کا بیٹا فوجی بنتا ہے ناں تو یہ خوشی وہی جانتا ہے cant explain in words مجھے خوشی ہے کہ اس مشن میں میرا بھی کچھ حصہ ہے اور پھر ستائیس فروری کو تو دل خوش ہو گیا۔ مجھے کب سے اس دن کا انتظار تھا۔ اسکواڈرن لیڈر حسن محمود نے ایف سترہ سے بھارتی مگ نہیں گرایا، بلکہ ایف سترہ کے قابل بھروسہ ہونے پر اسٹمپ لگا دی ہے۔ یہ ایف سترہ کے بننے سے بڑی خبر ہے کہ ایف سترہ نے مگ اکیس گرایا ہے۔ اب ذرا ڈیفنس میگزین کے ٹائٹل دیکھئے گا۔ کل میری نظر سے airforces کی ہیڈ لائن گزری ہے۔ دل خوش ہو گیا:
Firts air to air kill for JF-17?” "سچ میں مزہ آگیا۔ بی بی سی میں شری ناتھ لکھتا ہے: ’’جس طرح بھی گھما کر دیکھیں، انڈیا پاکستان کے حملے سے حیرت زدہ رہ گیا۔ یہ سب غیر معمولی ہے۔‘‘
اتنا کہہ کر اک عرصہ فضاؤں میں لڑاکا طیارے اڑانے والے ریٹائرڈ ہواباز نے سیلانی کو سمجھانے کے سے انداز میں کہا ’’مگ اکیس پرانا ہے، لیکن بھارت نے اسے کافی اپ گریڈ کیا ہے، آپ اسے بوڑھا طیارہ نہیں کہہ سکتے، لیکن اپنے ’’بچے‘‘ نے اسے بے بس کر دیا۔ ایک فائٹر پائلٹ کے لئے ان لمحات سے خوش کن کچھ نہیں ہوتا، جب وہ ٹارگٹ کو لاک کرکے وائرلیس پر فائر کی اجازت مانگتا ہے، لیکن یہاں اس سے اچھی بات یہ کہ اس معرکے میں JF-17 تھنڈر کی اچھی طرح جانچ ہوگئی۔ دنیا کو پتہ چل گیا کہ یہ کیا بلا ہے۔ یہ دشمن طیارے کو لاک کرکے اس کے پیچھے ٹھیک سے چپک جاتا ہے اور بروقت تیزی سے درست ٹرن لیتا ہے۔ زیادہ وقت نہیں لگاتا۔ اس کا ٹارگٹ فائنڈر ریڈار بھی 10/10 نکلا، اس کا دشمن سے فاصلہ ناپنے والا لیزر بھی برابر کام کرتا ہے، ٹھیک ٹھیک ناپ کر فاصلہ بتاتا ہے، ریڈار پر دشمن کا جہاز بھی بالکل صاف نظر آتا ہے، اس کے لئے خراب موسم بادل وادل بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ میزائل ٹھیک نشانے پر جا کر deadly kiss کرتا ہے۔ مگ اکیس پر جب میزائل فائر ہو تو اسے پتہ چل جاتا ہے، لیکن میرا خیال ہے میزائل کی رفتار تین سے چار میک ہوگی، اسے سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا، جس طرح مگ اکیس کا ملبہ دیکھا، لگتا ہے فضا میں ہی اس کے پرزے پرزے ہو گئے تھے۔ یہ ایف سترہ کی بہترین جانچ اور ہمارے پائلٹ کی مہارت اور حوصلے کا بھی امتحان تھا۔ دونوں میں دونوں نے سو سو نمبر لئے ہیں۔ ایکسرسائز میں ائیر شو میں وہ impact نہیں پڑتا، جو میدان جنگ میں بنتا ہے۔ تھنڈر لکی ہے کہ اسے اتنی جلدی یہ موقع مل گیا اور میں آپ کو بتاؤں ابھی تو اس نے بہت اپ گریڈ ہونا ہے اور اسے چائنا اور پاکستان کا بہت پیار ملنا ہے۔ یہ بڑی طوفان چیز بنے گا۔ آج جتنا پاکستان خوش ہے، اتنا ہی چین بھی خوش ہو گا اور مجھے پتہ ہے، وہ بہت خوش ہے۔‘‘
سیلانی کے میزبان کا کہنا تھا کہ: ’’جیل اور مشکل وقت کا ساتھ کسی کو کبھی نہیں بھولتا۔ چین بھی نہیں بھولتا کہ جب وہ دنیا سے الگ تھلگ تھا تو پاکستان ہی اس کے لئے کھڑکی اور دروازہ بنا تھا۔ پی آئی اے دنیا کی پہلی کمرشل ایئر لائن تھی، جس کے جہاز نے چین کی زمین کو چھوا تھا۔ ایک عرصہ تک چین جانے کے لئے پاکستان آنا پڑتا تھا۔ پھر خطے کی صورت حال کچھ ایسی بن گئی کہ پاکستان اور چین قریب آتے چلے گئے۔ بھارت نے تبت کے مسئلے پر چین سے سینگ اڑا کر پاکستان اور چین کو مزید قریب کر دیا اور وہ کہتے ہیں ناں دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے اس فارمولے سے پاکستان چین کا اور قریبی دوست بن گیا۔ مجھے یاد پڑتا ہے ایک بار سرحدی کشیدگی اتنی بڑھ چکی تھی کہ سمجھیں فائر کھلنے والا تھا۔ ایسے میں چین نے ہماری خاطر سرحد پر اپنی فوج آگے لے آیا تھا اور اب تو سی پیک نے دونوں قوموں کو ایک نئے رشتے میں باندھ دیا ہے‘‘۔
سیلانی کو اسی مجلس سے پتہ چلا کہ بھارت کی ایماء پر امریکہ، انگلینڈ اور فرانس چین کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جیش محمد کے مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دلوانے کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو نہ کرے۔ یہ قرارداد غالباً تیرہ مارچ کو پیش کی جائے گی، جسے یقینی طور پرچین ویٹو کرے گا۔ لڑاکا ہوا باز کی حیثیت سے شاندار کیریئر گزارنے کے بعد ریٹائرڈ ہونے والے آفیسرکے دعوئوں کی تصدیق عالمی منظر نامے میں گردش کرتی خبروں سے بھی ہو گئی۔ عالمی میڈیا کے مطابق سلامتی کونسل کے اجلاس کے لئے امریکہ اور اس کے حواری انگلینڈ اور فرانس چین کو قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور پاکستان بھی اعلیٰ سطح پر اپنے دوست سے رابطے میں ہے اور امریکہ کی اس خواہش کے پیچھے چانکیہ کے چیلوں کی سازش کے تانے بانے ادھیڑ رہا ہے۔
خبروں کے اس تعاقب میں سیلانی بھارتی انگریزی روزنامے The Econimic Times کی جولائی 2018ء کی ہیڈلائن تک جا پہنچا، جہاں بیجنگ سے بھارتی اخبار کا نامہ نگار بتا رہا تھا کہ چین اپنے ’’سدا بہار دوست‘‘ پاکستان کے ساتھ بلاسٹک اور کروز میزائل کی تیاری کا منصوبہ بنا رہا ہے… خبر کے مندرجات میں جانے اس نے اور کیا کچھ لکھا تھا۔ سیلانی کی نظریں تو ’’سدا بہار‘‘ کے لفظ پر ہی رک گئیں اور اس کے لبوں پر مسکان نمودار ہوگئی۔ وہ یہ مسکان لئے اپنے گھر سے باہر نکلا تو قریبی پارک میں مچی مچی آنکھوں اور ریشمی بالوں والا تین چار برس کا سرخ و سپید سدا بہار دوست کو بھاگتے دیکھ کر رک گیا۔ بچے تو سب ہی پیارے ہوتے ہیں، لیکن گول مٹول فتح محمد سب سے الگ تھلگ لگ رہا تھا۔ وہ ہمارے سدا بہار دوست ملک سے جو تھا، سیلانی بے اختیار اس کے پاس چلا گیا۔ اس نے مسکراتے ہوئے اس کی کالی سیاہ مچی مچی آنکھوں میں شفقت سے جھانکا، نرمی سے اس کے گال چھوئے اور اس کے والدین سے اجازت لے کر اس کی خوبصورت سی تصویر بنائی اور شکریہ ادا کرکے جاتے جاتے اپنے ننھے منے دوست کو ٹاٹا کرتا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment