پاکستان کے خلاف جارحیت میں ذلت آمیز شکست اور ناکامی کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم و ستم میں مزید اضافہ کردیا ہے، لیکن اس مرتبہ کشمیری حریت پسندوں کے ساتھ جھڑپوں میں بھارت کے فوجی بھی بڑی تعداد میں مارے جارہے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ کشمیری باشندے بھارت سے آزادی کی جنگ اس حال میں لڑ رہے ہیں کہ ان کے پاس کوئی اسلحہ ہے نہ گولا بارود۔ بعض ممالک کی انہیں زبانی ہمدردی اور اخلاقی حمایت حاصل ہے، لیکن کھل کر ان کی مالی مدد کرنے والا بھی کوئی نظر نہیں آتا۔ وہ ہاتھوں میںکنکر، پتھر اور لاٹھیاں لے کر جدید ترین اسلحے سے لیس سات لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجیوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔ حریت رہنماؤں کو یقین ہے کہ وہ اپنی جدوجہد کے نتیجے میں سوا کروڑ سے زیادہ کشمیری باشندوں کو آزاد کرالیںگے۔ اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق کوئی ملک کسی علاقے کے لوگوں کو غلام بنا کر نہیں رکھ سکتا۔ ایسے مظلوم لوگوں کو جابر ملک اور حکومت سے مسلح ہوکر لڑنے اور آزادی حاصل کرنے کا حق اقوام متحدہ کے اصولوں کے تحت حاصل ہے۔ کشمیر کے معاملے پر تو خود اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں کہ وہ آزادانہ استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرسکتے ہیں۔ ان قراردادوں کی روشنی میں بنیادی طور پر مسئلہ کشمیر پر حتمی فیصلہ کرنے کا حق پاکستان کو حاصل ہے نہ کہ بھارت کو، بلکہ مسئلے کے اصل فریق خود کشمیری باشندے ہیں۔ وہی طے کرسکتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کا حصہ بنے یا بھارت کا، یا پھر کشمیر کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کا درجہ دیا جائے۔ بھارت ستر برسوں سے ان کے اس حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر کے کشمیر کے ایک بڑے حصے پر نہ صرف قابض ہے، بلکہ اپنے لاکھوں فوجیوں کے ذریعے نہتے کشمیری باشندوں کو شہید، زخمی و معذور کرنے اور خواتین کی بے حرمتی میںلگا ہوا ہے۔ ستاون مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کے حالیہ اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ سُشما سوراج بھی شریک ہوئیں۔ اجلاس میں بھارتی دہشت گردی اور کشمیریوں پر وحشیانہ مظالم کی مذمت میں قرارداد منظور کی گئی۔ بھارت نے اسے یکسر مسترد کردیا۔ سُشما سوراج نے مسئلہ کشمیر کو مکمل طور پر بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے، بھارتی وزارت خارجہ کے جاری کردہ ایک بیان میںکہا گیا ہے اس معاملے میں ہمارا مؤقف واضح اور ٹھوس ہے، ہم تجدید کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔ اس مسئلے پر عالمی برادری اور مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کے بے حسی بدستور جاری ہے۔ اگر وہ محترک و فعال ہوں تو کشمیر کو بھارت سے آزادی دلانا چنداں مشکل نہیں ہے۔ آخر اقوام متحدہ ہی نے تو اپنی ایک قرارداد کے ذریعے انڈونیشیا کے علاقے مشرقی تیمور کے لوگوں کا مطالبہ تسلیم کر کے وہاں ریفرنڈم کرایا تھا۔ پانچ ماہ کی قلیل مدت میں مشرقی تیمور کو علیحدہ اور آزاد ملک قرار دے کر اقوام متحدہ کا رکن بھی بنا دیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر کی بھارتی کٹھ پتلی حکومت نے اب جماعت اسلامی پر پانچ سال کے لیے پابندی عائد کر کے اس کے دفاتر ہی نہیں، رہنماؤں کے گھروں کو بھی سیل کرنا شروع کردیا ہے۔ اب تک متعدد علما سمیت ساڑھے تین سو سے زائد کارکن گرفتار کیے جاچکے ہیں۔ قابض انتظامیہ نے جماعت اسلامی کے فلاح عام ٹرسٹ کے تحت چلنے والے تین سو پچیس اسکول بھی بند کردیئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد طلبا و طالبات کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ ان اسکولوں سے وابستہ دس ہزار سے زیادہ اساتذہ اور دیگر افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔ بھارت اور اس کی کٹھ پتلی مقبوضہ کشمیر کی حکومت کے خلاف بھارت میں بھی شدید رد عمل ظاہر ہورہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کے بعد ایک اور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی کشمیریوں کے حق میں بیان دیا ہے، جبکہ یہ دونوں وہاں بھارت کی جانب سے کٹھ پتلی کے طور پر کام کرچکے ہیں۔ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ مقبوضہ وادی میں انتقامی جذبے کے تحت بے گناہ نوجوانوں کو پکڑا جارہا ہے۔ جماعت اسلامی پر پابندی بھی بھارت کی انتقامی کارروائیوں کا تسلسل ہے۔ یہ ایک فلاحی جماعت ہے اور اس کی خدمات کا دائرہ پوری وادی جموں و کشمیر میں پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ایک نظریہ ہے اور کسی نظریئے کو پابند سلاسل نہیں کیا جاسکتا۔ جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں کو جس طرح اٹھا کر جیلوں میں ڈالا جارہا ہے، اس کے نتائج بہت خطرناک نکلیں گے۔ جماعت اسلامی ایک مذہبی، سماجی و فلاحی تنظیم ہے جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ بھارت اس پر اور اس کے اسکولوں پر پابندی لگا کر اپنے خلاف نفرت میں اضافے کے سوا کچھ حاصل نہ کرسکے گا۔
بلوچستان کے متاثرہ عوام اور وفاقی حکومت
بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شدید برف باری، بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق کم وبیش سولہ افراد جاں بحق اور تیس زخمی ہوچکے ہیں۔ مرنے والوں میں سات بچے بھی شامل ہیں۔ کئی مکانات کی چھتیں گرگئیں، دیواریں منہدم ہوگئیں، ندی نالوں کے بھرنے سے سڑکیں بند ہوگئیں اور لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوگئے۔ پاک فوج نے فوراً ہی امدادی کارروائیاں شروع کردیں، جبکہ صوبائی اور مقامی حکومتیں بھی حتی الامکان مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کے لیے پہنچ گئی ہیں۔ بارشوں، سیلاب اور طوفان پر مکمل طور پر قابو پانا تمامتر سائنسی ترقی کے باوجود اب تک انسان کے بس کی بات نہیں۔ تاہم ایسے مواقع پر ایک دوسرے کی مدد کرنا اور کام آنا انسانی فریضہ ہے۔ بلوچستان کو یوں بھی پاکستان کا محروم صوبہ تصور کیا جاتا ہے، لہٰذا وہاں متاثرہ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنا اور بھی زیادہ ضروری ہے، اس طرح ان کا احساس محرومی کم ہوگا۔ صوبائی حکومت کے علاوہ وفاقی حکومت کو بھی مصیبت زدگان کے لیے فوری طور پر آگے بڑھنا چاہئے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے سامنے سجدہ کرنے والی تحریک انصاف کی حکومت کو ایک خاص مدت تک بلوچستان کے لوگوں کو تیل، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے سے بچانا چاہئے۔ اہل وطن کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والی حکومت بلوچستان کے آفت زدہ علاقوں کی کوئی مدد نہ کرسکے تو کم از کم قیمتوں کے اضافی بوجھ ہی ان پر نہ ڈالے۔٭
٭٭٭٭٭