شاھت الوجوہ

ویسے تو مسلمانوں کا خون گرمانے کیلئے نعرئہ تکبیر اللہ اکبر ایسا ٹانک ہے، جو آپ کے جسم میں خون کی گردش تیز کر دیتا ہے، ہر مسلمان خوشی خوشی اللہ کی راہ میں جان دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے، اس کے ساتھ ’’شاھت الوجوہ‘‘ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے، جو آپؐ نے غزوئہ بدر میں کی تھی۔ تفصیل اس کی کچھ یوں ہے کہ جب کفار اور مسلمانوں کے لشکر آمنے سامنے ہوئے اور دست بدست لڑائی کا موقع آگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس وقت اپنی فوج کی کمان کر رہے تھے، مٹھی بھر ریت ہاتھ میں لے کر کفار کی طرف پھینکی اور اس کے ساتھ ہی مسلمان یکبارگی کفار پر حملہ آور ہوئے اور پھر مسلمانوں کو تعداد اور وسائل میں کم ہونے کے باوجود عظیم الشان فتح نصیب ہوئی، اسی دعا کے حوالے سے سورئہ انفال کی آیت بھی ہے۔ (ترجمہ) ’’پس اے نبی! تم نے ان کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور اے نبی! تم نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا۔‘‘ غزوئہ بدر مسلمانوں اور کفار کے درمیان قیامت تک جاری رہنے والے معرکوں میں پہلا باضابطہ معرکہ تھا، لہٰذا اس میں نبی کریمؐ نے ’’شاھت الوجوہ‘‘ کہہ کر مٹھی سے ریت کفار کی طرف پھینکی تھی، تو یہ سنت ہمیں ہر معرکۂ حق و باطل میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے، لہٰذا ہمیں امید نہیں، بلکہ یقین ہے کہ پاک فوج کی قیادت اور خصوصاً کنٹرول لائن پر تعینات کمانڈر اس سنت کو تازہ کرتے رہیں گے۔ دشمنان اسلام کو سبق سکھانے سے پہلے ہمیشہ شاھت الوجوہ پڑھ کر مٹی مٹھی سے دشمن کی طرف پھینکیں گے، کیوں کہ نبی کی سنت پر عمل سے اللہ کی مزید نصرت کے راستے کھل جائیں گے، جب دشمن سے مقابلہ یا کشیدگی چل رہی ہو تو مسلمان شہری بھی اس سنت کو تازہ کرسکتے ہیں، ہم محاذ پر نہ ہوں تب بھی نماز کے بعد دشمن کا تصور کرکے شاھت الوجوہ پڑھ کر اس کی طرف مٹھی پھینک سکتے ہیں، اس یقین کے ساتھ کہ رب العالمین اس کے بدلے ہماری بہادر افواج کی مدد کرے گا اور ہمیں بھی سنت تازہ کرنے کا ثواب حاصل ہوگا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بھارتی طیارے گرانے کے بعد اپنی پریس کانفرنس میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کرکے پہلے ہی پیغام دے دیا تھا کہ پاک فوج اسلام کی فوج ہے، جو کامیابی کو رب کریم کی عطا سمجھتی ہے اور اس کا شکر بجالاتی ہے۔ یہی ہماری اصل طاقت ہے، جس کے ذریعے ہم اپنے سے کئی گنا بڑے اور ایک سے زیادہ دشمنوں کو خاک چاٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
بات آگے بڑھانے سے قبل آپ کو ایک خواب سناتے جائیں، ہر خواب کی تعبیر ہوتی ہے اور بڑی بڑی سلطنتوں میں تو بادشاہ اپنے درباروں میں خوابوں کی تعبیر بتانے والوں کو خصوصی طور پر ساتھ رکھتے تھے، انہیں بہت احترام حاصل ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے کہ خواب نبوت کا چالیسواں حصہ ہیں۔ تاہم گزرتے وقت کے ساتھ دنیا میں جدت آتی جا رہی ہے اور بہت سے دیگر علوم کے ساتھ خوابوں کی تعبیر والا علم بھی ناپید ہوتا جا رہا ہے، لیکن ہمارے اردگرد کچھ لوگ ہوتے ہیں، جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ ان کے خواب کافی حد تک سچے ہوتے ہیں، ایسے ہی ایک صاحب سے ہمارے بھی مراسم ہیں، ا ن کے خواب سچے ہونے کا ایک ٹریک ہے، جو ہمارے علم میں بھی ہے، اب موجودہ پاک بھارت جھڑپ سے قبل بھی انہیں ایک خواب آیا، جو کچھ اس طرح ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ گھر پر کوئی پٹاخہ پھینک کر چلا گیا ہے، پھر اس کے بعد وہ جاتے ہیں اور اس پٹاخے والے کے گھر پر آگ لگا کر آجاتے ہیں، آگ پھیلنے لگتی ہے کہ ان کے ایک مرحوم عزیز اس پر پانی پھینک دیتے ہیں اور یوں آگ بجھ جاتی ہے۔ جس روز انہیں خواب آیا، وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ یہ کس سے متعلق ہے، لیکن دو چار روز بعد جب بھارت نے پہلے بالاکوٹ میں شرارت کی اور اس کے جواب میں پاکستان نے اس کی حدود میں گھس کر بھارت کی پٹائی کر ڈالی، اس کے دو طیارے اور ہیلی کاپٹر تباہ کردیا، تو انہیں سمجھ آگئی کہ یہ خواب اس واقعہ سے متعلق تھا، سو کیوں کہ ان کے خواب کے آخری حصہ میں پانی ڈال کر آگ کو بجھا دیا گیا تھا، اس لئے امید ہے کہ پاک بھارت معاملہ اب بتدریج ٹھنڈا ہوتا جائے گا، بھارت زخم چاٹتے ہوئے خاموش ہو جائے گا۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف، دنیا کو گلوبل ویلیج یعنی عالمی گائوں کہا جاتا ہے، ملکوں کے معاملات بھی معاشروں سے ملتے جلتے ہیں، آپ تصور کریں کہ آپ کے محلے میں کوئی بڑا بدمعاش بنا ہوا ہو، اپنے اطراف میں اس نے دھاک بٹھائی ہوئی ہو، اس کے پاس پیسہ بھی بہت ہو، زمینیں بھی ہر طرف پھیلی ہوئی ہوں، تھانیدار بھی نہ صرف اس کے ساتھ ملا ہوا ہو، بلکہ اس کی ہر طرح مدد بھی کرتا ہو، آگے پیچھے کے بدمعاش بھی اس کے دوست ہوں اور دوسری طرف اس محلے میں ایک ایسا بندہ ہو جو ہو تو بہادر، لیکن ہر طرف سے مجبوریوں سے بندھا ہوا ہو۔ کریانہ کی دکان سے لے کر ملک شاپ تک ہر جگہ اسے ادھا ر لے کر گھر چلانا پڑتا ہو، مقروض ہونے کی وجہ سے اسے دکانداروں کے نخرے بھی برداشت کرنے پڑتے ہوں، اس وجہ سے لوگ اسے کمزور بھی سمجھتے ہوں، اسے پنچایتوں میں بلاکر ڈانٹے کی کوشش بھی کی جاتی ہو، ڈکٹیشن دینے کی سعی بھی کی جاتی ہو، روز نئی نئی فرمائشیں بھی کی جاتی ہوں، وہ بے چارہ حالات کے دبائو میں سب کچھ برداشت کرتا ہو، لیکن پھر اچانک ایک دن محلے کا بدمعاش بیٹھے بٹھائے اس کی غیرت کو چیلنج کرنے کی کوشش کرے، یہ سوچ کر کہ اس کے پاس تو کھانے کے پورے پیسے نہیں ہوتے، اس لئے کون سا اس نے جواب دینا ہے، رات کے وقت چپکے سے اس کے گھر کی گھنٹی بجا کر بھاگ جائے اور اس کے بعد دوسرے روز وہی بندہ اس بدمعاش کو محلے کے چوراہے پر پکڑ لے، سب کے سامنے اس کی پٹائی کر دے، اس کے ایک دو چیلوں کو پکڑ کر بھی لے جائے، تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس بدمعاش اور اس کے سرپرستوں پر کیا گزرے گی؟ ان کی عزت، وقار ہر چیز خاک میں مل جائے گی، وہ محلے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہے گا، ہر کوئی اسے طعنہ مارے گا، یوں بنا بدمعاش بنا پھرتا تھا، اب بدمعاشی کرکے دکھائو ناں۔ تو قارئین ہم نے بھی الحمد للہ بھارت کے ساتھ یہی کچھ کیا ہے، نائن الیون کے بعد کچھ عالمی حالات اور کچھ اپنوں کی مصلحت پسندی کی وجہ سے بھارت بدمعاش بن گیا تھا، اردگرد کے باقی ممالک کو تو اس نے آگے لگا ہی رکھا تھا، امریکی گھوڑے پر سوار ہوکر وہ ہمیں بھی جھکانا چاہتا تھا، کیوں کہ اسے عالمی تھانیدار یعنی امریکہ نے علاقائی تھانیداری کی یقین دہانی کرا رکھی تھی، اسے جی 20 اور نہ جانے کون کون سی عالمی تنظیموں کا رکن بنا کر اس کا قد بہت بلند کردیا تھا، مگر شکر ہے رب العالمین کا کہ اس نے پاکستان اور پاک فوج کو یہ اعزاز بخشا کہ وہ بھارت کو اس کی اوقات یاد دلا دے، اسے بتا دے کہ پاکستان اس قوم کی سر زمین ہے، جو ان لوگوں کے وارث ہیں، جنہوں نے ہزار برس بھارت پر حکمرانی کی ہے، جو چند ہزار ہوتے تھے، لیکن لاکھوں ہندوئوں پر راج کرتے تھے۔ یہ تغلق، یہ غوری، یہ خلجی، یہ ایبک، یہ سوری، یہ مغل سب آپس میں ایک دوسرے سے تو اقتدار لیتے رہے، لیکن کبھی ہندوئوں کو جرأت نہیں ہوئی کہ ان کے سامنے آسکیں، اب وہ کس بھول میں تھے، جو انہوں نے پاکستان کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی، جو بھی بھول تھی امید ہے اب یاد میں بدل گئی ہوگی اور یہ یاد انہیں طویل عرصہ ستاتی رہے گی۔ ٭

٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment