نریندر مودی کے دور ِ حکومت نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کی سیاست مذہبی تنگ نظری، مسلم دشمنی، منافقت، لاشوں اور ہندوتوا کی سیاست ہے۔ مودی سرکار کی تنگ نظر ی اور تعصب کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے اترپردیش کا وزیر اعلیٰ ایک ایسے مذہبی تنگ نظر اور متعصب سادھو کو بنایا جو عالمی ثقافتی ورثے ’’تاج محل‘‘ سے صرف اس لیے نفرت کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی ثقافتی نشانی ہے۔ آدتیہ ناتھ یوگی برصغیر پر حکومت کرنے والے مسلم سلاطین کو غیر ملکی حملہ آور اور لٹیرے خیال کرتے ہیں، جبکہ یہ راگنی درحقیقت ہندو ووٹ بینک کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے بی جے پی کا ایک بڑا ہتھیار ہے۔ جب سے نریندر مودی اقتدار میں آئے ہیں، ان کی ٹیم دلی کی شاہرائوں کے ناموں سے لے کر نصابی کتب تک ہر جگہ سے برصغیر کے مسلمان حکمرانوں خاص طور پر مغل سلاطین کا نام مٹانے کے لیے زور لگا رہی ہے، حالانکہ ان کے باپ دادے مغل حکمرانوں کو بڑی چاہت کے ساتھ اپنی بیٹیاں پیش کر کے انہیں اپنا داماد بنانے پر فخر محسوس کیا کرتے تھے۔ ذرا تاریخ کے جھروکے میں جھانک کر تو دیکھئے۔ ’’لٹیرے اور غیر ملکی حملہ آور‘‘ بابر کے پوتے اور ہمایوں کے نور ِ نظر جلال الدین محمد اکبرکا معمول تھا کہ وہ ہر سال حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے مزار پر حاضر ی کے لیے اجمیر شریف جایا کرتے تھے۔ 1562ء میں ایسے ہی ایک سفر کے دوران میں راجپوتانہ کی مشہور ریاست امبر (موجودہ جے پور) کے حکمران راجہ بہاڑی مل نے شاہی قافلے کا خیر مقدم کیا۔ کچھوا راجپوت قبیلے کے اس حکمران نے اپنے پورے گھرانے کے ہمراہ شہنشاہ اکبر کے دربار میں حاضری دی اور عظیم مغل حکمران کو شادی کے لیے اپنی بیٹی جودھا بائی پیش کی۔ چونکہ راجپوتوں میں شجاعت و بہادری کا اعلیٰ وصف پایا جاتا ہے۔ وہ تلوار کے دھنی بھی ہوتے ہیں اور پھر راجہ بہاڑی مل کا تعلق تو راجپوتانہ کے حکمران طبقے سے تھا، اس لیے اکبر نے ان کی بیٹی کا رشتہ قبول کرلیا۔ چنانچہ شادی کے بعد جودھا بائی، جودھا رانی بن گئیں اور بادشاہ نے راجہ بہاڑی مل کو پنج ہزاری منصب اور ان کے بیٹے راجہ بھگوان داس کو بھی اعلیٰ حکومتی عہدہ عطا کرکے اس گھرانے کا سماجی مرتبہ مزید بلند کردیا۔ بعد ازاں جودھا رانی نے شہزادہ سلیم کی شادی اپنے بھائی راجہ بھگوان داس کی بیٹی سے کی۔ اکبر کے نورتنوں میں شامل راجہ مان سنگھ اسی راجہ بھگوان داس کے بیٹے اور شہزادہ سلیم (جہانگیر) کے برادرنسبتی تھے۔ مغل حکمران اس قدر اعلیٰ ظرف تھے کہ یہ ہندو رانیاں مرتے دم تک ہندو مذہب پر قائم رہیں۔ قلعہ آگرہ میں مہارانی جودھا بائی کے محل میں پوجا کے لیے مندر بنا ہوا تھا۔ قلعے کے اندر ہی اندر زینے جمنا ندی کے گھاٹ تک اترتے ہیں، جہاں جودھا رانی صبح سویرے اشنان کرنے جایا کرتی تھی۔ ان ہندو رانیوں کو تو کسی نے بھی زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہ کیا۔ لیکن آج نریندر مودی اور آدتیہ ناتھ یوگی کو نصابی کتب میں Akbar The Great لکھا دیکھ کر ابکائیاں آنے لگتی ہیں۔ ناخلف کہیں کے۔
بی جے پی اور راشٹریہ سیوک سنگھ بھارت میں ہندو کے سوا کسی اور کا وجود برداشت کرنے کو قطعاً تیار نہیں۔ بھارتی مسلمان تو ان کی نفرت کا نشانہ بنے ہوئے ہی ہیں، ان کے علاوہ دیگر اقلیتیں اور مخالف سیاسی جماعتیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ مارچ 2018ء میں شمال مشرقی ریاست تری پورہ میں پچیس برس سے برسر اقتدار بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسی (سی پی ایم) کو شکست دینے کے بعد بی جے پی کے کارکنوں نے جنوبی تری پورہ کے قصبے ہیلونیا میں لینن کے مجسمے کو بلڈوزر چلا کر منہدم کر ڈالا۔ اگلے ہی روز تامل ناڈو میں بعض مقامات پر دلت رہنما ڈاکٹر امبیڈکر کے مجسمے بھی توڑے گئے۔ الیکشن نتائج سامنے آتے ہی بی جے پی اور آر ایس ایس کے دہشت گردوں نے تری پورہ صوبے میں مخالف پارٹیوں کے کارکنوں کے ڈیڑھ ہزار مکانات پر حملے کیے۔ سی پی ایم کے سو سے زائد دفاتر کو آگ لگائی اور 200 سے زائد دفاتر پر قبضہ کر لیا۔ مقامی تجزیہ کاروں کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ شمال مشرقی بھارت کی ریاستوں میں عیسائی آبادی زیادہ ہے۔ گزشتہ ریاستی الیکشن میں بی جے پی کو تری پورہ سے صرف ڈیڑھ فیصد ووٹ ملے ھے۔ چنانچہ اگلے الیکشن سے پہلے نریندر مودی اینڈ کمپنی نے زعفرانی چولا اُتار کر منافقت کا چولا پہنا اور اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران میں ہندوتوا اورگئوماتا جی کی رکھشا کا نام تک نہ لیا، بلکہ ان ریاستوں میں گائے کا گوشت شوق سے کھایا جاتا ہے، لیکن بی جے پی نے اسے مقامی کلچر کہہ کر منہ دوسری طرف پھیر لیا اور اس طرح اپنے منافقانہ طرز سیاست سے مقامی ووٹر کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوگئی، لیکن الیکشن جیتتے ہی آر ایس ایس کے اندر کا دہشت گرد کود کر باہر آگیا۔
بھارتی پنجاب میں نشے کی لعنت نے گھروں کے گھر اجاڑ دیئے ہیں۔ کڑیل سکھ نوجوان ہیروئن اور شراب کے ہاتھوں زندہ لاشوں میں بدلتے جا رہے ہیں۔ جو پنجاب ڈھول، بھنگڑے، کھیتوں کھلیانوں، سرداروں کی رانگلی پگ (پگڑی) اور سرسوں کے زرد پھولوں کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا۔ جس پنجاب میں کبھی شمشاد بیگم کے اِن پنجابی گیتوں پر الھڑ جوانیاں جھوم جھوم جایا کرتیں تھیں:
چھن چھن کردی گلی وچوں لنگھدی میرے سجناں دی ڈاچی بادامی رنگ دی ……
رب نہ کرے جے چلا جاویں تُوں وِچھڑ کے دَس رویا کریں گا سانوں یاد کرکے ……
بھانویں بول تے بھانویں نہ بول چناں وس اکھیاں دے کول اسی مشرقی پنجاب کے بارے میں اب کہا جاتا ہے کہ وہاں پانچ دریائوں کے علاوہ چھٹا دریا نشے کا بھی بہہ رہا ہے۔ 2014ء کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس رہنما راہول گاندھی نے بیان دیا کہ پنجاب میں 70 فیصد لوگ نشے کا شکار ہیں۔ اس پر بڑی لے دے ہوئی۔ لیکن چونکہ الیکشن کے دن تھے، اس لیے بات آئی گئی ہوگئی۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ الیکشن سیزن میں بھارتی سیاست دان مشرقی پنجاب میں نشے کے عادی افراد کو صرف ووٹ کی خاطر خود مفت منشیات فراہم کرتے ہیں۔ لیکن نریندر مودی نے حکومت سنبھالنے کے بعد اس مسئلے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ سوال یہ ہے کہ کہیں یہ سکھ اقلیت کو اپنی موت آپ مارنے کی کوئی گھنائونی سازش تو نہیں، کیونکہ دشمن کے بچوں کو مارنے کا اس سے اچھا طریقہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ انہیں کسی بُری لت پہ لگا دیا جائے۔
دسمبر 2017ء میں ریاست گجرات میں ہونے والے ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں کانگریس نے گزشتہ 22 برسوں سے صوبے میں برسر اقتدار بی جے پی کو خاصا ٹف ٹائم دیا کہ الیکشن جیتنے کے لیے نریندر مودی اور امیت شاہ کو دانتوں تلے پسینہ آگیا۔ حکمران جماعت بڑی مشکل سے سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکی۔ گجرات الیکشن کے نتائج سامنے آنے کے بعد بی جے پی کی قیادت بوکھلائی پھرتی تھی، کیونکہ گجرات اس کا مضبوط ترین مورچہ ہے اور اگر گجرات میں کانگریس ان کے چھکے چھڑا سکتی تھی تو پھر جنرل الیکشن 2019ء میں بھی ان کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتی تھی… یہی وجہ ہے کہ گجرات الیکشن کے بعد گزشتہ برس کے اوائل ایام میں ہی بھارتی صحافتی حلقوں نے یہ خدشہ ظاہر کر دیا تھا کہ نریندر مودی اگلا الیکشن جیتنے کے لیے ہندو قوم پرستی اور مذہب کی سیاست کا کارڈ استعمال کر سکتے ہیں۔ جبکہ الیکشن جیتنے کے لیے پاکستان کارڈ کا استعمال تو نریندر مودی کی پرانی عادت ہے۔ گجرات الیکشن میں بھی انہوں نے اپنا یہ ’’فیورٹ‘‘ کارڈ استعمال کیا۔ انہوں نے ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گجرات کے ریاستی الیکشن کے نتائج پر پاکستان اثرانداز ہو رہا ہے اور اس سلسلے میں اسے کانگریس کا تعاون حاصل ہے۔ اس لیے جنرل الیکشن 2019ء سے ذرا پہلے مودی سرکار کی طرف سے پاکستان کے ساتھ شروع کی گئی عسکری آنکھ مچولی پر ہمیں حیرت نہیں ہونی چاہئے۔
نریندر مودی اور ان کے رفقا بوقتِ ضرورت گدھے کو ابا کہنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ان لوگوں نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف اس قدر نفرت پھیلائی کہ اگر کوئی مسلمان لڑکا کرکٹ کھیلتے ہوئے ذرا اچھی گیند پھینک دے تو انتہا پسند ہندو اسے طعنہ دیتے ہیں کہ تم وسیم اکرم بننے کے خواب دیکھ رہے ہو۔ مغل سلاطین کو وہ ڈاکو اور لٹیرے کہتے نہیں تھکتے۔ لیکن ستمبر 2017ء میں جب مودی برما کے دورے پر گئے تو انہوں نے رنگون میں مدفون آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفرؒ کے مزار پر پھولوں کی چادر بھی چڑھائی تاکہ دسمبر 2017ء میں ہونے والے گجرات کے ریاستی الیکشن میں مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کی جا سکے۔
نریندر مودی نے 2014ء کے عام انتخابات میں حریف سیاسی جماعتوں کو بدعنوان، نااہل اور بھارت ماتا کے لیے سیکورٹی رسک قرار دیتے ہوئے خود کو ایک مسیحا کے طور پر قوم کے سامنے پیش کیا۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے قوم کو صرف کھوکھلے نعرے دیئے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کا ان پر اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ مارچ 2018ء میں بی جے پی صوبہ اترپردیش کے دو اہم ترین انتخابی حلقوں گورکھ پور اور پھول پور میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں بُری طرح ہار گئی۔ یہ دونوں پارلیمانی (قومی) حلقے بی جے پی کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل تھے، کیونکہ یہ وزیر اعلیٰ اترپردیش آدتیہ ناتھ یوگی اور نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد کی خالی کردہ نشستیں تھیں۔ مئی 2018 ء میں اترپردیش ہی کے دو حلقوں کیرانہ اور نور پور میں بھی بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کیرانہ کی پارلیمانی نشست گزشتہ جنرل الیکشن میں بی جے پی نے 50 فیصد ووٹوں کے ساتھ جیتی تھی، لیکن ضمنی الیکشن میں راشٹریہ لوک دل کی مسلمان خاتون امیدوار بیگم تبسم حسن نے بی جے پی کی امیدوار Mriganka Singh کو 44600 ووٹوں کی بھاری لیڈ سے شکست دی، جنہیں کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کی حمایت بھی حاصل تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نشست Mriganka Singh کے والد اور بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ Hukum Singh کی موت پر خالی ہوئی تھی۔ اس حلقے کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں ہندو جاٹوں اور مسلمانوں کا ووٹ بینک سب سے زیادہ ہے۔ بی جے پی نے گزشتہ جنرل الیکشن سے پہلے اگست 2013ء میں یہاں ضلع مظفر نگر میں ہندو مسلم فسادات کرائے، جس کا فائدہ الیکشن میں اٹھایا۔ لیکن مئی 2018ء کے ضمنی الیکشن میں یہاں مسلمان خاتون امیدوار کو جاٹ ووٹرز کی بھی حمایت حاصل رہی، کیونکہ مقامی تجزیہ کاروں کے مطابق جاٹ ووٹر کی حمایت کے بغیر تبسم حسن کی کامیابی ممکن نہ تھی۔ اگرچہ نریندر مودی نے یہاں ضمنی الیکشن میں بھی ہندوقوم پرستی کا کارڈ استعمال کرنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔ اس ضمنی الیکشن نے واضح کیا کہ نریندر مودی کا مذہبی سیاست کا کارڈ بھی اب زیادہ دیر چلنے والا نہیں۔ بہار میں لالو پرساد یادو کی پارٹی راشٹریہ جنتا دل بھی دوبارہ انگڑائی لے رہی ہے۔ حال ہی میں پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج نے بھی نریندر مودی کو خاصا پریشان کیا ہے۔ سو اِن حالات میں وہ اور ان کی پارٹی الیکشن جیتنے کے لیے ہر حربہ استعمال کر سکتی ہے، خواہ اس کے لیے انہیں بھارتی فوج کو زبردستی جنگ میں دھکیلنا پڑے اور چاہے اس کے لیے ہندوئوں کے خون سے ہی ہولی کیوں نہ کھیلنی پڑے۔ نریندر مودی کا یہ منفی طرز سیاست بلاشبہ بھارتی عوام کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے اور بھارتی افواج کے لیے بھی۔ بھارتی عوام کو اس بارے میں سوچنا ہو گا۔ اپنا راج سنگھاسن بچانے کے لیے نریندر مودی نا صرف اپنے ملک میں نفرتوں کی آگ بھڑکانے کے درپے ہیں، بلکہ وہ پورے خطے کا امن تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آئے تو وہ بھارت کا گوربا چوف ثابت ہو سکتے ہیں اور پھر بھارت کو ٹوٹ کر بکھرنے سے کوئی نہ بچا سکے گا، کیونکہ نفرتوں کی سیاست صرف قوموں کی قسمت ہی کھوٹی نہیں کرتی، بلکہ ان کا جغرافیہ بھی بدل دیتی ہے۔
٭
٭٭٭٭٭