مودی سرکار موسم سرما کا سورج ثابت ہو رہی ہے۔ موسم سرما کا وہ سورج جو بہت جلد غروب ہو جاتا ہے۔ مودی کو بھی معلوم نہ تھا کہ اس کے اقتدار کے دن اس قدر مختصر ہو جائیں گے؟ مودی نے سوچا تھا کہ راہل گاندھی میں قوت نہیں کہ بھارت کے عوام اور اس کی اسٹیبلشمنٹ اس پوری حکومت اور پوری ریاست کا بوجھ رکھنے کا رسک اٹھائے۔ مودی کا خیال تھا کہ کانگریس پارٹی میں گاندھی خاندان کے علاوہ اور کوئی شخصیت نہیں، جس میں کشش ہو۔ مودی کو یقین تھا کہ راہل گاندھی کی بہن پریانکا اس بار بھی انتخابی میدان میں اترنے سے انکار کر دے گی۔ مودی کو اب محسوس ہو رہا ہے کہ جب برا وقت آتا ہے تو پوری تیاری سے آتا ہے اور ہر طرف سے آتا ہے۔ مودی نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ وہ انتخابات قریب آتے ہی کشمیر میں سخت ایکشن لیں گے، پاکستان کے ساتھ محدود جنگ کا آغاز کریں گے اور آخر میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا ٹرمپ کارڈ استعمال کریں گے۔
سندھی زبان کی عوامی کہاوت ہے کہ ’’بندے کے من میں ایک اور صاحب کے دل میں دوسری‘‘ مودی کے ساتھ بھی ایسا ہوا۔ مودی نے جس جس سیاسی ہتھیار کو انتخابات جیتنے کے لیے چھپاکر رکھا تھا کہ وہ سارے ہتھیار وقت سے پہلے نہ صرف ظاہر بلکہ ناکارہ بھی ہوگئے۔ مودی نے سوچا تھا کہ وہ چناؤ کا آخری بھاشن ٹینک پر چڑھ دیں گے، مگر اس وقت ہی وہ کھیت میں ایسے پتلے کی مانند کھڑے ہیں، جس کی اصلیت کو آس پاس کے سارے پرندے جان لیتے ہیں اور اس کے کندھوں پر بیٹھ کر اپنے ساتھیوں کو بلاتے ہیں۔ مودی نے سوچا تھا کہ ان کی زبان سرمہ فروش کی طرح چلتی ہے اور وہ سب کو سرمہ پہنا کر ایک بار پھر سنگاسن پر بیٹھیں گے، مگر وہ اس طرح ناکام ہوں گے؟ اس امکان پر تو ان کے مخالفین نے بھی نہیں سوچا تھا۔
کانگریس پارٹی کے رہنما راہل گاندھی تو ان کے خلاف ’’چوکیدار چور ہے‘‘ نامی مہم چلا رہے ہیں، مگر پورے بھارت میں یہ بات تیزی سے پھیل رہی ہے کہ مودی ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔ مودی کو اس کے پردھان منتری کے پد پر اس لئے بٹھایا گیا تھا کہ وہ ہندو قوم پرستی کے نظریئے پر عمل کرتے ہوئے کمزور ہوتے ہوئے بھارت کو اندر سے مضبوط کریں گے، مگر مودی انتہا پسند ہندو شاؤنزم کے گھیرے میں گھر گئے اور انہوں نے پہلے اندر سے اور پھر باہر سے بھی بھارت کو بے حد کمزور کر دیا۔ مودی نے جس وقت مسلمانوں کے لیے بھارت کی دھرتی تنگ کرنا شروع کی، تب بھارت کے روشن خیال اور لبرل مڈل کلاس نے ان کی مزاحمت کی، مگر وہ مزاحمت اس قدر مؤثر نہ تھی کہ مودی اپنی سرکاری چال درست کرتے اور بھارتی مسلمانوں میں تیزی سے پھیلتی ہوئی عدم تحفظ کی کیفیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے۔ مودی نے ایک ری ایکشنری اور انتہا پسند ہندو کی طرح مسلمانوں میں پیدا ہونے والی بے چینی کا مزہ لیا۔ مودی کے دماغ میں ریاست کا پورا انتظام سنبھالنے کی صلاحیت کبھی نہیں رہی۔ مودی تنگ نظر اور انتہا پسند ہندو ذہنیت کا مالک تھا۔ اس لیے اس میں مسلمانوں کے لیے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ مودی کو یہ بات معلوم نہ تھی کہ سیاست میں عقائد مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ مودی یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ حکمران اور سیاستدان میں فرق ہوتا ہے۔ مودی اس حقیقت سے بھی ناآشنا تھا کہ اسے بڑی عیاری کے ساتھ اپنے مقاصد حاصل کرنے ہیں۔ مودی نے بچپنے کا مظاہرہ کیا۔ مودی نے بھارت میں موجود بھانت بھانت کے رجحانات کا پتہ
لگانے کی کوشش نہیں کی۔ مودی اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف انتقامی پالیسیوں پر اتر آیا۔ مسلمانوں کو دباؤ میں دیکھ کر مودی کا دل باغ و بہار ہو گیا۔ مگر اس کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس باغ میں موجود بہار بہت عارضی ہے۔ جس بہار میں مودی تتلی کی طرح اڑ رہا ہے، اس بہار کے پیچھے موسم خزاں کی ہوا تیزی سے آ رہی ہے۔ جس وقت کو مودی نے اپنے پھلنے پھولنے کا وقت سمجھا تھا، اس وقت کے دوران مودی پت جھڑ میں کھڑے پیڑ کی طرح پتہ پتہ ہوکر بکھرنے لگا ہے۔
مودی نے اس موسم کو اپنا آغاز سمجھا تھا، مگر یہ موسم مودی کے لیے اختتام کا پیغام لے کر آیا ہے۔ مودی کو پورا ملک سزا دینے کے لیے ذہن بنا چکا ہے۔ پورے ملک کی سیاسی پارٹیاں سمجھ رہی ہیں کہ مودی ان کا نہ صرف سیاسی بلکہ ریاستی مجرم ہے۔ ہندو قوم پرست اور ترقی پسند پارٹیاں آپس میں اس طرح متحد ہو رہی ہیں، جس طرح آمریت میں جیسے تیسے جمہوریت پسند آپس میں اتحاد کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بھارت میں اکثر پارٹیاں آپس میں بہت زیادہ اختلافات رکھنے کے باوجود اس نقطے پر متفق ہیں کہ مودی ملک کے لیے ایک بہت بڑی مصیبت کا نام ہے۔ کانگریس اور دیگر پارٹیاں تو مودی کی فطری مخالف ہیں، مگر مودی کی گرتی ہوئی ساکھ پر سوچ کر بھارتیہ جنتا پارٹی بھی مودی سے بہت مایوس ہے۔ مودی پورے ملک کے سیاسی ماحول میں تنہا ہوکر رہ گیا ہے۔ اس تنہائی میں وقت تیزی سے اضافہ کر رہا ہے۔ مودی اپنے اندر میں ایک توہم پرست ہندو شخص ہے۔ وہ ملک کے دانشوروں سے مشورے کرنے کے بجائے ہندو پنڈتوں کے اشاروں پر چلتا رہا۔ اس کا خیال تھا کہ دیوتا اس کا ساتھ دیں گے، مگر سیاست کے مہابھارت میں اہم کردار سینا کا نہیں، بلکہ جنتا کا ہوتا ہے۔ مودی نے پہلے جنتا کا دل جلایا اور بعد میں سینا کا غرور خاک میں ملایا۔ امریکہ سے اتحاد کرنے کے بعد مودی علاقائی سپر پاور بننے کے شوق میں پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کا جو تجربہ کیا، وہ تجربہ اس کے گلے میں پڑ گیا۔ مودی کی کلکیولیشن تھی کہ وہ پہلے بھارتی مسلمانوں پر دھرتی تنگ کرے گا۔ اس کے بعد وہ کشمیریوں پر کڑا وقت لائے گا۔ آخر میں وہ پاکستان کو میدان جنگ میں بلائے گا۔ اس طرح وہ نہ صرف ملک، بلکہ پورے خطے میں ترشول والے سیاسی لیڈر کا روپ دھار کر دھاڑے گا۔ مودی کی پوری پلاننگ ناکامی کی دھول میں مل گئی۔ بھارتی مسلمانوں میں پیدا ہونے والی عدم تحفظ کی کیفیت بھارت کو اندرونی طور پر مزید کمزور کر گئی۔ اس کمزوری میں سکھ بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے میدان میں اتر آئے اور جب پاکستان کی طرف سے کرتارپور راہداری کے منصوبے کا اعلان کیا گیا تب نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کی سکھ برادری پاکستان کو دشمن نہیں، بلکہ محسن ملک سمجھنے لگی اور انہوں نے بھارتی مسلمانوں کو اپنا فطری اتحادی سمجھا۔ بھارتی مسلمانوں کا ساتھ دینے کے سلسلے میں بھارت کے مصنف اور میڈیا پرسن بھی مودی کے خلاف سرکنے لگے۔ بھارت کی ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے بھارت کی مختلف ریاستوں میں رہنے والے مسلمانوں اور کشمیریوں میں ایک فاصلہ رہا ہے، مگر اس بار کشمیری مودی حکومت کے دور میں جس طرح پیلٹ گنز کا مقابلہ کرکے پوری وادی کو ہون کنڈ (آگ کا الاؤ) بنایا اور انہوں نے جس طرح پوری دنیا کے ضمیر کو احساس دلایا، اس سے بھارتی مسلمانوں کو بھی ایک بہت بڑا حوصلہ ملا۔ پلوامہ واقعے کے بعد تو کشمیر میں بھارت کا پورا غرور مٹی میں مل گیا۔ بھارت اپنے غبار بن کر اڑتے ہوئے غرور کو بچانے کے لیے پاکستان پر حملہ آور ہوا تو اس کو شرمناک شکست ملی۔ کل بھارت صرف اندر سے کمزور تھا اور آج بھارت باہر سے بھی کمزور بن چکا ہے۔ بھارت کے جرنیل ہمیشہ تکبر کے ساتھ اس مؤقف کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ ان کی جنگی تیاری پاکستان کے خلاف نہیں، بلکہ چین کے خلاف ہے۔ مگر اس بار مودی حکومت کے دوران جس طرح پاکستان نے بھارت کو جنگ کے ہر محاذ پر لوہے کے چنے چبوائے ہیں، اس سے بھارت بہت گھبرایا ہوا ہے اور چین کی خاموشی گھن گرج کر بول رہی ہے کہ جو بھارت دو دن بھی پاکستان کا مقابلہ نہیں کرسکتا، وہ ملک دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقت سے لڑنے کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے؟
بھارت کی ہمہ جہتی ناکامی نے مودی کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اس وقت مودی کو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ اپنی پوزیشن کس طرح بہتر بنائے اور اپنی طرف آنے والی شکست کی راہ کو کس طرح روکے؟ پہلے مودی کو اس بات کا یقین تھا کہ وہ دوسری بار بھی پردھان منتری کی گدی پر بیٹھے گا، پھر اس کا یقین شک میں تبدیل ہوا اور اب اس کی ناکامی کا امکان یقین میں تبدیل ہو رہا ہے۔ اس کی شکست کا ماحول اس کی شکست کے یقین کو مزید پختہ کر رہا ہے۔ مودی کا خیال تھا کہ وہ انتخابات میں ایک بہت بڑی قوت بن کر میدان میں اترے گا، مگر وہ ہار اور جیت کے لمحے سے قبل ہی مات کی آغوش میں جکڑتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ کانگریس تیزی سے اوپر آ رہی ہے۔ راہل گاندھی کا ساتھ دینے کے لیے اس کی پرکشش بہن پریانکا بھی میدان میں اتر آئی ہے۔ بھارت کی سیاسی جماعتوں کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح سے ملک کو مودی سے بچایا جائے۔ بھارت کو لگنے والے اندرونی اور بیرونی زخم مودی کی غلطی قرار دیئے جائیں۔ بھارت کو اپنی اقلیتوں کے ساتھ منظم کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ بات نہ صرف بھارت کی جنتا بلکہ بھارت کی سینا بھی اپنے حق میں بہتر سمجھتی ہے۔ ملک کی ساری قوتوں کو اپنے خلاف متحد ہوتا دیکھ کر مودی لڑائی سے پہلے ہی اپنی مات کو آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ مودی کو یہ بات سمجھ میں آچکی ہے کہ حالات نے اس کے مقدر میں مات لکھ دی ہے۔ اس مات سے اس کو کوئی چمتکار یعنی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ مودی اپنے اوپر لٹکتی ہوئی مات کی تلوار کے زخم سے بچنے کے لیے کرم کے مندروں سے زیادہ دھرم کے مندروں کے گھنٹے بجانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر وہ باتیں جو کبھی وہ آر ایس ایس کی فکری نشستوں میں سنتا تھا، وہ باتیں اس بار وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اس کو شدت سے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ پنڈت درست کہتے تھے جو اپنے پستک (دھرمی کتابیں) کھول کر اور آنکھیں بند کرکے بولنا شروع کرتے تھے۔ وہ پنڈت کہا کرتے تھے کہ ’’جب کسی منش (شخص) کی شکست یقینی ہوجاتی ہے تب اس کی مات موسم کا روپ دھار لیتی ہے۔ وہ موسم ہر طرف سے اس پر حملہ آور ہوتا ہے۔ جب مات موسم بن جائے تب اس سے بچنا ناممکن ہوجاتا ہے!‘ ‘ ٭
٭٭٭٭٭