فضائی حملے میں زبردست ناکامی اور مقامی و عالمی رسوائی کے بعد بھارت نے پاکستان کی بحری حدود میں بھی داخل ہونے کی کوشش کی، لیکن پاک بحریہ نے اسے ناکام بنا دیا اور اس طرح بھارت کو سمندری محاذ پر بھی سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پاک بحریہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہماری بحریہ نے اپنی اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ہر دم چوکنا رہنے کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے بھارتی آبدوز کا سراغ لگا لیا اور اس کی خود کو خفیہ رکھنے کی تمام کوششوں کا ناکام بنادیا۔ فضائیہ اور بحریہ کی ذلت آمیز شکست کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنی بری فوج کی صلاحیت اور مہارت آزمانا چاہیں تو پاکستان اس کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ جنگی جنون میں مبتلا نریندر مودی سے کوئی بعید نہیں کہ وہ یہ حماقت بھی کرڈالیں، کیوں کہ ان دنوں انتخابات کی وجہ سے ان کا ذہنی توازن برقرار نہیں ہے۔ تاہم بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن (ر) امریندر سنگھ نے اپنی مرکزی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر پاک بھارت جنگ باقاعدہ طور پر چھڑ گئی تو پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے گریز نہیں کرے گا۔ اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اس نے ایٹمی ہتھیار کھیلنے کے لیے نہیں رکھ چھوڑے ہیں، بیرونی جارحیت کی صورت میں ان کا استعمال ناگزیر ہوا تو پاکستان اپنی ایٹمی قوت کا مظاہرہ کرے گا۔ دنیا جانتی ہے کہ بھارت نے 1974ء میں پہلی بار ایٹمی دھماکہ کر کے پاکستان کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ پاکستان نے اس وقت تو بھارتی دھمکی کا کوئی جواب نہیں دیا، لیکن جلد ہی بھارت کے ایٹمی ماہرین کو اندازہ ہوگیا کہ پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ اس خوف کی وجہ سے بعد میں بھارت نے پاکستان کے خلاف کسی بڑی جارحیت کا ارتکاب نہیں کیا، لیکن بھارت کی انتہا پسند حکومتیں اپنے جنون سے مجبور ہوکر پھر اپنی عسکری صلاحیت کو آزمانے کے لیے آئے دن پاکستان کے خلاف جارحیت کے ارتکاب اور چھوٹی موٹی جھڑپوں سے باز نہیں آتیں۔ اپنے پہلے ایٹمی دھماکے کا پاکستان کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر چوبیس سال بعد بھارت کی عسکری و سیاسی قیادت کے دماغ میں ایک بار پھر خناس سمایا اور انہوں نے 1998ء میں بیک وقت پانچ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان میں خوف و دہشت پھیلانے کی کوشش کی۔ افواج پاکستان نے اس کا فوری جواب دینے کے لیے سیاسی حکومت کو راضی کیا اور پاکستان کے ایٹمی سائنسدانوں نے بھارت کے پانچ دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کر کے بھارت اور عالمی برادریوں پر ثابت کر دیا کہ وہ دنیا کا ساتواں ایٹمی ملک ہے۔ حیرت انگیز طور پر پاکستان کے ایٹمی دھماکے بھارت کی ایٹمی صلاحیت کا نہ صرف فوری اور بھرپور جواب، بلکہ اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ برتر ثابت ہوئے، جس کی عالمی شہرت یافتہ سائنسدان نے اسی وقت توثیق و تصدیق کر دی تھی۔
نومبر 2016ء میں بھی ایک بھارتی آبدوز نے پاکستان کی بحری حدود کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کی تھی، جو ناکام بنا دی گئی۔ 1965ء اور 1971ء کی پاک و ہند جنگوں میں بھارتی بحریہ سر توڑ کوششوں کے باوجود کراچی یا پاکستان کے کسی حصے کو نقصان نہ پہنچا سکی تھی۔ 2016ء کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ پاک بحریہ نے جدید ٹیکنالوجی سے لیس بھارتی آبدوز کا سراغ لگا کر اس کے مذموم مقاصد ناکام بنا دیئے۔ پاکستان کی جانب سے کہا گیا کہ اپنی امن پسندی کا مظاہرہ کرنے کے لیے بھارتی آبدوز کو نشانہ نہیں بنایا گیا، بلکہ ضروری معلومات کے بعد اسے جانے دیا گیا۔ افواج پاکستان کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی واضح بیان اب تک سامنے نہیں آیا، لیکن ذرائع ابلاغ میں سیاسی حلقوں کی جانب سے بھارتی آبدوز کو چھوڑ دینے کی خبریں عام ہیں۔ کوئی نہیں بتاتا کہ اس کو پکڑنے یا تباہ کرنے کے بجائے چھوڑ دینے کا فیصلہ کس نے اور کیوں کیا، جبکہ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو واپس بھیجنے کا فیصلہ اب تک متنازعہ ہے اور اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت شدید تنقید کی زد میں ہے۔ سینیٹر شیری رحمان کا کہنا ہے کہ بھارتی آبدوز پاکستان حدود میں داخل ہوئی، مگر حکومت نے اس پر چوں بھی نہیں کی اور اسے جانے دیا۔ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں کہ ہم پاکستانیوں کو گھروں میں گھس کر ماریں گے۔ پاکستان نے بھارت کا پائلٹ رہا کیا تو ادھر سے ہمیں تشدد زدہ اور مسخ شدہ پاکستانی شہری کی لاش ملی۔ فضائیہ کے بعد بحری دخل اندازی کی کوشش بھارت کا دوسرا بڑا حملہ ہے، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس میں بھارت اور اسرائیل کے علاوہ ایک تیسرا ملک ملوث ہے، لیکن اس کے نام کو خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے کسی دشمن کا نام بتانے سے حکومت کیوں ہچکچا رہی ہے۔ اگر وہ کوئی مسلمان یا پڑوسی ملک ہے تب بھی اس کا نام اور اس کے عزائم سے قوم کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر عمران خان کی ہمدردیاں بھارت اسرائیل اور کسی تیسرے ملک سے ہیں یا وہ اس معاملے میں کسی دباؤ کا شکار ہیں تو انہیں پارلیمنٹ، افواج پاکستان اور محب وطن سیاستدانوں، علمائے کرام، دانشوروں اور مفکرین کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ بصورت دیگر اسے ان کی اپنی حکومت کی اور پاکستان کی کمزوری پر محمول کیا جائے گا۔ اگر ہماری جانب سے اس طرح کی کمزوری کا مسلسل اظہار کیا جاتا رہا تو بھارت کے جنونی وزیر اعظم نریندر مودی کے حوصلے مزید بڑھیں گے، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے علاوہ خطے اور دنیا کا امن بھی شدید خطرے میں پڑ جائے گا۔ شکر ہے کہ فوجی قیادت کی جانب سے سیاسی قیادت کے یکطرفہ فیصلوں اور کمزوری دکھانے کے عمل پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ دنیا پر یہی تاثر قائم ہے کہ بھارت کے مقابلے پر پاکستان سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اور عوام کے بھی تمام حلقے اور طبقے ان کے ساتھ متفق و متحد ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا جنگی جنون پاکستان ہی کے لیے نہیں، بلکہ خود بھارت کے لیے بھی سنگین خطرات کا موجب ہے۔ جس کے خلاف وہاں کے سابق فوجی، دانشور، فنکار اور عوام سخت رد عمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستان کو بہرحال مسلسل بیدار و چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭