ہم سب آمر ہیں

جب ہم پاکستان کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تومایوس کن ہی نہیں، شرمناک حالات نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کا ایک شعر معمولی سی تبدیلی کے ساتھ عرض ہے۔
جب سے چمن ’’لٹا‘‘ ہے یہ حال ہوگیا ہے
غم دل کو کھا رہا ہے دل غم کو کھا رہا ہے
لیکن اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کچھ ستارے جھلملاتے نظر آتے ہیں۔ یہ ملک کا متوسط پڑھا لکھا طبقہ، دانشور، صحافی، وکیل اور تنویر ضمیر سے منور شہری ہیں۔ ظلم کرنا طاقتور طبقات کی Insterict ہے، وہ چوری سے باز آئیں گے کیا؟ اگر وہ انقلاب فرانس اور روس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں پھر بھی ظلم سے باز نہیں آئیں گے۔ کیا بچھو ڈنک مارنے کی عادت ترک کرسکتا ہے؟
بہت سے صحافی اور دانشور خرابی حالات کی ذمہ داری، دوچار حکمرانوں پر ڈال دیتے ہیں: غلام محمد، ایوب خان، یحییٰ خان، پرویز مشرف، زرداری، نواز شریف، لیکن سچی بات تو یہ کہ 1947ء سے آج تک جتنے لوگ اقتدار و اختیار کے مالک بنے، سب ہی یا تو نالائق تھے، یا گھٹیا کردار کے مالک تھے۔
پھر یہ کہ جمہوریت، کمیونزم، سوشلزم، سیکولرازم پاکستانی جیسے مفلس عوام کے لئے ناقابل فہم تھے۔ یہاں صرف ایک نظام کامیابی سے چلا، طوائف الملوکیت (انارکی) پسماندہ معاشروں میں ہر جگہ یہی نظام ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے قائداعظمؒ کی جیب میں کھوٹے سکے بہت تھے، ان سکوں کو چلانے کے لئے دھوکہ دہی، چالاکی، بے ایمانی کی ضرورت تھی۔ عوام و خواص اسی طرز زندگی کے عادی ہوگئے۔
حالات ٹھیک کرنے سے پہلے انہیں سمجھنا ضروری ہے۔ آپ اپنے معاشرے میں اپنے چاہنے والے سو، پچاس حضرات کے نام کاغذ پر لکھ لیجئے، پھر دیکھئے وہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ کس قدر، نرم یا سخت ہیں۔ معقول یا نامعقول فیملی کے طاقتور فرد کا اپنے گھر کے دیگر افراد کے ساتھ کیا رویہ ہے۔ اس کی طبیعت میں کتنی من مانی کی عادت ہے، کتنا تحکم ہے، کتنا غرور ہے، خوف خدا کتنا ہے، دین کی روح سے کتنی آشنائی ہے۔ مزاج میں سختی کتنی ہے اور نرمی کتنی۔ چالاک لوگوں سے معاشرہ بھرا پڑا ہے، لیکن عقلمند لوگوں کی بڑی کمی ہے۔ خود دار اور زندہ قوموں نے اپنے مسائل کو حل کرنا سیکھ لیا ہے۔ پاکستان کے مسائل اور درد لا دوا نہیں ہیں۔ صرف چارہ گر کو چارہ گری سے گریز ہے۔ غربت، جہالت، ناانصافی نے لوگوں میں بہت مایوسی پیدا کی ہے۔ ان کے لہجے میں طنز اور تلخی ہے، لوگ اونچی آواز سے بولتے ہیں۔ ڈراموں اور فلموں میں سڑکوں اور بازاروں میں ہر شخص زور زور سے بولتا ہے، کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ ان مسائل کا حل یہ ہے کہ سب سے پہلے غربت کم کرنے کے بڑے اقدامات کئے جائیں کہ غربت سے غیرت ختم ہو جاتی ہے۔ لوگ اگر بہت زیادہ غریب یا بہت زیادہ امیر ہوجائیں تو ان کے اندر غیرت ختم ہوجاتی ہے۔ وہ ظالم، جھوٹے، خود غرض اور کمینے بن جاتے ہیں۔ غربت ختم کرنے کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کئے جاتے ہیں۔
1۔ (الف) ملک کے تمام غریب اور بے گھر لوگوں کو ان کے اپنے علاقے میں 8-8 مرلے پلاٹ مفت دیئے جائیں۔ غریب سے غریب آدمی، کچا پکا مکان خود بنالیں گے۔ کوئی ایک لاکھ میں، کوئی دس لاکھ میں، ہر مکان میں، دو چار پھلدار درخت ایک آدھ دودھ دینے والا جانور اور مرغیاں رکھنے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ بنے بنائے دروازے کھڑکیاں، چھتیں بنانے کی انڈسٹری کو فروغ دیا جائے۔ ہر گھر کی چھت پر سولر انرجی پینل لگانے کی تدبیر کی جائے اور یہ کہ ہر آدمی اپنے گھر میں بیٹھ کر کسی نہ کسی قسم کا روزگار کاروبار کرسکے۔
(ب) کرپشن کو طاقت کے ذریعے روکا جائے۔
(ج) نوجوانوں کو ہنر سکھائے جائیں۔
(د) جاگیرداری ختم کی جائے، گو مشکل ہے مگر ممکن ہے۔
2۔ انتخابی قوانین اس طرح بنائے جائیں کہ دولت کا استعمال ختم ہو۔ متوسط طبقے کے پڑھے لکھے لوگ، دانشور اور ماہرین کو اسمبلیوں میں لانے کی کوشش کی جائے۔ خوشی کی بات ہے، بیداری بڑھ رہی ہے، لٹیروں پر لعنت برس رہی ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment