پاکستان سازشوں کے گھیرے میں

پلوامہ حملہ اور ایرانی گارڈز پر حملہ 24 گھنٹوں کے اندر اندر ہوا، جو بڑی سازش کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پاکستان کو تین طرف سے گھیر لیا جائے، افغانستان میں امریکہ بیٹھا ہوا ہے اور موجودہ افغان حکومت پاکستان مخالفت کسی بھی حد تک جاسکتی ہے، ایرانی گارڈز پر حملہ کروا کر یہ تاثر دیا گیا کہ پاکستان کی مدد سے حملہ ہوا جو اگرچہ غلط ہے، مگر ایرانیوں نے اس کو قدرے درست سمجھ لیا ہے، حسن روحانی کی حکومت نے اِس تاثر کو اپنے بیانات سے زیادہ گہرا کردیا، یعنی حالتِ کمزوری میں ایران وہ کچھ کرسکتا ہے جس کا کبھی سوچا بھی نہیں گیا ہو، ایک اُمید آیت اللہ خامنہ ای سے ہے کہ وہ مداخلت کرکے صورتِ حال کو بہتر بنا دیں، اب وہ ایسا کرتے ہیں یا نہیں یہ دیکھنے کی بات ہے، پھر بھارت کا جنگی جنون روز بہ روز بڑھ رہا ہے اور پاکستان اگرچہ دفاعی معاملے میں بہت مضبوط ہے، مگر سفارتی محاذ پر اُس کی ناکامی کھل کر سامنے آگئی ہے، جب اسلامی تعاون تنظیم (OIC) میں بھارت مہمانِ خاص کے ساتھ شامل ہوگیا ہے اور پاکستان نے بائیکاٹ کیا، یوں پاکستان کو اپنی ہی برادری سے باہر کردیا گیا، جبکہ پاکستان اسلامی تعاون تنظیم کا بانی رکن ہے۔ بھارت اور امریکہ کی سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ پاکستان کو تنہا کر دیا جائے اور پھر مشرقی پاکستان کے المیہ کو دہرا دیا جائے، جب 25 فروری 2019ء کو میرا بھارتی چینل سے ٹاکرا ہوا تو اُن کا مجھ سے سوال یہی تھا کہ کیا پاکستان ایک اور مشرقی پاکستان چاہتا ہے، میں نے اس وقت کہا تھا کہ ایں خیال است و محال است و جنوں، مگر اب جو منظر نامہ بنتا نظر آرہا ہے، وہ زیادہ خوش کن نہیں، اس کا رُخ اُسی طرف ہے جس خواہش کا اظہار بھارت کے جنونی دانشور یا دفاعی مبصر کررہے ہیں یا امریکہ جو منصوبہ بنائے بیٹھا ہے، جسے یینون پلان یا کرنل پیٹر رالف پلان کہتے ہیں اُس کی تکمیل کے لئے امریکہ افغانستان اور شام سے نکل کر عراق میں اپنا مستقر منصوبہ کی تکمیل کے لئے بنا رہا ہے تاکہ طالبان اور حزب اللہ کے دبائو سے آزاد ہو، یہ دو خودکش دھماکوں سے یکدم منظر شاید اس لئے بنایا گیا کیونکہ پاکستان ان کے تجزیات کے برخلاف معاشی بحران سے نکل کر استحکام کی طرف بڑھ رہا تھا اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) آپریشنل ہونے جارہی تھی، یہ بھارت سمیت کئی مغربی ملکوں کو بھی قابل قبول نہیں، بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول یہ کہہ چکے ہیں کہ بھارت اقتصادی راہداری کسی صورت بننے نہیں دے گا چاہے اُس کو داعش کو ہی کیوں نہ استعمال کرنا پڑے، مگر پاکستان نے حیرت انگیز طور پر دہشت گردی کو روکا ہے اور دہشت گردوں کے لئے پاکستان کی سرزمین تنگ کردی ہے، اس لئے بھارت کو کھل کر سامنے آنا پڑا ہے، فی الحال اُس کو سبکی کا سامنا ہے، اُس کے دو جنگی طیارے گرائے جا چکے ہیں، اس کا ایک پائلٹ مارا جا چکا ہے اور دوسرا گرفتار ہوا مگر خیرسگالی کے طور پر پاکستان نے رہا کردیا۔ اس کے علاوہ اُس نے کشمیر کی ورکنگ بائونڈری پر گولہ باری شروع کر رکھی ہے، جس میں اس کا جانی نقصان کافی سے زیادہ ہوچکا ہے اور پاکستان کے دو جوان بھی تادم تحریر شہادت پا چکے ہیں، اس کے علاوہ کئی سویلین بھی جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں، بھارت اشتعال انگیزی سے باز نہیں آ رہا ہے، وزیراعظم عمران خان، نریندرا مودی کو کئی مرتبہ فون کرچکے ہیں مگر وہ اُن کے فون کا جواب نہیں دیتے، اس طرح وہ پاکستان کی توہین کررہے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان کو اپنی ترقی اور خوشحالی کے لئے امن چاہئے اور اس لئے وہ ہرممکن کوشش کررہا ہے کہ بھارت کو سمجھائے کہ وہ اشتعال انگیزی سے باز آئے اور مل جل کر اس مسئلے کو حل کرے۔ یوں پاکستان دُنیا پر بھارت کی ہٹ دھرمی کو واضح کررہا ہے اور اپنی امن کی کوششوں کو دُنیا کو دکھا کر کسی بڑی جنگ شروع کرنے کا الزام اپنے اوپر لینے سے بچ رہا ہے۔ تاہم وہ عملاً بھارت کو ہر اشتعال انگیزی کی سزا دے رہا ہے، بدلہ لے رہا ہے، مگر بھارت کسی طرح بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہا ہے، اُس کو امریکی شہ ہے اور اسرائیلی تربیت کہ دُنیا کی ذرا فکر نہ کرو اور کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے رہو، جس طرح اس نے فلسطینیوں کو دبا کر رکھا ہوا ہے، اسی طرح بھارت کشمیریوں کی جنگ آزادی کو جبر ڈوکٹرائن کے تحت کچل دے، کشمیر میں جنگ آزادی اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ وہ اس سے سنبھالے نہیں سنبھل رہی ہے، اس کے سات لاکھ افواج کشمیر میں موجود ہونے کے باوجود تحریک آزادی کو دبا نہیں پا رہی ہے تو اس نے دس ہزار اور فوجی کشمیر بھیج دیئے ہیں، اس کے ہندو انتہاپسند جماعت آر ایس ایس کے دو ہزار غنڈے بھی جموں پہنچے ہوئے ہیں، وہ جموں میں مسلمانوں کی دکانوں کو جبراً بند کراتے دیکھے گئے، اس کے علاوہ پورے بھارت میں انتہاپسند ہندوئوں نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے، جگہ جگہ مسلمانوں کو مارا جا رہا ہے، کبھی گائے کے گوشت کھانے کے بہانے سے تو کبھی پاکستان اور اسلام کے خلاف نعرے لگانے پر مجبور کرتے ہوئے سوشل میڈیا میں دیکھا جا رہا ہے، اس کی وجہ سے بھی پاکستان میں شدید غم و غصہ ہے، جو کسی وقت بھی پھٹ پڑے گا، پاکستان کے ادارے بھارتی مسلمانوں کے تحفظ کے بارے میں سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے اور پاکستانی حکومت لیاقت نہرو معاہدہ پر عمل درآمد کرانے کی اپیل تک نہیں کرتی، شاید نئے حکمرانوں کو اِس معاہدہ کی موجودگی تک کا علم نہیں، بھارت کا رویہ عام آدمی کے لئے سمجھ سے بالاتر تو ہے، مگر یہ بات ہمارے سمجھ میں تو آرہی ہے کہ اس کے پیچھے اُسی طرح سے عالمی قوتیں موجود ہیں جیسا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے موقع پر تھیں۔ بھارتی پائلٹ کی عجلت میں واپسی نے عوام کی ذہنوں میں یہ وسوسے ضرور پیدا کردیئے ہیں کہ ہماری حکومت سفارتی اور دفاعی محاذوں پر وہ پوزیشن لے پائے گی جو وقت کی ضرورت ہے اور وقتِ ضرورت ہر وہ قدم اٹھائے گی، جو اس وقت کا تقاضا ہو یا پھر دبائو میں آ کر بھارت کی بالادستی قبول کرے گی یا مرعوب ہو کر یا انسانیت کے نام پر پاکستان کی حفاظت کے معاملے میں کمزوری سے کام لے گی، کیونکہ پاکستان میں صورتِ حال کافی گھمبیر اور کافی پیچیدہ نظر آتی ہے، بظاہر بھارتی پائلٹ کی عجلت میں رہائی کا جواز موجود نہیں تھا، مگر اس کو چھوڑ دیا گیا، اگرچہ اس کی رہائی میں سفارتی توقف لینے کا مواد موجود تھا، جو پاکستان کو اسٹرٹیجک اہمیت کے حصول میں ممدو معاون ثابت ہوتا مگر ایسا نہ کرکے بھارت کو یہ پیغام دیا گیا کہ ہم امن کے لئے اس سے بھی زیادہ کرسکتے ہیں، اس صورتِ حال میں ہمارے دو اور پڑوسی ممالک کوئی عمل کردیں یا وہاں بھارت یا عالمی طاقتیں کچھ نیا دہشت گردانہ حملے کرا دیتی ہیں تو وہاں سے بھی دبائو کے بڑھنے کے امکان موجود ہیں، اگرچہ اس وقت ایک ملک کو سمجھانے کے لئے ہمیں سفارت کاری کی ضرورت تھی، مگر پاکستان نے اب تک وہاں اپنا کوئی بڑا عہدیدار نہیں بھیجا۔ 1998ء میں جب ایسی ہی صورتِ حال پیدا ہوئی تھی تو ہم نے ایران میں سرتاج عزیز کو بھیجا تھا اور کشیدگی کم کرا دی تھی، یہاں تک کہ امریکی وزیر دفاع نے بحرین میں ایسا بیان دے دیا، جو ایران کی سمجھ میں آگیا کہ یہ پاکستان نہیں، بلکہ یہ امریکہ ہے، جو افغانستان میں اُس کے خلاف مورچہ لگانے کی سوچ رہا ہے، اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کو گھیرنے کی سازش کے تانے بانے خود پاکستان میں موجود ہیں، جو پاکستان کو تنہائی کی طرف لے جا رہے ہیں اور اپنی بے عملی صورتِ حال کو پاکستان کے خلاف کر رہے ہیں، جس کا نزلہ بہرحال ملک کی مسلح افواج پر پڑے گا اور اُس کو سنبھالنے کی کوشش میں دیر کرنا سم قاتل ہے۔ مزید برآں موجودہ حکومت جو ناتجربہ کار ہے، اُس کی بے عملی یا دیر عملی یا وقت پر ردعمل نہ کرنا صورتِ حال کو پاکستان کے خلاف کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس کے متحمل ہیں، اگر نہیں تو ایسا کیوں کیا جا رہا ہے، جس سے یہ صورتِ حال بنی کہ اسلامی تنظیم کانفرنس (OIC) میں بھارتی وزیر خارجہ تقریر کرلیتی ہیں اور بانی رکن پاکستان کی ایک نہیں سنی جاتی۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج ایران کا دورہ کرتی ہیں اور پاکستان کے وزیر خارجہ حرکت میں نہیں آتے اور ایران کے جنرل حضرات دھمکیاں دینے لگتے ہیں تو کیوں پاکستان کے وزیراعظم، آیت اللہ خامنہ ای سے جا کر نہیں ملتے اور اُن کو صورتِ حال سے آگاہ نہیں کرتے، آیت اللہ خامنہ ای کی پاکستان نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں کئی باتیں مانی ہیں، کیوں اُن کو یہ بات نہیں یاد دلائی جاتی کہ پاکستانی فوج عراق ایران جنگ میں ہر طرح کے دبائو اور مالی امداد کے لالچ کے باوجود ایران کے خلاف نہیں لڑی اور خود مالی نقصان اٹھا لیا۔ یہ سفارت کاری ہے اور اس کو ضرور بروئے کار لانا چاہئے، اسی طرح متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو سمجھانا چاہئے کہ انہوں نے سشما سوراج کو بلا کر اچھا نہیں کیا، ہمارے خیال ہے کہ یہ وقت ایسا ہے کہ پاکستان کے ہر ادارے، قوم کے ہر فرد کو پاکستان کی حمایت میں متحرک ہونا چاہئے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment