انسان کی تخلیق حق تعالیٰ شانہ کی ایسی حیرت انگیز تخلیق ہے کہ اگر وہ اپنے اندر ہی غور کرے تو حیرت زدہ رہ جائے۔ اس کا ادنیٰ سا معجزہ تو یہ ہے کہ اس کا زندہ رہنا تعجب کی بات ہے، نہ کہ مرنا۔ لوگ مرنے کو تعجب کی بات سمجھتے ہیں، خصوصاً بچوں اور نوجوانوں کی موت پر زیادہ رنج بھی کرتے ہیں اور تعجب بھی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے اس کا جینا اس کے مرنے سے زیادہ حیرت کی بات تھی۔ فرض کیجئے! کہ ایک شخص بیس سال کی عمر میں مرا، اس نے جو بیس سال گزارے، وہ ایسے حالات میں گزارے کہ اس کے اندر چار پہلوانوں کا ایک اکھاڑا تھا اور ان میں ہر ایک دوسرے کا دشمن تھا اور ایسا دشمن تھا کہ دوسرے کو مٹانے کے لئے اپنی پوری قوت صرف کر رہا تھا، یہ چار پہلوان کون ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے۔
عناصر اربعہ کی لڑائی:
انسان کے بدن کی ترکیب حق تعالیٰ نے چار چیزوں سے کی ہے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کی ضد ہے۔ یہ چار عناصر خاک یعنی مٹی، باد یعنی ہوا، آتش یعنی آگ، آب یعنی پانی ہیں۔ آگ اور پانی میں ازلی دشمنی ہے، پانی چاہتا ہے آگ کو بجھا کر فنا کر دے۔ آگ چاہتی ہے کہ پانی کو بھاپ بنا کر اڑا دے۔ ہوا چاہتی ہے مٹی کو اڑا کر لے جائے، مٹی چاہتی ہے کہ ہوا کو اپنے قریب نہ آنے دے۔ پہاڑ اور دیواریں اس کی مثال ہیں اور خدا کی قدرت دیکھئے کہ چاروں بدن میں پکی موجود ہیں۔ گویا حق تعالیٰ نے اضداد کو جمع کرکے اپنی قدرت دکھا دی ہے۔ عقل کا تقاضہ تو یہ تھا کہ جو چیز اضداد کا مجموعہ ہو، وہ بقاء سے زیادہ ہلاکت کے قریب ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی ایک پہلوان کی جیت انسان کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔ اس لئے تعجب اگر ہو سکتا ہے تو اس کی بقاء پر ہو سکتا ہے، نہ کہ فنا پر۔ فنا تو ہر وقت اس کے سر پر کھڑی ہے، اس لئے وہ ہر وقت خطرے کی حالت میں ہے۔ شیخ سعدیؒ نے اسی بات کو یوں فرمایا ہے۔
خاک و باد و آب و آتش ہمہ در کار اند
تا تُو نانے بکف آری و بہ غفلت نہ خوری
یعنی مٹی، پانی، ہوا اور آگ (اپنی جنگ میں) مصروف ہیں، تاکہ تو جو روٹی اپنے ہاتھ میں لے، اسے غفلت سے نہ کھائے۔ غفلت سے کھانے کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ یہ روٹی تیرے ہاتھ میں ہے، اسے تجھ تک پہنچانے میں زمین و آسمان، سورج اور کسانوں کی محنت اور ہوا و پانی کی قوتوں نے کام کیا ہے، اس لئے خدا کا نام لو اور اس کا شکر ادا کرو۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ بے فکری اور غفلت سے کھانا کھانے میں بعض اوقات ایسی غلطی ہو جاتی ہے، آدمی ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے، بلکہ واقعات سے ثابت ہے کہ موت واقع ہو جاتی ہے۔
کھانا کھانے میں بقاء سے زیادہ فنا کا سامان ہے:
انسان اپنی زندگی کو باقی رکھنے کے لئے جو سب سے زیادہ چیز استعمال کرتا ہے، وہ کھانا کھانا ہے، حالانکہ کھانا کھانے کا یہ عمل بقاء کے خلاف ہے اور بڑا ہی حیرت انگیز عمل ہے، لیکن چونکہ ہر شخص روزانہ یہ کام عادتاً کرتا ہے۔ اس لئے اس کے اجزاء پر غور نہیں کرتا، کھانا کھانے کی حقیقت یہ ہے کہ غذا کو تھوڑا تھوڑا منہ میں رکھئے اور اسے معدے تک پہنچا دیجئے، لیکن یہ اتنا آسان نہیں، جتنا سمجھا جاتا ہے۔ اگر قدرت آپ کی مدد نہ کرے تو ایک لقمہ بھی آپ اپنے اختیار سے معدے میں نہیں ڈال سکتے۔ سب سے پہلے اس کی ضرورت ہے کہ لقمہ گلے سے اتر جائے، یہ پہلا فعل ہی آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ آپ کو پتہ ہی نہیں کہ حلق سے معدے تک پہنچنے میں یہ لقمہ کتنے مراحل سے گزرتا ہے۔ اس کی تفصیل علم طب کا موضوع ہے، اس کا نہ یہ موقع ہے اور نہ وہ ایک مضمون میں آ سکتا ہے۔
البتہ آپ اتنا کام تو اپنے اختیار سے کرتے ہیں کہ لقمے کو دانتوں سے چبا چبا کر زبان کے ذریعے حلق میں دھکیل دیتے ہیں۔ حلق کے نیچے جو عمل ہوتا ہے، وہ بھی ہلاکت سے زیادہ قریب ہے، کیونکہ آگے دو نالیاں ہیں۔ ایک سانس کی اور ایک پانی و غذا کی۔ غذا یا پانی کا اگر کوئی ذرہ سانس کی نالی میں چلا جائے تو جان پر بن جاتی ہے۔ ہم کھانا بھی کھاتے رہتے ہیں اور سانس بھی لیتے رہتے ہیں۔ کھانا غذا کی نالی میں کس طرح آتا ہے اور سانس کی نالی میں کیوں نہیں جاتا؟ اس کی طبی وجہ تو یہ ہے کہ یہ دونوں نالیاں خودکار ہیں، جب غذا حلق سے نیچے جاتی ہے تو سانس کی نالی ایک لمحے کے کچھ حصے میں بند ہو جاتی ہے۔ اس باریک سے وقفے میں غذا اپنی نالی میں داخل ہو جاتی ہے۔ گویا انسان نے تو لقمے کو حلق سے نیچے اتار دیا، اس طرح گویا اس نے اپنے مرنے کا سامان کر دیا، اس میں اس کے اختیار کو کوئی دخل نہیں ہے۔ دونوں احتمال ہیں کہ غذا اپنی نالی میں نہ آجائے تو کچھ بعید نہیں، یہ بھی موت ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ سانس کی نالی کسی وجہ سے بند ہو جائے تو پھر بھی موت ہے، ثابت یہ ہوا کہ انسان تو دن میں تین مرتبہ اپنی ہلاکت کا سامان کرتا ہے، لیکن حق تعالیٰ اپنی عنایت سے اس کو بقاء کا سامان کر دیتے ہیں اور سنئے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ غذا کا کوئی ذرہ یا پانی کا کوئی جزو سانس کی نالی میں چلا جاتا ہے تو اچانک اچھو ہو جاتا ہے۔ یہ اچھو کیا ہے؟ یہ ہوا کی ایک طوفانی آندھی ہے، جو غذا کے اس ذرے کو پوری قوت سے باہر پھینک دیتی ہے اور آپ موت کے منہ سے باہر آ جاتے ہیں۔
اس سے بھی زیادہ خطرناک سانس کی نالی میں غذا کا پھندا لگ جانا ہے، کیا مصیبت ہوتی ہے، آنکھیں باہر نکل آتی ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ غذا کا نگلنا تو ہمارے اختیار میں ہے، کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ کوئی شخص ایسی تکلیف اپنے اختیار سے مول لے سکتا ہے۔ اگر اختیار میں ہوتا تو پھندا کیوں لگنے دیتا؟ حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے ایک وعظ میں فرمایا کہ ایک خوشی کی تقریب تھی، کھانا کھایا جا رہا تھا۔ وہاں ایک صاحب کو ایسا پھندا لگا کہ دم کے دم میں مر گئے۔ ساری دعوت مکدر ہو گئی اور خوشی ملیامیٹ ہو گئی۔ (رداء القلوب۔ از: تین مواعظ۔ ص217)
غذا کھانے کا مقصد کیا ہے:
یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب بہت سے لوگ نہیں جانتے ہوں گے، یوں تو غذا کے بہت سے کام ہیں۔ مثلاً خون بنانا، غذا میں موجود مختلف اجزائ، مختلف دھاتوں کو چن چن کر جن اعضاء کو ان کی ضرورت ہوتی ہے وہاں پہنچانا۔ مختلف قسم کے وٹامن سے جسمانی اور دماغی قوتوں کی کمی کو پورا کرنا وغیرہ، مگر اس کا اصل کام یہ امور نہیں ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انسانی جسم میں ہر وقت تحلیل ہوتی رہتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بدن کے بہت سے اجزاء اپنا کام پورا کر کے فنا ہوتے رہتے ہیں۔ غذا ان اجزاء کی کمی کو پورا کرتی ہے، ہماری کھال، ہماری ہڈیاں، ہمارا گوشت، ہمارے بال، یہاں تک کہ ہمارے ناخن بہت ہی چھوٹے چھوٹے خلیوں سے مرکب ہیں۔ یہ خلیے ہر وقت ختم ہوتے رہتے ہیں۔ غذا یہ خلیے بدن کو فراہم کرتی ہے اور آپ کی جسمانی قوت بحال رہتی ہے، آپ کی بقاء میں بہت بڑا کردار آپ کی کھال کا ہے۔ یہ آپ کے پورے جسم کا غلاف ہے، اسی غلاف نے آپ کے پورے وجود کو ایک ناقابل تسخیر قلعہ بنایا ہوا ہے۔ اگر یہ غلاف نہ ہو تو نہ آپ کی ہڈیاں، نہ آپ کا گوشت اور نہ آپ کا خون اپنے وجود کو باقی رکھ سکتے ہیں۔ یہ غلاف ایک متعین مدت میں اپنا پرانا وجود اتار کر بالکل نیا بن جاتا ہے، کیونکہ جلد کے خلیے ہر وقت بدلتے رہتے ہیں۔ اگر مجھے غلط یاد نہیں ہے تو صرف سترہ دن یا کچھ کم و بیش ایام میں آپ کی پوری کھال بدل جاتی ہے۔
غذا اور سانس کی نالیوں تک ہی آپ کی بقاء یا ہلاکت کا سبب نہیں ہیں۔ آپ کی بقاء کو ختم کرنے والے بہت سارے دشمن ہر طرف سے آپ پر حملہ آور ہوتے ہیں، لیکن آپ کی جلد کا قلعہ ان کو داخل نہیں ہونے دیتا۔ مختلف قسم کے بیکٹیریا اور جراثیم غذا اور سانس کے ذریعے اندر داخل ہو جاتے ہیں تو کھال کے نیچے خلیوں کی ایک قسم رینجرز کی طرح ان جراثیم کو موت کے گھاٹ اتارتی رہتی ہے۔ اس کی آسان تفصیل راقم کی تالیف ’’قرآن اور سائنسی انکشافات‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اب تک کی پوری گفتگو کا خلاصہ یہ ہوا کہ غذا صرف بقاء ہی کا ذریعہ نہیں ہے، بلکہ اس کا غافلانہ استعمال بقاء سے زیادہ ہلاکت کے قریب ہے۔
کیا یہ حق تعالیٰ شانہ کی قدرت کا عجیب نمونہ نہیں ہے کہ آپ کے جسم میں حیات اور موت کے بڑے طاقتور اسباب ہر لمحے ایک دوسرے کے خلاف جنگ آزما ہیں اور آپ دن رات سوتے جاتے اٹھتے بیٹھتے اور کھاتے پیتے سالہا سال زندہ رہتے ہیں اور آپ کو اس جنگ کا احساس تک نہیں ہوتا۔
ہمیں اپنی زندگی سے بہت پیار ہے۔ مرنا کوئی نہیں چاہتا، لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ ہم اپنی بقاء کے لئے اس ذات کے انعامات اور احسانات سے غفلت کا برتائو کرتے ہیں، جس کے ہاتھ میں ہماری بقاء کے سارے اسباب ہیں۔ اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہم ہر سانس کے آنے جانے اور ہر لقمے کے حلق سے اترنے پر اس کا شکر ادا کرتے۔ ہمارے ایک محسن ڈاکٹر نے جو بہت دین دار تھے، انہوں نے انگریزی میں ایک جملہ فریم کر کے لٹکایا ہوا تھا۔
’’جنت میں سب جانا چاہتے ہیں، مگر مرنا کوئی نہیں چاہتا۔ ‘‘
یہ گفتگو تو جسمانی بقاء کے متعلق تھی، جو کسی بھی وقت فنا ہو جانے والی ہے۔ جنت کی دائمی زندگی کے لئے اسی جسمانی زندگی میں سامان کرنا ضروری ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ خدا کے بندے بن جائو اور غفلت کو چھوڑ دو۔ رات کو سونے سے پہلے اپنے گناہوں سے استغفار کر کے سونا غفلت کا بہترین علاج ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭