تھر : غربت کا گھر

عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد اپنے عوامی جلسوں کی ابتدا تھر سے کی ہے۔ اگر نئے پاکستان کے نئے وزیر اعظم کی پہلی عوامی تقریر کو تھر کے ایک باسی کی سماعت سے سنی جائے تو ہمیں لبنان کے شاعر اور مفکر خلیل جبران کے یہ الفاظ یاد آجاتے ہیں کہ ’’اگر تم بھوکے شخص کے سامنے گانا گاؤ گے تو وہ تمہارا گیت پیٹ سے سنے گا۔‘‘
عمران خان صاحب کی پوری تقریر کو اہلیان تھر نے پیاسے گلے اور خالی پیٹ سے سنا۔ یہ تقریر سننے کے بعد نہ تھر والوں کے ہونٹ گیلے ہوئے اور نہ ان کے پیٹ میں بھوک کا درد کم ہوا۔ وہ جیسے آئے ویسے گئے۔ اس تقریب سے تھر کے چند افراد اپنے ساتھ ’’صحت کارڈ‘‘ لائے۔ گھر والوں نے پوچھا ’’وزیر اعظم نے کیا دیا؟‘‘ جواب میں تھر کے ایک شخص نے سر سے پگڑی اتارتے ہوئے کہا کہ ’’بیماری میں علاج کا کارڈ دیا ہے۔ اب انتظار کرو کہ کوئی بیمار ہو تو اس کارڈ کو آزمائیں۔‘‘ وہ کارڈ گھاس پھونس کی چھت والے مکان کی کچی دیوار کے دراز میں رکھ دیا گیا، اس چراغ کے مانند جس میں تیل نہ ہو۔
وزیر اعظم کی اس تقریب میں مقامی صحافیوں کو کوریج کے لیے اس لیے بھی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ منع کرنے کے باوجود بھی وزیر اعظم سے ایسے سوالات ضرور کرتے تو شاید وہ بات نکل پڑتی، جو بات دور تک جاتی ہے۔ صحرائے تھر میں وزیر اعظم اس مقام پر تقریر کر رہے تھے، جس مقام پر ہمارے ملک کی سرحد بھارت کی سرحد سے ملتی ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے عوامی جلسوں کا آغاز ان دنوں کیا، جن دنوں پاک بھارت کے آسمان پر جنگی جہاز تو محو پرواز نہیں ہیں، مگر فضا میں جنگ کے بادل موجود ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم کی تقریر تھر کے ان عام لوگوں کو بھی سمجھ میں آجاتی، جو صحرا کی زبان کے بعد صرف سندھی میں اپنا درد بیان کر سکتے ہیں، مگر اس تقریر میں ان لوگوں کے لیے کچھ نہیں تھا۔ وہی کوئلے کی باتیں اور وہی بیماری کی حالت میں علاج کی برائے نام سہولت!
وزیر اعظم جناب عمران خان کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے تھی کہ تھر کا بنیادی مسئلہ بیماری کا نہیں، بلکہ بھوک کا ہے۔ اگر تھر کی مائیں کمزور بچوں کو جنم دیتی ہیں تو اس کا سبب بھی خوراک کی کمی ہے۔ اگر تھر میں بچے جنم لینے کے بعد بہت جلد مر جاتے ہیں تو اس کا سبب بھی یہ ہے کہ ان کی ماؤں کے دل میں مامتا تو بہت ہے، مگر ان کے وجود میں دودھ کی وہ دھار نہیں جو ایک بچے کی صحت کو سیراب کر سکے۔ تھر کا مسئلہ بیماری نہیں، تھر کا مسئلہ بھوک ہے۔ وزیر اعظم سبب کو ختم کرنے کے بجائے اثر پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے پاس جتنا بھی وقت تھا، وہ وہاں سیاسی جوڑ توڑ اور تھر کے لوگوں کو خطاب کرنے کے سلسلے میں نوٹس لینے میں صرف ہوا۔ اگر وزیر اعظم عمران تھر میں تقریر کرنے کے بجائے ان لوگوں سے وہ گفتگو کرتے، جس کو سندھی زبان میں ’’کچہری‘‘ کہتے ہیں تو شاید وزیر اعظم سمجھ جاتے کہ تھر والے کیا چاہتے ہیں؟ وزیر اعظم تھر کو سمجھنے کے لیے ان غریب اور مظلوم عورتوں سے ملتے، تو وہ انہیں تھر میں مریضوں اور ڈاکٹروں کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بارے میں بتاتیں۔ وزیر اعظم کو تھر سے اس تھری عورت کی کہانی معلوم ہو پاتی، جس عورت کو ڈاکٹر نے دوائی لکھ کر دی اور کہا کہ ’’سب سے اوپر والی دوائی صبح کو ناشتہ کرنے کے بعد کھانا‘‘ یہ بات سن کر اس عورت کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور اس نے کہا ’’ڈاکٹر صاب! کوئی ایسی دوائی دو، جو ناشتے کے بغیر کھاؤں۔ ہمارے پاس کھانے کے لیے ناشتہ نہیں ہے!!‘‘
کیا وزیر اعظم عمران خان تھر کی غریب عورتوں کی ایسی حقیقی کہانیاں سن کر انہیں ’’صحت کارڈ‘‘ دینے کی ہمت کرتے؟
ہر آنسو کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے۔ تھر میں بارش نہیں ہوتی تو آنکھیں برستی ہیں۔ وزیر اعظم اپنی سنانے کے بجائے اگر تھریوں کی سنتے تو انہیں بہت ساری کہانیاں سنائی جاتیں۔ انہیں سنایا جاتا کہ تھر میں یہ کہاوت عام ہے کہ ’’کمزور مویشی پر مچھر بھی بہت‘‘ تھر ایک کمزور جانور ہے۔ اس پر مسائل کے مچھر بہت ہیں۔ تھر میں صرف بھوک اور بھوک کے بطن سے جنم لینے والی بیماریاں نہیں ہیں۔ تھر میں جہالت بھی ہے۔ تھر میں علم کے چراغوں کو جلایا نہیں جاتا۔ تھر میں اگر علم ہو، وہ بھوک کا کوئی حل تلاش کریں، مگر تھر کو علم کی روشنی سے محروم رکھا گیا ہے۔ تھر میں علم صرف مخصوص طبقات کے لیے ہے۔ تھر میں بہت زیادہ غربت اور بہت کم امیری ہے۔ تھر کے تھوڑے سے امیر بہت زیادہ علم حاصل کرنے کے لیے اپنے بچوں کو حیدرآباد، کراچی اور اب تو اسلام آباد اور امریکہ تک بھیجتے ہیں۔ وہ امیر تھریوں کے بچے جب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس تھر لوٹتے ہیں تو اپنے علم سے اپنے غریب تھری بھائیوں کی مدد کرنے کے بجائے ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تھر میں صرف علم کی کمی نہیں۔ تھر میں عقل کی کمی بھی ہے۔ اگر تھر کے عوام میں عقل ہوتی تو آج تک وہ نیم غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے!!؟ تھر میں قومی ظلم نہیں، بلکہ طبقاتی جبر ہے۔ وزیر اعظم عمران خان یا کوئی بھی سیاستدان، جب بھی تھر میں آتا ہے، تب وہ اپنی پسند کے بین بجاتا ہے۔ تھر میں وزیر اعلیٰ کے ساتھ بلاول آتا ہے تو وہ اپنی گلابی اردو میں وفاقی حکومت کی بینڈ بجانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ تھر کے مسائل کا سبب وفاقی حکومت کی عدم توجہی کو قرار دیتا ہے۔ تھر میں وفاقی حکومت کا نمائندہ آتا ہے تو وہ تھر میں موجود غربت کا کارن سندھ حکومت کی کرپشن بتاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تھر کی طرف وفاقی حکومت کا دھیان نہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ تھر کے حصے کا حق کرپشن چبا لیتی ہے، مگر ہر حقیقت سے آگے بھی ایک اور حقیقت ہوتی ہے۔ تھر میں غربت اس شعور کی کمی کے باعث ہے، جو شعور علم اور عقل کے سنگم سے جنم لیتا ہے۔ تھر میں جو بھی علم اور عقل والا آتا ہے، وہ تھریوں کے درد دکھانے کے لیے آتا ہے۔ تھر میں جب بھوک کے باعث انسان اور جانور مرنے لگتے ہیں، تب این جی اوز کے بابو لوگ گِدھوں کی طرح صحرا پر منڈلانے لگتے ہیں۔ وہ علمی اور عقلی پرندے انتظار کرتے ہیں کہ تھر میں قحط پیدا ہو تو ان کے پراجیکٹ منظور ہو سکیں۔
تھر وہ لاش ہے، جس پر بہت سارے زخم ہیں اور ہر زخم کے پیچھے الگ الگ ہاتھ ہیں۔ تھر ہماری اجتماعی بے حسی کا مظہر ہے۔ تھر کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس کی بات کوئی نہیں سنتا۔ ہر کوئی اپنی سنا کر راہ لیتا ہے۔ ہمارے حکمران اور سیاستدان ایسے ڈاکٹر ہیں، جو تھر نامی مریض سے بات کرنا گوارا نہیں کرتے۔ وہ اس کی تکلیف سنے بغیر اس کو دوائی دیتے ہیں۔ تھر وہ مریض ہے، جس کے درد کی زبان کو کسی مسیحا کی سماعت نصیب نہیں ہوئی۔ یہ ہی سبب تھا کہ موجودہ حالات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے تھر کی آدھی آبادی کو ہندو کہا اور ان سے یکجہتی کا اعلان بھی کیا۔ حالانکہ تھر کی نصف آبادی پر سب سے زیادہ جبر ان ہندوؤں کا ہے، جو تھر کے غریب غیر مسلموں کو ہندو نہیں سمجھتے۔ وہ انہیں اپنے مندروں میں عبادت کرنے کا حق نہیں دیتے۔ وہ انہیں اپنے شمشان گھاٹوں میں مردے جلانے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہیں۔ صدیوں سے دھرم کے نام پر ذلت کی چکی میں پسنے والی اس آبادی نے اب جب اپنی شناخت دلت کے نام سے کی ہے، تب تھر کے برہمنوں کو نچلی ذات والوں کے ووٹ یاد آئے ہیں۔ تھر میں غریب لوگوں کے لیے صرف جینا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ تھر کے مظلوم انسانوں کے لیے مرنا بھی مسئلہ ہے اور مرنے کے بعد بھی انسان کے مسائل ختم نہیں ہوتے۔
تھر کے لوگ غربت کے باعث قرض کے مرض میں مبتلا ہیں۔ جب وہ قرض ادا نہیں کر سکتے اور چھوٹے قرض دینے والے این جی اوز کے ادارے یا بینک والے انہیں پریشان کرتے ہیں تو وہ خود کشی کر لیتے ہیں۔ تھر میں خود کشی کی روایت بہت پرانی اور بے حد عام ہے۔ جب بھی کوئی تھری اور خاص طور پر تھری عورت پریشان ہوتی ہے، تب وہ کنویں کا رخ کرتی ہے۔ تھر کی عورتیں کنویں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرتی ہیں۔ شاید اس کا سبب یہ ہے کہ وہ ساری زندگی پیاس میں گزارتی ہیں اور وہ سوچتی ہیں کہ مرتے ہوئے تو ان کی پیاس بجھ جائے۔ شاید جنموں سے پیاسے لوگوں کے لیے پانی پی کر موت کی آغوش میں جانا زیادہ آسان ہوتا ہے!!
ہماری سیاسی پارٹیوں کے پاس تھر کو دینے کے لیے وہ کچھ ہے، جس میں تھر کے درد کی دوا نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے تھر سے پیپلز پارٹی کے خلاف سیاسی مقابلے کا اعلان کیا ہے۔ اگر عمران خان پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر مات دے گیا تو کیا تھر کی بھوک اور تھر کی پیاس ختم ہو جائے گی؟ پیپلز پارٹی تھر کی محرومی کا علاج اس میں دیکھتی ہے کہ بلاول ہر ہولی پر رنگوں سے کھیلنے جائے اور خوشحال خاندانوں کی ہندو لڑکیاں جھوم جھوم کر یہ گیت گائیں:
’’ہولی کھیلے کھیلے نند لال‘‘
رنگوں سے کھیل کر تھر کو خوشحال نہیں بنایا جاسکتا۔ تھر کی عورت کو باوقار اور مضبوط بنانے کا طریقہ یہ نہیں کہ این جی اوز کی آغوش میں پلنے والی ایک کرشنا کماری کو سینیٹر بنایا جائے اور پورے ملک کی عورتوں کو خواتین کے عالمی دن پر خوش کرنے کے لیے کرشنا کماری کو ایک دن کے لیے چیئرمین سینیٹ کی سیٹ پر بٹھایا جائے۔ غربت اور پسماندگی کا حل علامتی نہیں ہوتا۔
تھر کے ساتھ علامتی یکجہتی کا مظاہرہ مت کریں۔ تھر کے درد کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ تھر کا درد دوائی کی کمی کے باعث نہیں۔ تھر کا درد بھوک کی وجہ سے ہے۔ تھر کا درد پیاس کی وجہ سے ہے۔ تھر والوں کے سامنے تقاریر مت کرو۔ تھر والوں کو ہیلتھ کارڈ مت دو۔ تھر والوں کو عزت کے ساتھ روٹی دو۔ تھر والوں کو پیار کے ساتھ پانی دو!! ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment