ہر سال اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ گزشتہ روز بھی اقوام متحدہ کے دو سو سے زائد رکن ممالک میں یہ دن منایا گیا۔ عجب اتفاق کہ یہ دن بھی انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپئن اور سپر پاور کے واحد دعویدار امریکا میں خواتین کے ساتھ پیش آنے والے ایک شرمناک واقعے کی یاد میں منایا جاتا ہے اور آج بھی اسی عالمی تھانیدار کے ہاتھ لاکھوں بے گناہ خواتین کے خون سے رنگین ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل نیویارک میں کپڑے کی ایک فیکٹری میں مسلسل دس گھنٹے کام کرنے والی خواتین نے اپنے اوقات کار میں کمی اور اجرت میں اضافہ کے لیے آواز بلند کی تو پولیس نے ان پر نہ صرف لاٹھی چارج کیا، بلکہ ان محنت کش خواتین کو گھوڑوں سے باندھ کر سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ خواتین نے اس ظلم اور جبر کے خلاف احتجاج جاری رکھا اور بالآخر اُنیس سو دس میں میٹو پن ہیگن میں آٹھ مارچ کو خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں تقریباً سترہ ممالک کی سو سے زائد خواتین نے شرکت کی۔ اس کے بعد ہر سال آٹھ مارچ کا دن حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر مختلف سیمینارز، تقاریب اور پروگرام منعقد ہوتے ہیں، جن میں خواتین کے حقوق، ان کو درپیش مسائل، معاشرے میں ان کے کردار اور ان کی ترقی کے حوالے سے گفت و شنید ہوتی ہے۔ خاص کرکے خواتین کی آزادی پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ طاغوتی قوتوں اور ان کے مقامی آلہ کاروں کا مقصد اس آزادی سے عورت کی لباس سے آزادی، اس کے جسم تک رسائی، اسے بازاری پروڈکٹ بنانے اور مساوات مرد و زن کے کھوکھلے نعرے لگا کراپنی شیطانی ہوس کو پورا کرنے کی راہ ہموار کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ مگر صنف نازک کم فہمی کے باعث حقوق نسواں کیلئے آواز بلند کرنے والی این جی اوز کو اپنا محسن سمجھتی ہے۔ حالانکہ یہ این جی اوز خواتین کے حقوق کے نام پر درپردہ مغربی ممالک کے مذموم عزائم کیلئے سرگرمیاں سر انجام دیتی ہیں۔ ان کا سب سے اہم مقصد خواتین خصوصاً مسلم معاشرے کی مائوں، بہنوں، بیٹیوں کو خاندانی روایات اور مذہبی پابندیوں سے آزاد کرنا ہوتا ہے۔ آزادی نسواں کی اس پر فریب تحریک سے متاثر ہو کر مغربی معاشرے کی خواتین مردوں سے برابری کی دوڑ میں اتنے دور جا چکی ہیں کہ اب انہیں واپسی کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ سماجی طور پر اس کے تباہ کن اثرات کا مغربی معاشرہ خود مشاہدہ کر رہا ہے۔ ان ممالک میں خواتین کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ خاندانی نظام کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ جہاں ماں، بہن، بیٹی اور بیوی سمیت کسی رشتے کا تقدس باقی نہیں رہا۔ محبت، غیرت اور حیا کا جنازہ اٹھ چکا ہے۔ عورت محض ایک کھلونا بن چکی ہے۔ جسے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے۔ بن بیاہی مائیں اور کم عمری میں بچیوں کا حاملہ ہونا مغرب میں ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ بقول اقبالؒ، شاخ نازک پر آشیانہ بنے گا تو ناپیدار ہوگا۔ قدرت نے مرد اور عورت کو مختلف جسمانی سانچوں میں ڈھال کر انہیں جداگانہ صفات سے نوازا ہے۔ ہر ایک کی ذمہ داری بھی الگ الگ ہے۔ مساوات مرد و زن کا تصور ہی اس فطری قانون کے خلاف گویا جنگ کے مترادف ہے۔ اس کے باوجود پروپیگنڈے کے زور پر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ مغرب کی عورت آزاد اور تمام حقوق سے بہرہ مند ہے، جبکہ مسلم معاشرے نے عورتوں کو طرح طرح کی پابندیوں میں جکڑا ہے۔ اس لئے مسلم خواتین کو بھی ورغلانے کیلئے ہر ممکن حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں سعودی عرب کی ایک نوجوان لڑکی اپنے خاندان، وطن اور سب سے بڑھ کر مذہب کو چھوڑ کر ملک سے فرار ہوگئی تو کینیڈا نے فوراً اسے پناہ دیدی۔ دوسری جانب افغانستان، عراق، شام، برما، فلسطین اور کشمیر سمیت مختلف ممالک میں خواتین ظلم و جبر سہنے پر مجبور ہیں، مگر حقوق نسواں کے ان نام نہاد علمبرداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان کی مظلوم بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہیں۔ جو امریکا میں جرم بے گناہی پر چھیاسی برس قید کی سزاکاٹ رہی ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کو اقتدار میں آنے سے قبل سیاستداں، قوم کی بیٹی قرار دے کر انہیں واپس لانے کے دعوے تو کرتے ہیں۔ مگر عملاً اس کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جاتا۔ اس بار ایک ڈرامہ اور دیکھنے میں آیا کہ خواتین کے عالمی دن کو عافیہ صدیقی سے منسوب کیا گیا۔ تحریک انصاف کی رکن پنجاب اسمبلی سیمابیہ طاہر نے گزشتہ دنوں ایوان میں ایک قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ دنیا آٹھ مارچ کی اہمیت کو تو سمجھتی ہے، لیکن ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ان کے اہل خانہ کے دکھ اور تکلیف کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ ڈاکٹر عافیہ 2003ء سے امریکی فوجیوں کے ناقابل بیان بہیمانہ مظالم اور تشدد برداشت کر رہی ہیں، لیکن ان کی رہائی کیلئے کوئی بھی تدبیر کارگر نہیں ہو سکی۔ صوبائی اسمبلی پنجاب کا یہ ایوان اس سال آٹھ مارچ کے دن کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے صبر و عظمت کو سلام کرتے ہوئے انہی کے نام سے منسوب کرتا ہے۔ قرارداد میں وفاقی حکومت، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تمام بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کیا گیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کو ممکن بنایا جائے۔ اگر قراردادوں سے کوئی مسئلہ حل ہوتا تو مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرارداد کے باوجود ستر برسوں سے یوں لاینحل نہ رہتا۔ محترمہ سیمانیہ طاہر کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے کوئی تدبیر کارگر نہ ہوسکی۔ اس حوالے سے آج تک کسی حکومت نے سنجیدہ کوشش ہی نہیں۔ بارک اوباما اپنے دور حکومت کے اختتامی ایام میں بڑی تعداد میں قیدیوں کو رہا کررہے تھے۔ اگر ہماری حکومت ایک خط ہی امریکی صدر کو لکھ دیتی تو عافیہ رہا ہوجاتیں۔ لیکن نواز حکومت سے یہ کام بھی نہ ہوسکا۔ حالانکہ میاں نواز شریف انتخابی مہم کے دوران انہیں رہا کرانے کا وعدہ کرچکے تھے۔ دنیا کا ہر ملک اپنے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ امریکا نے اپنے ایجنٹوں کو قتل کرنے والے ایمل کانسی کو نہ صرف پکڑا، بلکہ سزائے موت بھی دیدی، پھر پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس اور کرنل جوزف کو بھی بچا کر لے گیا۔ عافیہ صدیقی کو دی جانے والی سزا کو نہ صرف دنیا بھر کے منصف مزاج لوگ، بلکہ خود امریکی عہدیدار بھی ظلم عظیم قرار دے چکے ہیں۔ کاش کہ کوئی ایسا حکمراں پیدا ہو جو حجاج بن یوسف جیسی غیرت کا مظاہرہ کرکے قوم کی اس مظلوم بیٹی کو کفار کی قید سے نجات دلا سکے۔ اس وقت بھی امریکا افغانستان سے بحفاظت انخلا کے حوالے سے پاکستان کا محتاج ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اگر چاہے تو اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے عافیہ صدیقی کو انصاف دلا کر تاریخ رقم کر سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭