’’بیٹا! آپ کو میری آواز آرہی ہے، ہیں جی؟‘‘ بابا جی کی کپکپاتی آواز بہت واضح تھی۔
’’جی بزرگو! بالکل ٹھیک آرہی ہے، حکم کریں۔‘‘
’’حکم نہیں، درخواست ہے۔‘‘ بابا جی نے یہ کہہ کر عجیب درخواست کر دی۔ وہ سیلانی سے کہنے لگے: ’’بیٹا! مجھے بارڈر پر جانا ہے۔‘‘
’’جی، ای ای ای…‘‘ سیلانی کا حیران ہونا فطری امر تھا۔
’’بابا جی! آپ کی عمر کیا ہے؟‘‘
’’پورے تہتر سال تین مہینے۔‘‘
’’بابا جی! آپ اس عمر میں وہاں جا کر کیا کریں گے…؟‘‘ سیلانی کی بات بیچ ہی میں رہ گئی۔ دوسری جانب سے بابا جی تیزی سے کہنے لگے: ’’جنگ میں لوگ کیا کرنے جاتے ہیں، آپ بس مجھے بارڈر پر پہنچا دیں، آپ مجھے بس حکم دیں، میں تیار ہوں اور میری عمر کو نہ دیکھنا، میں بالکل فٹ ہوں، ابھی بھی ہاتھ پکڑ لوں تو کوئی نکل نہیں سکتا، ہیں جی۔‘‘
’’لیکن بابا جی! ابھی وہ کھلی جنگ نہیں ہو رہی۔‘‘
’’میجر صاحب! کیوں نہیں ہو رہی، میں ٹی وی لگا کر بیٹھا ہوا ہوں، میرا خون جوش مار رہا ہے، انڈیا سے بڑے حساب لینے ہیں، آپ میری کوئی خدمت لگائیں، مجھے بارڈر پر بھیج دیں۔‘‘
تہتر سالہ حاجی امداد سیلانی کے ایک پرانے قاری، عبید الرحمان کے دادا ہیں۔ سیلانی کی عبید الرحمان سے پرانی یاد اللہ ہے۔ ایک نجی اسکول میں پڑھائے جانے والے قابل اعتراض نصاب پر عبید سے سیلانی کا رابطہ ہوا تھا، جس کے بعد عبید سے اچھی خاصی علیک سلیک ہو گئی۔ عبید کسی پرائیویٹ ادارے میں مارکیٹنگ منیجر ہیں۔ پاک بھارت کشیدگی کے دنوں میں عبید نے سیلانی کو کال کی اور کہنے لگے: ’’سیلانی بھائی! ایک مشکل میں پھنس گیا ہوں، آپ کی مدد چاہئے۔‘‘
’’ہاں ہاں کہو، یار کیا بات ہے۔‘‘
’’آپ کو تھوڑی دیر کے لئے آرمی افسر بننا ہے۔‘‘
’’کیا… کیا کہہ رہے ہو؟ کیا مطلب ہے آپ کا؟ میں کچھ سمجھا نہیں، آپ کہنا… میرا مطلب ہے آپ نے یہ سمجھ کیسے لیا؟‘‘ سیلانی کو غصہ آگیا۔
’’سر! میری بات تو سنیں، سیلانی بھائی جو آپ سمجھ رہے ہیں، ویسا ہرگز نہیں ہے، کیا آپ مجھے ایسا سمجھتے ہیں؟‘‘
’’آپ نے بات ہی ایسی کی ہے، مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا۔‘‘
’’آپ نے پوری بات سنی ہی کہاں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے دادا ابی کٹر پاکستانی ہیں، وہ بضد ہیں کہ کسی فوجی سے بات کرا دیں اور میرے دوستوں میں کوئی بھی فوجی نہیں۔‘‘
’’تو کسی کو بھی فوجی بنا دو، نظر انتخاب مجھ پر ہی کیوں آٹھہری؟‘‘
’’آپ اکثر فوج کے حوالے سے لکھتے رہتے ہیں ناں، تو بس آپ ہی کا خیال آگیا، دراصل ہم اپنے دادا ابی سے بہت پیار کرتے ہیں، سیلانی بھائی دادا ابی ہمارا سب کچھ ہیں، یہ ہمارے ابو کے چچا ہیں، انہوں نے اپنے بھتیجوں بھتیجیوں کی خاطر شادی نہیں کی، ہمارے دادا کا تو جوانی میں ہی انتقال ہو گیا تھا، انہوں نے ساری زندگی اپنے یتیم بھتیجے بھتیجیوں کی پرورش، تعلیم، ان کی تربیت پر لگا دی۔ شادی تک نہیں کی۔ اب بتائیں ہم ان کی کوئی بات کیسے ٹال دیں؟ میں دفتر سے گھر آتا ہوں تو ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ کسی سے بات ہوئی کہ نہیں؟ صبح جاتا ہوں تو یہی تلقین ہوتی ہے کہ آج بھولنا مت۔‘‘ عبید کے اصرار پر سیلانی بادل نخواستہ دادا ابی سے بات کرنے کے لئے میجر بننے پر راضی ہو گیا۔ عبید نے دادا ابی کے سامنے سیلانی کا نمبر ملایا اور پھر دادا ابی سے کہنے لگا: ’’ابی جی یہ میرے دوست ہیں اور فوج میں میجر ہیں، بات کر لیجئے۔‘‘
’’اچھا اچھا…‘‘ دادا ابی نے عبید سے فون لے لیا اور کہنے لگے: ’’فوجی بیٹا! اس وقت پوری قوم کی نظریں تم لوگوں پر ہیں، ان بنیوں سے اکہتر کا حساب بھی لینا ہے، شاباش شاباش پیچھے مت ہٹنا۔‘‘
’’جی جی آپ دعا کریں، ہم ان شاء اللہ مایوس نہیں کریں گے۔‘‘ سیلانی نے شرمندہ شرمندہ لہجے میں کہا۔ ایک طرف سچے پاکستانی کے پاکیزہ جذبات تھے اور دوسری جانب سیلانی کی ایکٹنگ… دادا ابی کہنے لگے: ’’بیٹا! میں نے ساری زندگی بڑی محنت کی ہے، اپنے بچوں کو لکھایا پڑھایا، کسی قابل بنایا، اب مجھ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے، الحمد للہ حج بھی کر لیا ہے، میں بالکل فارغ ہوں، مجھے آپ سے درخواست ہے کہ بارڈر پر بھیج دو۔‘‘
’’بزرگو! آپ وہاں کیا کریں گے؟ ہمیں آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے، ہم ہیں ناں وہاں۔‘‘
’’ارے بیٹا کسی نہ کسی کام تو آہی جاؤں گا، کچھ نہ کر سکا تو جائے نماز بچھا کر دعاؤں میں ہی لگ جاؤں گا۔‘‘ بابا جی کی بات سن کر سیلانی کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ بابا جی کے سامنے ہوتا تو ان کا جھریوں بھرا ہاتھ چوم کر سر پر رکھ لیتا۔ اس عمر میں یہ جذبہ۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بابا جی سے کیا کہے۔ دوسری طرف دادا ابی کہہ رہے تھے: ’’بیٹا! میں اتنا کمزور بھی نہیں ہوں، شوگر ہے نہ بلڈ پریشر، اسٹور کیپنگ کا اچھا تجربہ ہے، حساب کتاب کا کام بہت ذمہ داری سے کر سکتا ہوں، مجھ سے کوئی بھی کام لے لیا جا سکتا ہے۔‘‘ بابا جی کے جذبے نے سیلانی کو بھی جذباتی کر دیا۔ اس کی آواز بھرا گئی، لیکن اس نے خود پر قابو پایا اور گلا کھنکار کر کہا: ’’بزرگو! آپ کی دعا چاہئے، بارڈر پر دشمن کے سینے چھیدنے اور سینے پر گولیاں کھانے والے بہت ہیں، بس آپ کی دعاؤں کی ضررورت ہے، میں پھر بھی آپ کا نام نوٹ کر لیتا ہوں۔ شکریہ۔‘‘
’’بیٹا! اللہ تمہیں خالدؓ کی تلوار بنائے، دشمن کے لئے ضرب حیدری ثابت ہو، غیب سے مدد آئے، غازی بن کر لوٹو، تمہارے قدم نہ اکھڑیں، سبز پوش تمہاری مدد کو آئیں… بابا جی کی زبان سے دعاؤں کے میٹھے شیریں چشمے جاری ہوگئے۔ سیلانی نے شکریہ ادا کرکے لائن کاٹ دی۔ وہ اس اخلاص کے سامنے زیادہ دیر ایکٹنگ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ انگلیوں کی پوروں سے آنکھوں کی نمی صاف کرنے لگا۔ بھارت نے فروری کے آخر میں پاکستان پر چڑھائی نہیں کی تھی، سچ میں پاکستانی ہجوم کو قوم کے راستے پر چڑھا دیا تھا۔ اسلام آباد ٹھنڈے مزاج کے افسروں اور بابوؤں کا شہر ہے۔ یہاں لوگ فاصلوں سے ملتے اور رہتے ہیں، لیکن بھارتی جارحیت کی کوشش نے یہاں بھی فاصلے مٹا دیئے تھے۔ سیلانی نے کشمیر ہائی وے پر فوجی قافلہ دیکھ کر لوگوں کو پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے دیکھا۔ شکر گڑھ میں لوگوں نے فوجی کانوائے کا راستہ روک لیا، پھر کوئی فوجی جوانوں کو جوس کے ڈبے تھما رہا تھا تو کوئی چپس کے پیکٹ۔ ایک عجیب جذبہ تھا، جس نے منتشر قوم کو ایکدم سے یکجا کر دیا تھا اور جب پاکستان نے بھارتی مگ گرا کر ابھی نندن کو مہمان بنایا تو قوم کا مورال فلک کو چھو رہا تھا۔ لہو جیسے پارہ بن کر رگوں سے اچھلنے کو ہو۔ لوگ ایک دوسرے کا منہ میٹھا کرا رہے تھے۔ تکبیر کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ عجیب بات کہ کسی کے چہرے پر فکرمندی نہ تھی، کہیں خوف وہراس نہ تھا کہ بھارت پلٹ کر حملہ نہ کر دے۔ فوج نے بھی گرفتار پائلٹ سے پروفیشنل فوجیوں کی طرح برتاؤ کیا۔ گرفتار پائلٹ کو مشتعل ہجوم سے نکالا، ورنہ لوگوں نے تو وہیں اسے چیر پھاڑ کر رکھ دینا تھا۔ ان کا غصہ بجا تھا۔ وہ جنگی طیارے میں پاکستان کے لئے سستے ٹماٹر نہیں لایا تھا۔ وہ جہاز کے کاک پٹ میں ایک بٹن دبا کر جانے کتنوں کی موت کا سامان کرنے آیا تھا۔ لیکن پاک آرمی نے اسے غضب ناک لوگوں سے اپنی تحویل میں لے لیا۔ اسے طبی امداد دی۔ یہاں تک خیال رکھا کہ مرہم پٹی کے وقت کمرے کا دروازہ کھلا رہ گیا تو دشمن کے زخموں پر مرہم رکھتے ہاتھ رک گئے۔ کہا گیا کہ دروازہ بند کر دو، ٹھنڈی ہوا آرہی ہے۔ ابھی نندن کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا، جو ایک باوقار قوم کرتی ہے۔ حالانکہ ہم اسی دشمن کی قید سے رہائی پانے والے بوڑھے سپاہی مقبول حسین کو کٹی ہوئی نصف زبان کے ساتھ لے چکے ہیں۔ اس کے باوجود ہم نے اپنا وقار نہیں کھویا۔ ابھی نندن کو طبی امداد دی۔ نرم گرم بستر دیا اور اگلے دن حجامت بنوا کر نیا سوٹ پہنا کر واہگہ کی سرحد پار کرائی اور یہ سب بھارت کے جنونی ہسٹریائی میڈیا کی پاکستان مخالف مہم کے دوران کیا۔ اب خود بھارت میں نریندرا مودی کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ چبھتے ہوئے سوال ناگ بن کر پھن لہرا رہے ہیں کہ وہ ایف سولہ کہاں ہے، جو ابھی نندن نے گرایا تھا؟ وہ ساڑھے تین سو آتنک وادی کہاں ہیں، جنہیں پاکستان میں گھس کر مارا تھا؟ بھارت کی جنتا بھی کہہ رہی ہے کہ مودی نے الیکشن جیتنے کے لئے قوم کو جنگ کی حالت میں جھونکا تھا۔ مودی کی سیاسی پوزیشن مزید خراب ہوگئی ہے، لیکن سیلانی مودی جی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہے، جس نے ’’گھس بیٹھ‘‘ کا ناٹک کرکے مختلف سمتوں میں کھڑے پاکستانیوں کو شاہراہ پاکستا ن کا راستہ دکھا دیا۔ مودی جی دھنے واد… سیلانی یہ سوچتا ہوا گھر سے باہر نکلا اور ایک بچے کو سائیکل پر پاکستان کا بڑا سا پرچم لئے تمتماتے ہوئے چہرے کے ساتھ سائیکل چلاتا دیکھ کر مسکرانے لگا اور اسے جاتا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
٭٭٭٭٭