امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے اعتراف کیا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ ایوان نمائندگان کی مسلح افواج سے متعلق کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے امریکی جنرل نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانے موجود ہیں، یہ تنظیمیں پاکستان پر حملے کرتی ہیں۔ پاک و بھارت کشیدگی میں اضافے کی بڑی وجہ بھی یہی تنظیمیں ہیں۔ جنرل جوزف ووٹل نے یہ بھی بتایا کہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ جنوبی ایشیاء میں قیام امن اور علاقائی سلامتی و استحکام کے لیے پاکستان نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران جس قدر تعاون کیا ہے، وہ اس سے قبل اٹھارہ برسوں میں دکھائی نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان افغان تنازع حل کرنے میں مثبت تعاون کرے تو امریکا کے پاس پاکستان کی مدد کرنے کا یہ ایک اہم موقع ہوگا۔ خطے میں امن پاکستان اور امریکا کے مشترکہ مفادات کے لیے نہایت اہم ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اور اس کے محل وقوع کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے امریکی جنرل نے کہا کہ یہ روس، بھارت اور ایران کے سنگم پر واقع ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم اپنی وزارت خارجہ پر زور دیتے ہیں کہ وہ افغان تنازع ختم کرانے کے لیے اس کا سفارتی حل تلاش کرے۔ ہم اس امر کو بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا جائے اور مستقبل کے معاہدوں میں اس کا خیال رکھا جائے۔ امریکی مرکزی کمان (سینٹ کام) افغان معاملات پر نظر رکھنے اور وہاں فوجی سطح پر امریکی مفادات کے لیے کام کرنے والی فوج ہے، جو اردگرد کے ممالک پر بھی کنٹرول کر نے کے لیے قائم کی گئی۔ اس کمان کے سربراہ اکثر پاکستان اور افغانستان کے دورے کر کے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرانے کے لیے گفت و شنید کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے امریکی سینٹرل کمانڈ افغان مسئلے میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ سینٹ کام کے کسی سربراہ نے کھل کر اعتراف کیا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ اس کے ذمہ دار انہوں نے دہشت گرد تنظیموں کو قرار دیا ہے، جن کے ٹھکانے افغانستان میں موجود ہیں۔ جنرل جوزف ووٹل کے مطابق یہ تنظیمیں پاکستان پر حملے کرنے کے علاوہ پاک و بھارت کشیدگی میں اضافے کی بڑی وجہ بھی ہیں۔ افغانستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کرلینا وہ حقیقت ہے، جس سے امریکی انتظامیہ انکار بھی کرنا چاہے تو پاکستان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ایک تو اس لیے کہ ساری دنیا کھلی آنکھوں سے افغانستان میں امن و سلامتی کیلئے کی جانے والی کوششوں کودیکھ رہی۔ دوسرے یہ کہ کوئی تسلیم کرے نہ کرے، پاکستان افغانستان کے علاوہ خود اپنا مفاد بھی اسی میں سمجھتا ہے کہ افغانستان جنگ و جدل سے نکل کر ایک پُرامن، مستحکم اور خوشحال ملک بن کر ابھرے، اسی میں دونوں ملکوں کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک کی بھی بھلائی ہے۔
جنرل جوزف ووٹل کی اس بات سے مکمل اختلاف کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران جنوبی ایشیاء میں قیام امن اور علاقائی سلامتی کے لیے پاکستان نے جو کردار ادا کیا ہے، وہ انہیں پچھلے اٹھارہ برسوں میں دکھائی نہیں دیا۔ پاکستان تو پہلے کٹھ پتلی افغان سربراہ حامد کرزئی کے دور سے آج تک سر توڑ کوشش کرتا چلا آرہا ہے کہ افغانستان میںکوئی مضبوط اور مستحکم حکومت قائم ہو جو ظاہر ہے کہ افغانستان کے تعاون اور ان کی فعال شرکت ہی سے ممکن ہے۔ چنانچہ پاکستان کی جانب سے کئی بار امریکا، کٹھ پتلی افغان حکومت، طالبان دور جنگجو گروہوں کے درمیان مذاکرات کی کوشش کی گئیں، لیکن امریکا نے طالبان کی اہمیت تسلیم کرنے سے انکار کرکے مذاکرات کو ہمیشہ ناکام بنادیا۔ اب سو جوتے سو پیاز کھا کر وہ خود طالبان سے مذاکرت کررہا ہے اور اس میں پاکستان سے تعاون کا طلبگار ہے۔ امریکا کے ساتھ پاکستان کے ’’مثبت‘‘ تعاون کا تذکرہ جنرل جوزف ووٹل کی زبان سے زیب نہیں دیتا کہ وہ دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور اور عالمی برادری پر اثر انداز ہونے والے ملک امریکا کی اہم سینٹرل کمانڈ کے سربراہ ہیں، وہ اس بات سے بے خبر نہیں ہوسکتے کہ پاکستان کا تعاون اور کوششیں کبھی منفی نہیں رہیں۔ بھارت جیسے اپنے بدترین دشمن ملک کو بھی پاکستان ہمیشہ امن کی پیشکش کرتا رہا ہے، مگر دوسری طرف سے کبھی مثبت جواب نہیں ملتا۔ الٹا پاکستان کو حملوں کی دھمکیوں اور الزام تراشی سے نوازا جاتا ہے۔ حالیہ فضائی اور بحری حملوں کی کوششوں میں اسے جس شکست اور ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، اس کے بعد بھی بھارتی وزیراعظم کی ہندو انتہاپسندی اورجنگی جنون کی کیفیت کم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ جنرل جوزف ووٹل نے خطے میں پاکستان اور امریکا کے مفادات کو مشترکہ قرار دیا ہے، حالانکہ دونوں ملکوں کے درمیان ہمسائیگی، زبان، مذہب، معاشرت اور تہذیب، تمدن کی کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی۔ خان لیاقت علی خان کے دور سے پاکستان اور امریکا ایک دوسرے کے دوست اور حلیف تصور کئے جاتے رہے، لیکن کمزور اور ایک نہایت طاقتور ملک کے درمیان یہ رشتہ دوستی کا نہیں، اکثر غلامی یا ماتحتی کا نظر آیا۔ امریکا اور نیٹو ممالک نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں، میں پاکستان کے بجائے بھارت کا ساتھ دیا جو دوسرے کیمپ سوویت یونین کا اہم رکن تھا۔ سوویت یونین اور اس کے حامی ملکوں نے نہ صرف بھارت میں اسلحہ ساز فیکٹریاں قائم کرکے، بلکہ جدید اسلحہ گولا بارود اور ٹیکنالوجی دے کر پاکستان کے خلاف جنگوں میں عملی مدد بھی کی۔ اس کے برعکس 1965ء کی جنگ میں، امریکا نے پاکستان کو اس اسلحے کے فاضل پرزے بھی دینے سے انکار کردیا تھا، جو خود اس نے پاکستان کو فروخت کئے تھے۔ پاکستان سے ایف سولہ طیاروں کی پیشگی رقم وصول کرنے کے باوجود امریکا نے معاملے کو کئی سال تک لٹکائے رکھا۔ 1971 کی جنگ میں تو امریکا نے سقوط مشرقی پاکستان میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اپنے فوجوں کی افغانستان سے واپسی کے دوران اور اس کے بعد بھی امریکا مجبور ہوگا کہ وہ پاکستان کو اہم کردار سونپے۔ افغانستان اور پاکستان کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک مثلاً روس، چین اور ایران بھی امن و سلامتی کے خواہاں ہیں۔ بھارت ہی ایک ایسا ملک ہے جو کسی سے بھی پائیدار دوستی کی خواہش نہیں رکھتا۔ افغانستان میں تو اس کا کوئی مستقبل ہے نہ کردار، خواہ امریکا کتنا زور ہی لگالے۔ لہٰذا امریکا کو اپنی برتری کے زعم سے باہر نکل کر زمینی حقائق کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے، اسے مسلسل جنگی جنون میں مبتلا بھارت کو چھوڑ کر دیگر امن پسند ممالک سے تعلقات استوار اور اچھی توقع رکھنی چاہئے۔
٭٭٭٭٭