بیرونی دباؤ کا تاثر

پاکستان اور بھارت پر جنگ کے بادل منڈلارہے ہیں، جو شاید اگلے ماہ کے بھارتی انتخابات سے پہلے نہ چھٹیں۔ اس خطرے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ انتہا پسند بھارتی وزیراعظم مودی اپریل کے انتخابات میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے پاکستان کے خلاف کوئی بڑا محاذ نہ کھول دیں۔ پاکستان کی فضائی اور سمندری حدود کی خلاف ورزی کا نتیجہ وہ اپنے ملک کی بدترین ناکامی اور ذلت آمیز رسوائی کے ساتھ دیکھ چکے ہیں، جبکہ زمینی کارروائی کی صورت میں بھارت شدید جانی و مالی نقصان سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اسی لئے عالمی رہنمائوں کے علاوہ بھارت کے سنجیدہ حلقے اور سابق فوجی افسر بھی مودی سرکار کو جنگ سے گریز کا مشورہ دے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے نریندر مودی کو ان دنوں انتخابات اور جنگ، دونوں کا بخار چڑھا ہوا ہے۔ ایسے مواقع پر سروے کرنے والی بعض ایجنسیاں اپنے مخصوص مفادات کے تحت کسی ایک یا دوسرے امیدوار کے حق میں جائزہ رپورٹیں پیش کرکے اسے آسمان پر چڑھانے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن ان کے جائزے اکثر غلط ثابت ہوتے ہیں۔ امریکا کے گزشتہ صدارتی انتخابات میں سروے کرنے والے تقریباً تمام مقامی اور بین الاقوامی ادارے اس بات پر متفق تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نہیں، بلکہ سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن ملک کی آئندہ صدر ہوں گی۔ اس کے دو اسباب بالکل واضح تھے۔ ایک، ہلیری کلنٹن کا سیاسی پس منظر۔ ان کے شوہر بل کلنٹن امریکی صدر رہ چکے تھے اور وہ خود بھی وزیر خارجہ کی حیثیت سے سیاست میں نہ صرف سرگرم و فعال تھیں، بلکہ عالمی سیاست میں اپنا مقام بناچکی تھیں۔ دوم، ہلیری کلنٹن کے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ کو نوآموز سیاستدان قرار دیا جاسکتا تھا۔ ان کی حیثیت ایک بڑے سرمایہ دار کی تھی۔ علاوہ ازیں دنیا بھر کے سیاسی حلقوں میں ان کے ذہنی توازن پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے ری پبلکن پارٹی سے صدر منتخب ہوکر ساری دنیا اور خود اپنے ملک کے لوگوں کو حیران کردیا۔ صدر بننے کے بعد بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمانوں اور کئی ممالک کے خلاف شدت پسندی میں کوئی کمی نظر نہ آئی تو امریکہ سمیت متعدد ممالک میں ان کے خلاف مظاہرے ہوتے رہے۔ بھارت میں بھی اس وقت تقریباً یہی صورتحال ہے۔ وہاں کے ذرائع ابلاغ کو نریندر مودی جنگی جنون میں مبتلا کر چکے ہیں۔ اب انہی ذرائع ابلاغ کے ابتدائی جائزے یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں بھی حکمراں جماعت بھارتی جنتا پارٹی کی سربراہی میں قائم این ڈی اے کو کامیابی حاصل ہوگی۔ 2018ء کے ریاستی انتخابات میں اگرچہ حکمران جماعت کی شکست کے بعد لوک سبھا میں اس کی جیت کے امکانات کم ہوگئے تھے، لیکن پاکستان کے خلاف حالیہ فضائی اور بحری جارحیت کے بعد وزیراعظم نریندر مودی کی شدت پسندوں میں مقبولیت کسی قدر بڑھی ہے۔ مودی سرکار کے مقبوضہ ذرائع ابلاغ توقع کر رہے ہیں کہ وہی ملک کے آئندہ وزیراعظم ہوں گے۔ دوسری جانب عالمی رائے عامہ کا خیال ہے کہ حالیہ اقدامات سے مودی کی ساکھ کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ جس کے نتیجے میں ان کی حکومت پاکستان کے ساتھ کشیدگی کم کرنے لگی ہے۔ دونوں ملکوں نے اپنے اپنے واپس بلائے گئے ہائی کمشنروں کو دوبارہ اسلام آباد اور نئی دہلی بھیج دیا ہے۔ پاکستان نے اپنی فضائی حدود طیاروں کی آمدورفت کے لئے کھول دی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرانے میں امریکا کی پس پردہ گفتگو، سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کی پاکستان آمد، بڑی طاقتوں اور عالمی رہنمائوں کی جانب سے امن برقرار رکھنے کی اپیلیں اور سفارتی تگ و دو نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ یورپی پارلیمان کے چالیس ارکان نے حالیہ کشیدگی پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان و بھارت پر امن مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کئے بغیر اور کشمیری عوام کو شامل کئے بغیر خطے میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے پاکستان کو اپنا اہم ترین اور فولاد جیسا اتحادی قرار دیتے ہوئے دونوں ممالک کو تلخیاں بھلاکر خوشگوار تعلقات استوار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ پاکستان کے خلاف نریندر مودی کے حالیہ اقدامات اور جنگ جیسی کشیددہ صورتحال پیدا ہونے پر پاکستان میں مکمل اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کیا گیا، لیکن وزیراعظم عمران نے بھارتی پائلٹ کو چھوڑنے اور بھارتی آبدوز کو واپس جانے میں کسی مشاورت کے بغیر عجلت کا جو مظاہرہ کیا، اس نے ملک میں ہم آہنگی اور یک جہتی کی فضا کو متاثر کیا ہے۔ وزیراعظم اپنے ہر خطاب میں اپوزیشن پر جس طرح گرجتے برستے نظر آتے ہیں۔ اس پر سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے ان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنا غصہ مودی پر نکالیں۔ حکومت نے کالعدم تنظیموں کی آڑ میں فلاحی کام کرنے، اسکول اور دینی مدارس چلانے والے اداروں کے خلاف کارروائی کرنے کا جو وقت چنا ہے، وہ بھی درست نہیں ہے۔ بھارت سے بار بار امن کی اپیلیں کرنے اور مذہبی جماعتوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے کے اقدام سے یہی تاثر پیدا ہوگا کہ یہ سب کچھ بیرونی دبائو پر کیا جا رہا ہے۔
کرکٹ کا جنون- ٹریفک جام اور شہریوں کی اذیت
پاکستان میں قومی کھیل ہاکی کو نظر انداز کرکے کرکٹ کو فروغ دینے میں جہاں مقامی و بین الاقوامی اداروں اور اشتہاری ایجنسیوں کا اہم کردار ہے، وہیں حکومتی سطح پر بھی اس کی مکمل سرپرستی کی جاتی ہے، حالانکہ برطانیہ سے آزادی کے بعد ہمیں وقت اور پیسے کا بری طرح زیاں کرنے والے اس کھیل سے پیچھا چھڑا لینا چاہئے تھا۔ غلامی کی اس یادگار کو فروغ دے کر ہم دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے تو دنیا کا مقبول ترین کھیل فٹ بال ہے۔ یہ دونوں کم وقت اور کم سرمائے میں تفریح کے علاوہ صحت برقرار رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ کرکٹ کے جنون میں مبتلا لوگوں اور ان کی سرکاری پشت پناہی کا سب سے زیادہ عذاب اہم شاہراہیں بند ہونے اور ٹریفک جام کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ہفتے کو کراچی میں میچ کے موقع پر نیشنل اسٹیڈیم کے اردگرد میلوں تک سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے لوگ کئی کئی گھنٹے تک ٹریفک کے ہجوم میں پھنسے رہے۔ ان میں بچے، بوڑھے اور خواتین بھی شامل تھیں، جبکہ علاقے میں واقع دو بڑے اسپتالوں آغا خان اور لیاقت نیشنل کے مریض بھی بری طرح متاثر ہوئے۔ جس زمانے میں نیشنل اسٹیڈیم قائم کیا گیا، وہ شہر سے یقیناً دور ہوگا، لیکن اب تو یہ کثیر آبادی کے عین مرکز میں ہے، پھر یہ کہ ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لئے نگرانی اور رہنمائی کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ ٹریفک جام کی جگہوں سے بہت پہلے اگر ٹریفک پولیس تعینات ہو تو دور ہی سے گاڑیوں کو مناسب سمتوں میں موڑ کر شہریوں کو شدید ذہنی و جسمانی اذیت سے بچایا جاسکتا ہے۔ حیرت ہے کہ تیرہ ہزار سے زائد پولیس اہلکاروں کی تعیناتی کے باوجود لاکھوں افراد کو ٹریفک ہجوم کے بدترین عذاب سے گزرنا پڑا۔ شائقین کے جنون کی طرح شہریوں کی سہولت کا بھی کچھ خیال کیا جائے تو حکومت کا کچھ بگڑ نہ جائے گا، بلکہ دعائیں ہی ملیں گی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment