روایتی ہتھیار…بھارتی سبقت ختم

نصرت مرزا
عام طور پر روایتی ہتھیاروں کی جنگ میں بھارت کی برتری تسلیم کی جاتی تھی اور اِس جنگ میں برتری کا دعویٰ نہ صرف بھارت خود کرتا تھا، بلکہ دُنیا بھی اِس کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتی تھی کہ پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار نہ ہوتے تو بھارت پاکستان کو ہڑپ کر جاتا۔ ایٹمی ہتھیاروں کے خوف یا اُس کی مار سے بچنے کے لئے بھارت نے دو نئے ڈاکٹرائن وضع کئے۔
ایک کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن، جس کے یہ معنی تھے کہ وہ پاکستان کے آٹھ کمزور علاقوں میں گھس کر بیٹھ جائے اور پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے۔ عمومی طور پر فوجی یونٹ اس طرح ہوتے ہیں کہ لڑاکا فوج، ٹینک کا بریگیڈ، میکنیکل بریگیڈ، توپ خانے، بری ہوائی فوج کے یونٹ الگ الگ ہوتے ہیں۔ بھارت نے 20 بلین ڈالرز خرچ کرکے مذکورہ یا کئی مزید یونٹ جمع کرکے آٹھ کمانڈ بنائی، جو ٹینکوں، توپوں، پل بنانے والی مشینری، میزائل ، جنگی طیاروں اور مسلح دستوں پر مشتمل تھی۔ کیونکہ ٹینک کی بریگیڈ یا اسٹرائیک فورس کا یونٹ جیسے ہی حرکت کرتا، پاکستان کو پتہ چل جاتا اور وہ اُس کے سامنے ویسے ہی یونٹ لا کھڑا کرتا، سب یونٹوں کو ایک کمانڈ میں دے کر اس نے آٹھ خوف ناک حملہ آور دستے تیار کر لئے اور سرعت سے حملہ کرنے کا خاص خیال رکھا۔ جواب میں پاکستان نے چھوٹے ایٹمی ہتھیار جو محدود تباہی پھیلاتے ہیں جن کو Tectical Nuclear Warheads کہا جاتا ہے، بنا ڈالے اور اِس کے ساتھ نصر میزائل بنا لیا، جو 60 کلومیٹر سے لے کر 160 کلومیٹر تک کے فاصلے پر بھارتی فوج کے جمگھٹے کو نشانہ بنا سکتا ہے اور اس جمگھٹے کو بھانپ بنا کر اڑا سکتا ہے، چاہے اس میں ٹینک ہو یا کوئی مشینری، اس سے جو تباہی و بربادی پھیلے گی، وہ اگرچہ محدود ہوگی، مگر پھر بھی بے تحاشہ نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔
جب پاکستان کا جوابی ہتھیار تیار ہوگیا اور نصب بھی کر دیا گیا تو بھارت کے ایٹمی پروگرام کے چیئرمین نے 2014ء میں کہا کہ اگر پاکستان نے محدود پیمانے کے ایٹمی ہتھیار استعمال کئے تو ہم ایٹم بم استعمال کریں گے، ہمارا جواب تھا کہ کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کو ہم نے اس کے ذریعے دریا برد کر دیا اور ہم یہ اس وقت استعمال کریں گے، جب آپ کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کا استعمال کریں گے اور ایٹمی ہتھیار آپ استعمال کریں گے تو ہمیں اپنے ہتھیاروں کو روکنے سے کس نے روکا ہے اور اس لئے بھی (Tactical Atomic Warheads) ایٹم بم مارنے کے زمرے میں نہیں آتا، کیونکہ یہ عام تباہی نہیں پھیلاتا اور پھر یہ جدید ٹیکنالوجی ہے۔ کہتے ہیں کہ روس اور امریکہ کے بعد پاکستان نے اس کا اظہار کیا ہے۔
جب بھارت کا یہ ڈاکٹرائن ناکام ہو گیا تو انہوں نے ایک اور ڈاکٹرائن بنایا، جسے Proactive Strategic Doctrine کہتے ہیں، یعنی کسی بڑے حملے میں جو فوجیوں اور گاڑیوں کی حرکت ہوتی ہے، اس سے پاکستان آگاہ ہو جاتا ہے، اس لئے بھارت نے یہ سوچا کہ پہلے وہ ایک جگہ سے کھڑے کھڑے حملہ کریں گے اور پھر پیچھے ہٹ جائیں گے۔ یاد رہے کہ بھارت کی پوسٹیں، اُن کے بارود خانے اور ان کے کمانڈ کمپائونٹس پاکستان سے 50 سے 150 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں اور وہ سب ہماری نظروں میں ہیں، بلکہ ہمارے نشانے پر ہیں، جیسا کہ 22 فروری 2019ء کو دُنیا نے دیکھا کہ ہم اندر گھس گئے اور بھارت کی بری فوج کے چیف آف آرمی اسٹاف کو نشانہ پر رکھ کر چھوڑ دیا، جائو تمہیں بخش دیا، نشانی کے طور پر اُن کے خالی میدان میں میزائل پھینک دیا، جو آرمی چیف کو نشانہ بنا سکتا تھا۔
پاکستان نے اس نئے بھارتی ڈاکٹرائن کا جواب بھی نصر سے دیا کہ ان کا یونٹ اگر حملہ کرے گا تو چاہے وہ پیچھے ہٹے یا آگے بڑھے، دونوں صورتوں میں اُسے تباہ کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد یہ کہنا درست ہے کہ 26 فروری 2019ء سے لے کر 4 مارچ 2019ء تک کے عرصے میں پاکستان نے بھارت کا روایتی ہتھیاروں میں سبقت رکھنے کا غرور توڑ دیا ہے۔
یہ بات اس طرح سمجھی جا سکتی ہے جیسا کہ بھارتی دفاعی ماہر پراوین سہوانی نے بیان کی ہے کہ بھارت نے پاکستان کی سرزمین کی خلاف ورزی کی جواباً پاکستان نے بھی بھارتی فضاء کی خلاف ورزی کی اور اُس کے دو جہاز گرائے، ایک جہاز کا پائلٹ مارا گیا، دوسرے کے پائلٹ کو پاکستان نے گرفتار کر لیا اور اُس کی مرہم پٹی کرکے چھوڑ دیا۔ بھارت اس کا بدلہ نہیں لے سکا۔ اس کے یہ معنی لئے گئے کہ بھارت کا روایتی ہتھیاروں کا خوف یا ڈراوا اختتام پذیر ہوا اور پاکستان کی دھاک بیٹھ گئی، نہ صرف بھارت بلکہ ساری دُنیا میں ان کا چرچا ہے۔
پروین سہوانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارتی فضائیہ کے ہواباز ابھی نندن کو چھوڑنے کا عمل بھارت کے خوف یا بھارت کی جنگی دھمکی کی وجہ سے نہیں ہوا، بلکہ یہ پاکستان کا اپنا اسٹائل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا ہی کارگل جنگ میں ہوا تھا، جب بھارت کے پائلٹ کو پکڑ لیا تھا اور جنگ جاری تھی، مگر پاکستان نے اُس کو رہا کر دیا تھا، اس لئے یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ پاکستان نے جنگ سے بچنے کے لئے ایسا کیا، جبکہ کارگل کی جنگ جاری رکھتے ہوئے پائلٹ کو رہا کر دیا گیا اور جنگ جاری رہی۔ دراصل بھارت کو پاکستان کی تیاریوں کے بارے میں پتہ نہیں تھا اور اس کے حکمراں کم تر درجے کے لوگ ہیں، وہ اپنی دھاک زبانی کلامی طریقے سے قائم کرنا چاہتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کو سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بھارتی خاتون صحافی امریتا نائیک دتہ نے اپنی 22 جنوری 2019 کے مضمون میں لکھا تھا کہ پاکستان کا روایتی ہتھیاروں کا دفاعی نظام بہت ٹھوس ہوگیا ہے اور اس طرح اس نے ایٹمی حملے کے نکتہ آغاز کو کافی پیچھے ہٹا لیا ہے، کیونکہ وہ روایتی ہتھیاروں سے بھارت کی جارحیت کو روکنے کی صلاحیت سے آراستہ ہو چکا ہے۔ یہ صحافی ThePrint نامی ڈیجیٹل نیوز کے لئے کام کرتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان نے کم لاگت سے بھارت کے روایتی ہتھیاروں کا توڑ تیار کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان نے اپنی جنگی حکمت عملی کو زیادہ متحرک و مستعد کیا ہے اور اپنے ہتھیاروں کو بھارت کے جواب دینے کے لئے زیادہ مؤثر بنا ڈالا ہے۔ اس نے 1989ء سے کام شروع کیا اور دو طریقوں سے بھارتی روایتی برتری کا جواب دینے کی صلاحیت حاصل کر لی۔ اس نے اپنے اسلحے کو انتہائی نظام کے ساتھ تیار کرایا، اُس نے رہنمائی کرنے والے بارود، میزائل، دشمن کی طرف سے آنے والے ایسے ہتھیاروں کا اپنے دفاعی نظام سے سدباب، دور مار اسلحہ اور سائبر ٹیکنالوجی کے استعمال والے آپریشنز پر دسترس حاصل کی۔ اُس نے ٹراق سے جواب دینے کا ڈاکٹرائن 1989ء میں بنا لیا، یعنی وہ ترکی بہ ترکی جواب دینے کی صلاحیت سے مزین ہوگیا ہے اور اس کا اظہار 27 فروری 2019ء سے 4 مارچ 2019ء میں بری، بحری، فضائیہ، سائبر اور سفارتی طور پر کرلیا ہے، اُس کو اپنے میڈیا پر اعتماد ہے، جو خود بخود میدان عمل میں آ کر اپنے فرائض ادا کرتا رہا، وہ دفاعی طور پر خود انحصاری کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور جدیدیت کے حوالے سے پاکستان نے شراکت داری کے اصول کو اپنایا، جیسے چین کے ساتھ مل کر ہتھیاروں، میزائلوں، بحری و فضائی طیاروں کی تیاری اور روس سے مل کر کئی اور معاملات پر تعاون۔ اس کے علاوہ پاکستان نے محفوظ اسٹرٹیجک فورسز جس میں آرمی، شمال و جنوب میں اُس کی چھ کورپس (چھہ کورکمانڈ) بھارت کی سرحدوں کے قریب لگا دی ہیں۔ پاکستان جنگی مشقوں کی وجہ سے حالت تیاری میں رہتا ہے اور چاک و چوبند فوج تیار کرلی ہے، جس نے نہ صرف دہشت گردی پر قابو پایا، بلکہ اپنے کئی اطراف کے دشمنوں کے دانت گھٹے کردیئے ہیں۔ دوسری طرف کسی بھی کمزوری کی حالت میں وہ محدود تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کرنے میں دیر نہیں لگائے گا۔ اس لئے بھارت کو ہوش کے ناخن لینا چاہئیں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment