مسجد اور مقتل

یہ صرف نیوزی لینڈ کی تاریخ کا نہیں، بلکہ اس یورپ کی تاریخ کا بھی تاریک ترین دن تھا، جس یورپ کا مؤقف ہے کہ دو عالمی جنگوں کے بعد اس کو معلوم ہوگیا ہے کہ امن کس قدر اہم ہے اور انسانی جان کی قیمت کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ مگر اس دن نیوزی لینڈ کے خوبصورت ترین شہر میں ہونے والی بدترین واردات نے ثابت کر دیا کہ انسان کے جان کی قیمت اب بھی پیتل کی وہ گولی ہے، جس میں کچھ بارود اور کچھ سیسہ بھرا جاتا ہے۔ وہ گولیاں جب چلتی ہیں، تب انسانوں کے جسموں سے خون کے فوارے پھوٹ نکلتے ہیں۔ وہ گولیاں جب چلتی ہیں، تب زندگیاں چیخوں میں بدل جاتی ہیں۔ وہ گولیاں جب چلتی ہیں، تب بہت ساری نبضیں رک جاتی ہیں۔ وہ گولیاں جب چلتی ہیں، تب بارود کی بو میں سرخ خون کی سیاہی دھرتی پر یہ تحریر کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ ’’انسان میں ابھی تک وحشت کا مادہ موجود ہے۔‘‘ اور یہ بھی کہ ’’انسان آخر انسان کب بنے گا؟‘‘ اور یہ بھی کہ ’’کاش! ہم پیدا نہ ہوتے!!‘‘
ایسے الفاظ اور ان الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ کرائسٹ چرچ نامی شہر کی اس مسجد کے فرش پر بھی تحریر ہوگئے، جس فرش کو صفائی والوں نے بہت جلد دھو دیا۔ وہ خون جو پانی کے ساتھ راستہ بناتا ہوا شہر کے گٹروں میں چلا گیا، وہ خون بڑی محنت اور ایمانداری سے وجود میں آیا تھا۔ اس خون کا قطرہ قطرہ قیمتی تھا۔ یہ خون صرف مسلمانوں کا نہ تھا۔ یہ خون ان انسانوں کا تھا جو اس ملک میں اپنے عقیدے کو تھامے کھڑے تھے، جس ملک میں 41 فیصد لوگ لامذہب ہیں۔ وہ معاشرہ بہت آزاد اور بے حد لبرل ہونے کے باوجود بھی ان انسانوں پر اثرانداز نہ ہو سکا، جو انسان آزاد ترین ماحول میں بھی اپنی ثقافت اور اپنے عقیدے کے مطابق ہر دن نہیں، تو کم از کم ہفتے میں ایک بار اپنا سر جھکا کر اس دنیا میں امن کے لیے دعا مانگتے تھے۔
وہ لوگ جو کرائسٹ چرچ کی مسجد النور میں جمعہ کی نماز پڑھ رہے تھے، ان پر گولیوں کی بارش نے کیا ثابت کیا؟ وہ ہر گولی جو خود کار ہتھیار سے نکلی اور مسجد میں موجود کسی مرد، کسی عورت یا کسی بچے کو نشانہ بنایا، وہ گولی اس بات کا ثبوت ہے کہ مشرق سے زیادہ وحشت مغرب میں ہے۔ وہ مغرب جو اپنی نام نہاد ثقافت پر فخر کرتا ہے۔ وہ مغرب جس کا خیال ہے کہ وہ دنیا کی رہنمائی کر رہا ہے۔ وہ مغرب جو لاکھوں لوگوں کو ان کے لہو میں ڈبو کر صرف ایک بچی کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھتا ہے تو اپنے آپ کو عظیم سمجھتا ہے۔ جب یورپ کے کسی ملک میں کسی ڈسکو میں یا کسی سڑک پر کوئی مجرمانہ واردات ہوتی ہے، تب پورے یورپ بلکہ امریکہ اور آسٹریلیا تک جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں، وہاں خوف اور عدم تحفظ کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ اگر پیرس کی کسی شام میں کوئی شخص کسی میوزک کنسرٹ پر فائرنگ کرتا ہے تو اس کو جنونی اور ذہنی مریض نہیں کہا جاتا۔ اس پر بغیر معائنہ اور بغیر کسی تفتیش کے ’’دہشت گرد‘‘ کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اس واقعے میں ملوث صرف ایک شخص کو قصوروار نہیں کہا جاتا، بلکہ دنیا کے سارے مسلمان شدت پسندی کے کٹہرے میں کھڑے کیے جاتے ہیں۔ جس شام بی بی سی، سی این این اور رائٹر پر کسی شدت پسندی کے واقعے کی تصاویر اپ لوڈ ہوتی ہیں، تب مغرب میں رہنے والے مسلمان فوری طور پر گھر لوٹ آتے ہیں۔ اگر وہ دکاندار ہوتے ہیں تو دکان جلد بند کر لیتے ہیں۔ اگر وہ ٹیکسی چلاتے ہیں تو گھر کی راہ لیتے ہیں۔ اگر وہ کسی اسٹور پر ملازمت کرتے ہیں تو صحت کی خرابی کا بہانہ بنا کر اپنے گھر کی راہ لیتے ہیں۔ ایک اتفاقی واقعے کے بعد پورے ’’مہذب‘‘ مغرب میں مسلمان غیر محفوظ ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ تہذیب ہے؟ کیا یہ تمدن ہے؟ کیا یہ شعور اور اعلیٰ ثقافتی آزادی ہے؟ کیا یہ انسانیت ہے؟
جب کسی گورے کے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہتھیار سے گولیاں نکلتی ہیں، تب اس کے ذہن پر تہمت عائد کی جاتی ہے، مگر جب ہتھیار چلانے والے ہاتھ سانولے یا سیاہ ہوتے ہیں، تب تفتیش کا پورا سسٹم تبدیل ہو جاتا ہے۔ تب معیارات بدل جاتے ہیں۔ سب کچھ الگ ہو جاتا ہے۔ صرف ناپ تول ہی نہیں، بلکہ وزن کی پیمائش والے اعداد و شمار بھی وہی نہیں رہتے۔
یہ دوغلاپن انسانیت کی سب سے بڑی توہین ہے۔ اس منافقت میں ایک مکاری چھپی ہوئی ہے۔ وہ مکاری بھی اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ انسان ابھی تک اپنے اخلاق میں مکمل نہیں ہوا۔ مغرب کے معاشرے میں سائنس کے ساتھ ادھورے انسان ہیں۔ سائنس انسان کو مکمل نہیں کرتی۔ سائنس انسان کو طاقت دیتی ہے۔ سائنس انسان کو سہولت بخشتی ہے۔ سائنس انسان کو لذت فراہم کرتی ہے۔ سائنس انسان کا بہت بڑا سہارا بن سکتی ہے۔ مگر سائنس انسان کو مکمل نہیں کر سکتی۔ انسان کی تکمیل سائنس کا ایجنڈا بھی نہیں ہے۔ سائنس ایک اندھی قوت ہے۔ اگر سائنس کے پاس طاقت کے ساتھ احساس بھی ہوتا تو کسی جدید ہتھیار سے کوئی گولی کسی بے گناہ کو قتل کرنے کا سبب نہ بنتی۔ اگر سائنس میں اخلاق ہوتا تو مغرب کا سر اس وقت شرم سے جھک جاتا اور کرائسٹ چرچ کی مسجد کے دروازے پر پھولوں کے گل دستے اتنے کم نہ ہوتے۔ جب پاکستان یا کسی مسلمان ملک میں موجود چرچ میں دھماکہ ہو جاتا ہے تب سارے مغربی ممالک اپنے شہریوں سے کہتے ہیں کہ مذکورہ ملک کی طرف سفر سے گریز کیا جائے، مگر جب ایک وحشی شخص کرائسٹ چرچ کی مساجد کو مقتل میں بدل لیتا ہے اور لندن سے لے کر لاس اینجلس تک کہیں پر بھی انسانیت پرست سیاہ لباس میں ملبوس ہوکر ٹیوب روز کے سفید پھول کرائسٹ چرچ میں شہید ہونے والوں کے نام کسی مسجد کے دروازے پر نہیں رکھتے تو پھر عالمی بھائی چارہ ایک بے معنی لفظ بن جاتا ہے۔
ہم نے دیکھا ہے اور متعد بار دیکھا ہے کہ جب غیر مسلم اور خاص طور پر سفید فام غیر مسلم دہشت گردی کا شکار ہوتے ہیں، تب میڈیا کے تخلیقی رائٹر بہت پر اثر الفاظ تراشتے ہیں اور ان کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ
پتھر سے بنی ہوئی آنکھوں میں اشک امڈ آئیں۔ مگر جب مغرب میں مسلمانوں کا خون بہتا ہے، تب ان کے پاس ’’افسوس‘‘ کا افسوس ناک لفظ ہی ہوتا ہے۔ وہ ایک لفظ بہت بڑے سانحے کو اپنی ننھی منی مٹھی میں قابو نہیں کر سکتا۔ مغرب کے حکمران، سیاستدان اور وہاں کے میڈیا مین، وہاں کے قانون دان اور ایکٹوسٹ اس سانحے پر موم بتیاں روشن کیوں نہیں کرتے، جو سانحہ یہ پتہ دیتا ہے کہ مغرب میں مسلمان محفوظ نہیں۔ جب دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تب مسلمان نوجوانوں کو قانون سے ماوار اٹھایا جاتا ہے اور انہیں بدترین اذیت سے گزارا جاتا ہے۔ اس وقت مغرب محبت اور انسانیت کے سارے سبق بھول جاتا ہے۔ اگر اس دنیا کو امن کا حقیقی گہوارہ بنانا ہے، تو پھر کابل پر ڈیزی کٹر بم پھینکنے سے گریز کیا جائے، عراق پر کارپیٹ بمباری نہ کی جائے اور سوڈان پر کروز میزائل نہ داغے جائیں۔ کیوں کہ وہاں بھی انسان بستے ہیں۔ ان کی رگوں میں بھی خون رواں رہتا ہے۔ انہیں بھی زندگی سے محبت ہوتی ہے۔ وہ بھی رشتوں کی ریشمی رسیوں میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے بھی کچھ آنکھوں میں خواب ہوتے ہیں اور جب وہ دنیا میں نہیں رہتے، تب ان خوبصورت آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔
مغرب کہتا ہے، مگر وہ اندر سے مانتا نہیں کہ مسلمان بھی اتنا ہی انسان ہے، جتنا غیر مسلم اور خاص طور پر سفید فام غیر مسلم! جس طرح صدیوں کے بعد چرچ نے یہ تاریخی اعلان کیا تھا کہ ’’گلیلو کے ساتھ ہم نے بہت بڑی زیادتی کی‘‘ اسی طرح ایک دن ایسا آئے گا جب سفید فام غیر مسلمانوں کو یہ تاریخی اعتراف کرنا پڑے گا کہ انہوں نے مسلمانوں سے بہت بڑی زیادتیاں کی ہیں۔ سفید فام غیر مسلموں کی تاریخ اس دن کی طرح تاریک ہے، جس دن ’’کرائسٹ چرچ‘‘ کے نام والے نیوزی لینڈ کے مشہور شہر میں دو مساجد کو مقتل بنانے کا سیاہ ترین سانحہ پیش آیا۔
کرائسٹ چرچ بہت خوبصورت شہر ہے۔ یہ شہر جس کے درمیاں ’’ایوان‘‘ کے نام والا دریا بہتا ہے۔ یہ شہر صرف خوبصورت نہیں، بلکہ اس کا نام بھی خوبصورت ہے۔ اگر اس نام کو انگریزی میں الگ الگ لکھا جائے تو یہ ایک چرچ کا نام بن جاتا ہے۔ دنیا میں ’’کرائسٹ چرچ‘‘ کے نام سے بہت سے چرچ ہیں۔ اس شہر پر یہ نام رکھنے والوں نے سوچا ہوگا کہ ’’یہ پورا شہر چرچ ہے‘‘ اور کل جب اس بہت بڑے چرچ میں دو چھوٹی مساجد کو مقتل میں تبدیل کیا گیا، تب کتنے عیسائیوں نے اپنی اپنی عبادت گاہوں میں گھنٹے بجائے؟ سرخ رنگ کی اینٹوں سے کتنے سرمئی رنگ کے کبوتر اڑے؟ کتنی ڈنیوب جیسی نیلی آنکھوں میں آنسوؤں کے سفید کنول کھلے؟
کاش! کوئی غیر مسلم مغربی شاعر ’’کرائسٹ چرچ‘‘ کے شہداء کے نام ایک مختصر نظم لکھے۔ وہ لکھے نذار قابانی کی طرح:
’’اے میرے محبوب مسیح!
صلیب سے اتر آؤاور چرچ کرائسٹ میں قتل ہونے والےانسانوں کی پیشانی پر اس طرح ہاتھ رکھوجس طرح ایک ماںمقتول بیٹے کو آخری بار چومتی ہے!!‘‘
٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment