امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لئے بجٹ میں 5 ارب 70 کروڑ ڈالر رکھنے کا مطالبہ کیا تھا، جسے ڈیموکریٹک پارٹی نے مسترد کر دیا۔ مشتعل امریکی صدر نے حکومت کو تالہ لگا کر وفاقی حکومت کے لاکھوں ملازمین کو فاقہ کشی کے عذاب میں مبتلا کیا، لیکن ڈیموکریٹس اپنے بات پر اڑے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ:
٭… امریکہ انہدام دیوار برلن (Berlin Wall) کا پرجوش حامی تھا اور اب اگر ہم خود ہی اپنے دوست ملک کی سرحد پر دیوار کی تعمیرکریں گے تو دنیا میں ہماری کیا ساکھ رہ جائے گی؟
٭… غیر ملکی تارکین وطن کی آمد کو روکنے کے لئے دیوار کی نہیں، بلکہ حفاظت و پہرے کے بہتر انتظام کی ضرورت ہے۔ سرحدی آمد ورفت پر نظر رکھنے کے لئے ٹیکنالوجی موجود ہے، جو دیوار سے کہیں زیادہ مؤثر و سستی ہے۔
٭… انتخابی مہم کے دوران صدر نے وعدہ کیا تھا کہ دیوار کی تعمیر کا خرچ میکسیکو اداکرے گا، لیکن اب ظاہر ہوا کہ ووٹ لینے کے لئے سفید جھوٹ گھڑا گیا تھا۔ صدر کی دروغ گوئی کا خمیازہ امریکی عوام بھگتنے کو تیار نہیں۔
چنانچہ دیوار کے لئے رقم مختص کرنے کے صدارتی مطالبے کو امریکی کانگریس نے یکسر مسترد کر دیا۔ کانگریس سے مایوس ہوکر صدر ٹرمپ نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا۔ حکم میں کہا گیا ہے کہ ملک کی جنوبی سرحدوں پر صورت حال بہت خراب ہے، امریکہ کو جرائم پیشہ غیر قانونی تارکینِ وطن کے ’’حملے‘‘ کاسامنا ہے اور اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے ہنگامی طور پر دیوار کی تعمیر ضروری ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے صدارتی حکم نامے کے خلاف عدالتوں میں درخوااست دائر کر رکھی ہے۔ اس فرمان کو امریکی کانگریس نے بھی مستردکر دیا۔ کل امریکی سینیٹ نے صدارتی فرمان کو واپس لینے کی قرارداد 41 کے مقابلے میں 59 ووٹوں سے منظور کرلی۔ یہ بل چونکہ ایوان نمائندگان سے پہلے ہی منطور ہو چکا ہے، اس لئے اسپیکر نینسی پلوسی نے اس دستاویز کو صدر ٹرمپ کی منظوری کے لئے وہائٹ ہاوس بھجوایا، جسے صدر ٹرمپ نے بغیر پڑھے مسترد یا ویٹو کر دیا۔ کانگریس دو تہائی ووٹوں سے صدارتی ویٹو کو غیر مؤثر کرسکتی ہے، لیکن دیوار کے مخالفین کے پاس اتنے ووٹ نہیں۔
اسی کے ساتھ یمن جنگ میں سعوی عرب اور متحدہ عرب امارات کی امریکی حمایت ترک کرنے کے مطالبے پر مشتمل قرارداد بھی ایک یا دو دن میں صدر کو بھجوائی جائے گی۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ’’میں نے ویٹو والے قلم میں روشنائی بھر لی ہے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ ویٹو کی آڑ میں کب تک چھپے رہ سکتے ہیں۔ اگر ان کے پاس ویٹو ہے تو ڈیموکریٹک پارٹی کو ایوانِ نمائندگان میں واضح اکثریت حاصل ہے اور صدر کے مخالفین کے پاس حکومت کو مفلوج کردینے کے بہت سے راستے موجود ہیں۔ صدر ٹرمپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت مینڈیٹ سے حاصل ہونے والی طاقت کے متکبرانہ استعمال کو نہیں کہتے، بلکہ یہ مخالفین کے مینڈیٹ کے احترام کا نام ہے۔
افغانستان، اصل حکمراں کون؟
صدر اشرف غنی کا دعویٰ ہے کہ وہ افغانستان کے منتخب صدر ہیں اور امریکی فوج افغان حکومت کی اجازت سے وہاں تعینات ہے۔ اسی بنا پر ان کی دلیل ہے کہ امن سمیت افغانستان سے متعلق تمام مذاکرات براہ راست کابل انتظامیہ کے تحت ہونے چاہئیں۔
تاہم افغان حکومت کتنی باختیار ہے، اس کا بھانڈہ کل خود امریکی وزیر خارجہ نے پھوڑ دیا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے عالمی عدالت انصاف یا ICC کو دہائی دی ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے اور اس کے بعض اقدامات جنگی جرائم شمار کئے جا سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں ICC کے ججوں پر مشتمل ایک وفد افغانستان کا دورہ کرنا چاہتا ہے۔ ICC کی اس جرأت پر امریکہ سخت برہم ہے۔ کل اپنے ایک بیان میں مائک پومپیو نے کہا کہ افغانستان میں ICC کی مداخلت امریکہ میں قانون کی حکمرانی پر حملے کے مترادف ہے اور ان کا ملک ICC کے وفد کو ویزا جاری نہیں کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر کابل انتظامیہ ایک بااختیار حکومت ہے تو ان کے ملک میں داخلے کے لئے ویزا دینے یا نہ دینے کا فیصلہ امریکہ کیسے کر سکتا ہے؟
الجزائر، چوری چلے گی نہ سینہ زوری:
الجزائز میں کئی ہفتوں سے حکومت کے خلاف ہنگامے جاری ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نے چند روز قبل ایک کالم میں کچھ معروضات نذر قارئین کی تھیں۔ جون 1990ء میں الجزائر کی مقبول ترین جماعت اسلامک سالویشن فرنٹ کو بزور طاقت کچل دینے کے بعد سے پہلی بار الجزائری عوام سڑکوں پر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ گزشتہ 20 سال سے ملک کے سرپر سوار عبد العزیز بوتفلیقۃ اقتدار چھوڑ دیں۔
گزشتہ ہفتے جب صدر صاحب علاج کرا کر سوئٹزرلینڈ سے واپس آئے تو انہوں نے آئندہ انتخاب نہ لڑنے کا اعلان کر دیا۔ عبد العزیز بوتفلیقۃ کے اس وعدے پر لوگوں نے اطمینان کا اظہار کیا، لیکن یہ خوشی دو دن بعد اس وقت کافور ہوگئی، جب الیکشن کمیشن نے انتخابات ہی ملتوی کر دیئے۔ صدر صاحب کا کہنا ہے کہ انتخابات سے پہلے مستقبل کے بندوبست پر قومی مفاہمت ضروری ہے۔
چنانچہ کل تقریباً سارا الجزائر سڑکوں پر آگیا اور ہر چھوٹے بڑے شہر میں زبردست مظاہرے ہوئے۔ کئی شہروں میں اسکارف پوش خواتین نے جلوس نکالے اور اب ’’ارحل یا عبد العزیز‘‘ (اے عبد العزیز ہماری جان چھوڑ دیجئے) کا نعرہ زباں زدِ عام ہوگیا ہے۔ فوج اب تک غیر جانبدار لگ رہی ہے، تاہم الجزائری صدر نے کہا کہ فوج، عدلیہ اور سیکولر و لبرل طبقے کو اپنی آنکھ کھول لینی چاہئیں کہ حالات 1990ء کی طرف جاتے نظر آرہے ہیں۔ گویا صدر عبد العزیز نے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ دیکھنا ہے کہ سیکولرازم کی پاسبان الجزائری فوج اس انتباہ کو کتنا سنجیدہ لیتی ہے۔
٭٭٭٭٭